میں جب فیس بک اور دوسری ویب سا ئٹس پر معصوم فلسطینی بچوں کے کٹے پھٹے بم زدہ جسم دیکھتا ہوں تو دل سے دعا نکلتی ہے کی آہ کاش زمین شق ہوجائے اور ہم اُس میں مد فون ہوجائیں۔جب آہ و بکا کرتی فلسطینی ماں جس کے ہاتھ میں اسکے چار سالہ لخت جگر کالاشہ ہے کی تصویر میری بے مروّت آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہے تو نہ جانے کیوں مجھے اپنی بے شرمی پر شرم محسوس ہونے لگتی ہے۔ جب ایک والدکا اپنے بچے کا آخری بوسہ لینے کا منظر دیکھتا ہوں تو نہ جانے کیوں میری بے حس طبیعت میں اُبال آجاتا ہے۔ واللہ یہ سب کچھ دیکھنے،سننے،سمجھنے اور محسوس کرنے کیلئے غیرت مند قلب و ضمیر کی ضرورت ہے جو مسلمانان عالم کے ہاں اب مفقود ہوچکا ہے۔قتل و بربریت کے مناظر،انسانی لاشوں کی بے توقیری،معصوم بچوں کے خوبصورت چہرے، انکی نیلی سبز لیکن بے نور آنکھیں،بزرگوں کے کاندھوں پر جوانوں کے جنازے،بین کرتی مائیں اور بہنیں،خون میں لت پت انسانی جسم،یہ چیخ و پکار،یہ گردو غبار۔۔۔ھل من ناصر ینصرنا کی آہ و فغان بلند کرنے والے یہ مظلوم فلسطینی۔۔۔یہ ہمارے جسم کا حصہ کہلانے والے ۔۔۔ کیا کوئی نہیں جو انکی داد رسی کرسکے۔کیا یہ لوگ انسانی دنیا کا حصہ نہیں۔ کیا ان کے انسانی حقوق نہیں۔ کیا ان کے معصوم ‘ معصوم نہیں۔ کیا یہاں کوئی بمبئی کے نریمان سینٹر میں دہشت گردی کا شکار ہونے سے بچ جانے والا موشے‘ کوئی ملالہ نہیں کہ جس کی خاطر میڈیا کی چینلیں شور و غوغا کریں۔واللہ آنکھیں اشکبار ،دل ماتم کنان اور ضمیر شرم سے پانی پانی ہے۔ آخر ہمارے یہ کلمہ گو بھائی اور بہن ہمارے دو آنسوؤں کے تو حق دار ہیں۔کیا ہم ان کیلئے دو اشک بھی نہیں بہا سکتے ۔ دل سوال کررہا ہے کہ کیا دنیا کے ایک اَرب سے زائد مسلمانوں کا اپنے فلسطینی بھایؤں کے تئیں کوئی ذمہ داری نہیں؟ عرب و عجم کے ۵۰ سے زائدمسلمان ممالک اور ان کے شان و شوکت والے حکمران جو بڑے بڑے محلاّت میں تزک و احتشام کے ساتھ رہ رہے ہیں کو کیا فلسطینی مسلمانوں کی یہ حالت زار نہیں دکھائی دے رہی ہے۔کیا یہ لوگ اتنے بے حس، اتنے بے ضمیر،اتنے بے مروت بلکہ بے غیرت ہوچکے ہیں کہ انہیں فسلطینی معصوموں کی گرد آلود لاشیں بھی نظر نہیں آرہی ؟ کیا وما لکم لا تقاتلون فی سبیل للہ والمستضعفین من الرجال و النساء والولدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ھٰذہ القریۃ الظالم اھلھا کی قرآنی صدائیں ان کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ تیں۔کیا انما المومنون اخوۃ کا قرآنی مژدہ ان کیلئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔کیا المسلم مراۃ المسلم کا فرمان نبوی ﷺانکے سامنے نہیں۔ وہ جو ہمارے نبی ﷺ نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا تھا کہ اگر ایک حصے کو تکلیف ہو تو دوسرا درد سے کراہتا ہے‘ کیا ہم سبھی نسیاً منسیا کربیٹھے ہیں۔