فلسطینی عوام پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کیا جارہا ہے۔ تاہم اسرائیل کے آقا امریکہ نے اس کی حمایت کرتے ہوئے مسلمانوں کی دلآزاری کی اور ان کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔ 15؍جولائی کو وائٹ ہاؤز میں امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے ترتیب دی گئی دعوت افطار کا بیشتر عرب نژاد امریکیوں نے بائیکاٹ کیا تاہم جنہوں نے مجبوری یا مصلحت پسندی کے تحت اس دعوت میں شرکت کی ان کے جذبات مجروح ہوئے بغیر نہیں رہے جب امریکی صدر بارک اوباما نے اپنی تقریر میں اسرائیلی اقدامات کی حمایت کی۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کا تڑپ اٹھنا فطری ہے۔ کیوں کہ فلسطینی ہمارے دینی بھائی ہیں اور ارض فلسطین سے دنیا کے کسی بھی خطہ میں بسنے والے مسلمان کو جذباتی اور مذہبی لگاؤ ہے کیوں کہ یہی وہ سرزمین ہے جہاں ہبرون میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا تبلیغی مرکز بنایا۔ حضرت اسحق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہیں سے صدائے حق بلندکی۔ حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومتوں کا مرکز بھی یہی سرزمین رہی۔ عیسیٰ علیہ السلام نے یہیں سے نعرۂ حق بلند کیا۔ اسی سرزمین سے آقائے دوجہاں سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ یہی سرزمین جہاں ہمارا قبلہ اول ہے۔ جہاں کئی صحابہ کرامؓ کی آخری آرام گاہیں ہیں۔ جسے سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فتح کیا اور پھر جو سرزمین ہلال اور صلیبی جنگ کی آماجگاہ بنی رہی جسے صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ آزاد کروایا۔ اس سرزمین پر جہاں قبلہ اول کے تقدس کی پامالی کی جارہی ہے۔ نہتے معصوم فلسطینیوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ ہم عام مسلمان جن میں انسانیت اب بھی باقی ہے‘ ان مظلومین کی بے بسی، ان کے قتل عام، تباہی و بربادی پر بلک اور سسک اٹھتے ہیں۔ اور ہمارے وہ سربراہان مملکت جنہیں خداوند کریم نے ہر قسم کے اختیارات سے نوازا جو چاہیں تو اسرائیلی جارحیت ہی کو نہیں بلکہ اسرائیل کے وجود کو ختم کرنے میں کلیدی رول ادا کرسکتے ہیں‘ خاموش تماشائی ہیں کیوں کہ انہیں اپنے مسند اقتدار کو بچائے رکھنا ہے۔ اپنے عیش و عشرت کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لئے انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ جبکہ فلسطین کے لئے آواز وہ لوگ اٹھارہے ہیں جن کا اس سرزمین سے یا اس سرزمین کے عوام سے کوئی ملی دینی رشتہ تو نہیں صرف انسانیت کا رشتہ ہے۔
فلسطینی عوام سے آخر اسرائیلی عوام، حکومت اور فوج کو کیا دشمنی ہے؟ اسرائیل تو حضرت اسحق علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام تھا جن کی قوم بنی اسرائیل کہلائی جس میں کئی انبیاء اور رسول بھیجے گئے۔ جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں اور یہودی اپنے آپ کو ان کی امتی کہتے ہیں۔ یہودیوں کا مسلمانوں سے کیسا جھگڑا؟ یقیناًاس کا بھی تاریخی پس منظر ہوگا تبھی تو قرآن مجید میں بھی یہود و نصاریٰ سے دوستی نہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ سرزمین فلسطین پر یہودی، اسرائیلی یا صیہونی نہ صرف قابض ہیں بلکہ انہوں نے جبر و ستم کی انتہا کردی۔ ہاں! صیہون دراصل اُس پہاڑی کے جنوبی حصہ کا نام ہے جس پر حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی عبادت گاہ بنائی تھی۔ مگر اب صہیونی سے مراد یہودیوں کی تحریک‘ قومی اور روحانی تمنائیں ہیں جن میں مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہے۔ تاریخ کے اوراق میں یہ حقیقت محفوظ ہے کہ بابل کے حکمران بخت نصر نے بیت المقدس کا ہیکل سلیمانی ڈھادیا تھا اس دور میں یہودیوں کو بہت بُرے دور سے گذرنا پڑا۔ ان کا اصل برا دور تو دوسری صدی عیسوی میں شروع ہوا جب رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا تھا اور یہودیوں کو یہاں سے نکال باہر کیا تھا۔ یہ دنیا کے مختلف مقامات پر پھیل گئے اور ہر جگہ اپنی فطرت کی وجہ سے نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھے گئے۔ وہ جہاں جہاں گروہوں کی شکل میں رہے ان کی آبادی کو GETTO یا باڑے کہا گیا۔ بہرحال صہیونی تحریک انیسویں صدی سے شروع ہوئی جب پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے یہودیوں کے لئے ایک فوجی وطن کا ڈاکٹر ہرزل سے وعدہ کیا تھا جو ایک آسٹریا کا باشندہ تھا جس نے صہیونی مملکت کے لئے ترکی کے آخری خلیفہ عبدالمجید سے ناکام بات چیت کی تھی۔ برطانیہ نے ایک طرف عربوں کی حکومت کا وعدہ کیا تو دوسری طرف یہودیوں سے ان کی علیحدہ مملکت کا وعدہ کیا۔ جب ترکوں سے برطانیہ کی لڑائی چھڑی تو یہودی سرمایہ داروں سے تعاون حاصل کرتے ہوئے فلسطین ہی میں یہودی وطن قائم کرنے کا ایک خفیہ معاہدہ 2؍نومبر 1917ء کو کیا گیا جسے معاہدہ بالفور کہا جاتا ہے۔ آرتھر جیمس بالفور پہلی جنگ عظیم کے آخری سالوں میں برطانیہ کے وزیر خارجہ تھے۔ اس خفیہ معاہدہ کا پتہ عربوں کو 1920ء میں چلا مگر اس وقت کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔ برطانوی جنرل کی قیادت میں ہزاروں تعداد میں یہودی فلسطین میں آباد ہونے لگے۔ یہ وہ یہودی تھے جو یوروپی ممالک میں آباد تھے جو تعلیم یافتہ اور دولت مند تھے انہوں نے غریب فلسطینیوں سے زمینیں خریدنی شروع کیں اور آہستہ آہستہ ایک بڑے حصہ پر ان کا قبضہ ہوگیا۔ دوسری عالمی جنگ میں یہودی کثیر تعداد میں اتحاد ملکوں کی فوج میں شامل ہوئے تاکہ فوج تربیت حاصل کرسکے۔ چنانچہ اسرائیل کی خفیہ تنظیم قائم کئی گئی تو اس میں 75ہزار فوجی تربیت یافتہ یہودی شامل تھے۔ 1938ء میں برطانیہ نے فلسطین کی تقسیم کی تجویز پیش کی اور 29؍نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ نے امریکہ، روس کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ یہ تقسیم فلسطینیوں سے ان کی زمین چھین لینے کے مماثل تھی۔ کیوں کہ ساڑھے چار ہزار مربع میل کا صحرائے نجب کا علاقہ عربوں کے حوالے کیا گیا۔ اور 5338 مربع میل کا ساحلی زرخیز علاقہ یہودیوں کے حوالے اور 289 مربع میل کا علاقہ بین الاقوامی نگرانی میں دے دیا گیا۔
یہ تقسیم دراصل اُس خفیہ معاہدہ پر عمل آوری تھی جو برطانیہ، فرانس اور یہودیوں کے درمیان طئے پایا گیا تھا جس تحت گریٹر اسرائیل کی تشکیل کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ مجوزہ گریٹر اسرائیل دریائے نیل تک مصر علاقہ، اردن، شام اور لبنان کا پورا علاقہ عراق کا ایک بڑا حصہ، ترکی کا جنوبی علاقہ، اور مدینہ منورہ تک حجاز کا بالائی علاقہ پر پھیلا ہوا ہے۔ چنانچہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے پیشانی پر یہ لکھا ہوا ہے ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک۔
اس گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کے لئے بڑی طاقتیں مدد کررہی ہیں۔ اور وہ ہر طرح سے اسرائیل کی پشت پناہی اور مدد کررہی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کے قبضہ میں 1948ء تک پانچ لاکھ تین سو مربع میل کا علاقہ تھا جو اب 33ہزار مربع تک پھیل گیا ہے۔
فلسطین اپنے وطن میں اجنبی ہیں۔ عرب برادری مالی امداد ضرور کررہی ہے مگر اسرائیل کے وجود کو ختم کرنے کے لئے جو اقدامات وہ کرسکتے ہیں اس سے پہلوتہی کررہی ہے۔ فلسطینی عوام نے کبھی مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی تو کبھی یاسر عرفات کی قیادت میں اپنے حقوق کی بازیابی، قبلہ اول کے تقدس کے تحفظ کے لئے جدوجہد کی اور اب مشترکہ مفاد کی خاطر دو حریف تنظیمیں حماس اور الفتح نے بھی نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا۔ امن و امان کی برقراری کیلئے اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی اس کے ارباب اقتدار سے مذاکرات کئے، ہاتھ ملایا مگر بڑی طاقتیں اور خود اسرائیل اس سرزمین پر امن نہیں چاہتا۔ 3 اسرائیلی نوجوانوں کے اغواء اور قتل کے واقعہ کو بہانا بناتے ہوئے جس طرح سے انتقامی کاروائی کی جارہی ہے‘ جس طرح سے فلسطینی آبادی پر بمباری کی جارہی ہے‘ زمینی سپاہی جس طرح سے ظلم ڈھارہے ہیں‘ اس پر فرعونیت بھی شرمندہ ہوگی۔موجودہ حالات سے اندیشہ ہے کہ انتقاضہ کی تحریک ایک بار پھر سراٹھائے گی‘ 1980 اور پھر 2000ء میں انتقاضہ کی تحریک نے اسرائیلیوں کے دانت کھٹے کردےئے تھے۔
امریکہ، برطانیہ اور دوسری بڑی طاقتیں اپنے آپ کو انسانی حقوق کے علمبردار اور محافظ قرار دیتے ہیں‘ مگر حالیہ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی طاقت نظر آئی وہاں وہاں انہوں نے انسانیت کا قتل کیا۔ چیچنیا، بوسنیا، افغانستان، عراق اور اب فلسطین اس کی مثال ہے۔ فلسطین میں منظم اور منصوبہ طریقہ سے نسل کشی کی جارہی ہے۔ نسل کشی صرف قتل عام نہیں بلکہ منصوبہ بند طریقہ سے جینا حرام کرنا، وسائل زندگی سے محروم کرنا، غذا پانی، نقل و حرکت پر پابندی عائد کرنا۔ زبان و تہذیب کو مٹانے کی کوشش یہ بھی نسل کشی میں شامل ہیں۔بھلے ہی فضائی حملے اور زمینی کاراوئیں میں فلسطینی شہداء کی تعداد بہت زیادہ نہ ہو مگر جس طرح سے مختلف امراض اور وبائیں فلسطینی علاقوں میں پھیل رہے ہیں کینسر عام ہوچکا ہے۔ سوائن فلو کی وباء عام ہے جس کے نتیجہ میں آبادی کا ایک بڑا حصہ اپنی زندگی سے بیزار ہے۔ نئی نسل میں ذہنی اور جسمانی معذور بچے پیدا ہورہے ہیں جو آنے والے دنوں میں زمین پر اپنے خاندان پر اور معاشرہ پر بوجھ ہوں گے۔ اُس بوجھ کے ساتھ فلسطین اپنے حقوق کی لڑائی کیسے لڑے گا؟ اس سوال کا جواب کس پاس ہے۔ ہم صرف زبانی ہمدردی کرسکتے ہیں‘ ہمارے مظاہرے یقیناًہمارے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں مگر اس کا اثر کس پر ہوگا؟ کیوں کہ جب اپنے دینی بھائیوں کی بے بسی کسمپرسی ان کی مظلومیت کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو ہمارے احتجاج، نعروں اور بیانات کا کس پر اثر ہوگا؟ ہمارا ملک کیا پالیسی اختیار کرے گا یہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ بس اپنے فلسطینی بھائیوں کی حالت زار پر ہم رنجیدہ ہیں اور عالمی برادری کی بے حسی پر شرمندہ بھی ہیں فی الحال اپنی دینی ملی بھائیوں کی سلامتی کے لئے بارگاہ رب العزت میں سجدہ ریز ہوکر دعاگو بھی ہیں۔
جواب دیں