واللہ یہ سب جان لیوا ہے۔ یہ سب چپ چاپ برداشت کرنے کے بعد بھی ہم اپنے آپ کو غیرت مند کہیں تو یہ غیرت کی بھی توہین ہے۔آخر اس سے بڑھ کر ہماری کیا بے توقیری ہوسکتی ہے۔ اس سے بڑھ کر ہم پر کیا عذاب نازل ہوسکتا ہے۔ اس سے بڑھکر ہم پر کیا گزر سکتی ہے۔ یہ جو فلسطینی اسرائیلی بم باری میں کٹ رہے ہیں ‘ جان لیجئے قیامت کے روز ہمارا غریبان ضرور پکڑ لیں گے۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے فرمایا تھا کہ جب کافر و ظالم کسی بستی پر چڑھائی کرکے وہاں قتل و غارت کا سامان پیدا کردیں تو اُس بستی کے قریب رہنے والوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ تو کیا وہ عرب جو ہم عجمیوں کی مانند علامہ ابن تیمیہ ؒ سے ناآشنا نہیں تک یہ پیغام نہیں پہنچا ہے۔آج فلسطینیوں پر جو قیامت صغریٰ بپا ہے۔ ان کے سینکڑوں لوگ اسرائیلی دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں۔ ان کی بستیاں چشم زدن میں مسمار کی جارہی ہیں۔ ان کے بازار اسرائیلی بموں اور آگ و آتش کا نشانہ ہیں۔ ان کی مساجد اسرائیلی میزائیلوں ہدف ہیں۔ اور ہم ہیں کہ اسرائیلی حملے کی توجیہات اور وجوہات تلاشنے میں مصروف ہیں۔ ہمارے علماء سے پوچھیں تو فرمائیں گے کہ ہمارے اپنے خطاؤں کی سزا ہے لیکن وہ اپنے آپ کو اس ’ ہم ‘ میں شامل نہیں سمجھتے۔دانشور کہیں گے کہ ہمیں مصلحت سے کام لینا چاہئے۔۔۔ہاں مصلحت اچھی ہے لیکن بتائے جب ایک انسان ‘ وہ جو کچھ ہوش و حواس رکھتا ہو‘ دو بم زدہ فلسطینی بچوں جو ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے ہیں‘ کے لاشے دیکھتا ہے تو کیا مصلحت کا پیمانہ لبریز نہیں ہوگا۔ معصوم بچے جو ماں کی پیٹ میں ہی اسرائیلی گولی کا نشانہ بنا کی تصویر کوئی ذی ہوش دیکھے گا تو کیا اُسکی انسانی حس بیدار نہیں ہوگی۔کیا وہ ایک ہی خاندان کے ۷ افراد کی بے گور و کفن لاشیں دیکھ کر بھی کوئی ذی ہوش انسان ’مصلحت‘ کے نام پر اپنی انسانی حس کو دبائے رکھ سکتا ہے۔آج جب یہ سطور رقم ہورہی ہیں یہ خبر آرہی ہے کہ اسرائیلی دہشت گردوں نے سمندر کنارے بیٹھے چار معصوم لڑکوں کو میزائیل مار کر شہید کردیا ہے ۔نیوز ایجنسیوں کے مطابق ۸ جولائی ۲۰۱۴ ء سے شروع ہونے والی اسرائیلی بم باری میں ۲۰ جولائی ۲۰۱۴ ء تک ۴۰۰ سے زائد فلسطینی تہہ تیغ کئے جاچکے ہیں جس میں ایک سروے کے مطابق ۸۰ فیصد سویلین شامل ہیں ۔ان میں سے بھی قریب ۳۰ فیصد کے قریب صرف بچے ہیں۔اس دوران کہا جاتا ہے کہ فلسطینیوں نے اسرائیل پرقریب ۱۵۰۰ دیسی ساخت کے میزائیل داغے جس سے کسی بھی اسرائیلی کو خرونچ تک نہیں آئی جب کہ اس کے جواب میں اسرائیلی افواج نے فلسطین پر ۳۰۰۰حملے کئے اور ۴۰۰سے زائد لوگوں کو شہید کردینے کے علاوہ قریب ۳۰۰۰اَفراد کو زخمی بھی کردیا ہے۔ا گر ایسے میں بھی کوئی مصلحت مصلحت کا راگ الاپے تو معاف کیجئے گا اسکی مصلحت بے غیرتی یا بے حسی ہی کہلائے گی۔اور رہے مسلمان حکمران۔۔۔لیلیٰ ء اقتدار سے لپٹے ان راہزنوں سے امید خیر رکھنا دن میں خواب دیکھنے سے بھی بدتر ہے۔بقول حسن نثار اگر یہ لوگ محض کورپٹ اور بے حس ہوتے تو خیر تھا لیکن یہ لوگ تو سفاک اور خون چوسنے والے جانوروں کی مانند ہیں۔یہ لوگ اپنے اقتدار کی خاطراِ ن سے جو طلب کیا جائے دینے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ۵۰ سے زائد مسلمان ممالک، مال و زر کا کوئی کال نہیں۔ وسائل کی کوئی کمی نہیں۔آدھی سے زائد آبادی تازہ دم جوانوں پر مشتمل ،آبادی ایک ارب سے متجاوز۔۔۔لیکن بے توقیری کا یہ عالم کہ چند لاکھ درندہ نما یہودیوں پر مشتمل امریکہ کا بغل بچہ اسرائیل ان کا منہہ چڑا رہا ہے۔ یہ لمبے لمبے چغے زیب تن کرنے والے حکمران،ایٹم بم سے لیکر ایف ۱۶ طیارے کے حاملین ممالک سبھی مٹھی بھر یہودیوں کے سامنے بے بس۔ ہٹلر جسے دنیا ایک ظالم و جابر بلکہ ظلم کی علامت تصور کرتی ہے‘ نے یہودیوں پر مظالم ڈھائے۔اس نے کہاتھا کہ ان یہودیوں کی سرشت میں فساد اور حیوانیت ہے۔ کتنا سچ کہا تھا ۔۔۔لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ آج پوری دنیا ایک طرف اور اسرائیل دوسری طرف ہے۔ آخر انسانوں کا خون بہانے والے اس ملک کو کیونکر ایسا کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔کیا وجہ ہے کہ ہٹلر جسے واقعتاً معتوب ہونا چاہئے پوری دنیا کیلئے ظلم کی علامت بنا ہوا ہے لیکن معصوم نہتے بچوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے اسرائیلی درندوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ آج جب کہ نہتے مظلوم فلسطینی اس کے بموں،میزائیلوں ،گولیوں اور شیلوں کا نشانہ بن رہے ہیں کوئی اسے کیوں نہیں روک سکتا۔ اُس امریکہ کوجو آزادی،جمہوریت اور انسان پرستی کی آڑ میں پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کو آسمان پر چڑھاسکتا ہے کو کیا ۴ سالہ فسلطینی بچی کا لاشہ نظر نہیں آتا۔کیوں اس دہشت گرد ملک کو آج پوری دنیا کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ امریکہ کا بدقماش تاجر ٹولہ جو ہر شئے کو اپنے تجارتی مفادات کی عینک لگاکر دیکھتا ہے اس قتل عام کا جواز یہ کہہ کر دے رہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا بھرپور حق ہے۔ نہ جانے فلسطینی بچوں پر بم باری کرکے کیسے اور کیونکر اسرائیل کا ناجائز وجود محفوظ ہوجائے گا۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا یہ آئے روز فلسطینی علاقوں پر چڑھ دوڑنا دراصل امریکہ کی اسلحہ ساز کمپنیوں کی ایماء پر ہی ہوتا ہے۔ ان اسلحہ ساز کمپنیوں کو اپنے نئے آلات حرب و ضرب کیلئے تجربہ گاہ کی ضرورت پڑتی ہے تو اس سازوسامان کو اسرائیل کے ہاتھوں دے کر فلسطینی شہروں اور شہریوں پر آزمایا جاتا ہے۔ ایک طرف سے سینکڑوں فلسطینی اسرائیلی بم باری میں کٹ رہے ہیں تو دوسری جانب یورپ کے مہذب کہلائے جانے والے آدم خور جرمنی،فرانس اور دوسرے ممالک اس کی مذمت کے بجائے اسرائیل پر فائر کئے جانے والے نامعلوم راکٹ حملوں کی مذمت کرتے نظر آرہے ہیں۔اگر کبھی کہیں کسی مسلمان کے ہاتھوں کوئی مارا جاتا ہے تو امریکہ سے لیکر یورپ تک انسانی حقوق کے چیمپئن بن جاتے ہیں لیکن آج بے گناہ فلسطینیوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں۔ وہ یورپ جسے مسلمان عورتوں کا پردہ کرنا حقوق نسواں کے خلاف لگتا ہے کو آج فلسطینی ماؤں کی آہ و بکا دکھائی نہیں دیتیں۔لیکن یہ گلے اور شکوے بالکل بے معنی ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر کہرام مچانے والے ممالک آج لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کیلئے ہمدردی کے دو حرف بھی نہیں بول سکتے۔ ہم اغیار سے کیا گلہ کریں جب ہمارے اپنے ہمارے ساتھ نہیں۔جب وہی پتے آگ کو ہوادینے لگ جائیں جن پر تکیہ تھا کہ دھوپ کی تمازت سے بچائیں گے تو کس سے اور کیسا گلہ۔ آج ہمارے ۵۰ سے زائد ممالک کے حکمران بے ہوش و حواس اس قتل عام کے خاموش تماشائی ہیں تو گلہ کس سے کریں۔ ابھی حال ہی میں مصر کے فرعون السیسی نے عرب لیگ کو قاہرہ بلایا تھااور وہاں ان لوگوں نے سیز فائر کیلئے کاوشیں کیں۔ حد تب ہوئی جب مصر کے ان حکمرانوں نے اسرائیلی بم باری کے بجائے فلسطینیوں سے ’ میزائل ‘ حملے روکنے کیلئے زور دیا۔ آج ہم مسلمان مسلکوں کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں مارنے میں شیر بنے پھر رہے ہیں۔ آج مصر میں ظالم فرعون مصر السیسی کی حکومت سیکڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کو تختہ دار کی سزا ئیں سنا رہی ہے تو ہم میں سے ایک طبقہ اُس پر خوش،شام میں حافظ الاسد مسلمانوں کو کیمیائی ہتھیار مار مار کر قتل کرتا پھر رہا ہے تو دوسرا طبقہ اُس پر شادمان،عراق میں اور لبنان میں ایک دوسرے کی مساجد کو مسمار کرنے پر ہمیں مسرتیں ۔ الغرض آج شام ،لیبیا،تیونس،پاکستان اور نہ جانے کہاں کہاں مسلمان ‘ مسلمانوں کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ لیبیا ،شام،عراق اور لبنان میں مسلمانوں کے ہاتھوں مساجد مسمار ہورہی ہیں ۔ ہر جگہ ’جہاد‘ کا شور و غوغا ہے۔ ہر سو ایک دوسرے میں جنت و جہنم کی سرٹفکیٹ بانٹنے کا کام سُرعت سے جاری ہے۔دھڑا دھڑ خلافتیں قائم ہورہی ہیں لیکن کوئی ابوبکر و عمرو عثمان و علی رضی اللہ عنھم اجمعین نہیں جو مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ سنبھالے۔کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں جو یہود و نصاریٰ کو دندان شکن جواب دے سکے۔ کوئی معتصم باللہ نہیں جو ایک خاتون کی وائے مُعتصماکی لبیک پر کہہ کر کفار کے کشتوں کے پشتے لگا دے۔ آج ہماری نااتفاقی نے ہمیں فرمان نبویﷺ کے عین مطابق کفار و ظالمین کیلئے تر نوالہ بنادیا ہے ۔ایسے میں کیا کیجئے۔ جگر کو رویئے کہ سر کو پیٹئے۔لاشوں پر اشک شوئی کریں کہ زخمیوں کی عیادت کرتے پھریں۔ آخر ایک ایسی دنیا جہاں مسلمانوں کیلئے صرف اور صرف جنگل کا ہی قانون ہے۔ جہاں مسلمانوں کو انسانی حیثیت بھی حاصل نہیں۔۔۔ایک ایسی دنیا جہاں ہمارے لئے صرف موت،آہ و فغان،بربادی،کشت و خون اور تباہی ہی مقدر بنا دیا گیا ہے ‘ کیا کوئی ہے جو ہمیں آپسی انتشار و افتراق، مسلکی و مشربی مخاصمت و مخالفت اور ایک دوسرے کو بہتر اور کمتر مسلمان ہونے کی سرٹیفکیٹ بانٹتے رہنے کے مکروہ جذبے اور بھنور سے نکال باہر کرے اور کم از کم اپنے دفاع میں ایک ہوجانے اور ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ جانے نیز ایک دوسرے کے غم ا ور شادیانوں میں شریک ہونے پر اُبھارے۔ ماہ صیام کے متبرک ایام اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں اورعید سعید کی خوشیاں بھی ہمارے ہم رکاب ہوا چاہتی ہیں۔ عید منانے کا حق بہرحال ہم سبھی کو حاصل ہے لیکن کیا ہمارے انسانی ،دینی اور اخلاقی اقدار ہمیں فلسطینی شہیدوں کے لاشے دیکھ کر عیدکو بے جا تفخر ،اسراف و تبذیر اور جاہ و حشم کی اجازت دیں گے ۔ کیا ہم اپنی عید پر جو فلسطینی مسلمانوں کیلئے خون میں لپٹی ہوئی عید ہے اُن بے آسرا فلسطینیوں کو فراموش کرسکتے ہیں جنہیں اسرائیل نے بموں ،شیلوں ،میزائیلوں اور دھکمیوں کے زور پر اپنے گھروں سے بے دخل کردیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ہمارے دامن خالی ہیں ،ہمارے پاس فلسطینیوں کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے لیکن کیا ہمارے ہاتھ دعا کیلئے نہیں اُٹھ سکتے۔ قارئین کرام ! اللہ تعالیٰ ہم سے ہمارے معیار اور وسعت کے مطابق سوال کرے گا اسلئے ہمیں بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق دنیا بھر میں کفر،ظلم ،عناد اور جبر کے ہاتھوں پسنے والے اپنے بھایؤں کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ہمارے حالات ابتر ہیں ،ہمارے معاملات پراگندہ ہیں ،ہر سو مایوسی چھائی ہوئی ہے لیکن کیا بحیثیت مسلمان ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کاملہ سے بھی مایوس ہوسکتے ہیں۔ نہیں: مایوسی اور ناامیدی کفر ہے‘ اسلئے ہم بھی مایوس و ناامید نہیں ۔بس ہماری اللہ سے التجا ہے کہ اب ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں اس بے وقعتی کے سیاہ دور سے نکال کر امن و استحکام کی ضیا پاشیوں سے نوازے۔ آمین
جواب دیں