قاری طیب صاحب اور مولانا علی میاں کا مزاج تحریک کا نہیں تھا۔ لیکن جنرل سکریٹری مولانا منت اللہ رحمانی صاحب کی وجہ سے اور نائب صدر مولانا مظفر حسین صاحب کی موجودگی اس کمی کو محسوس نہیں ہونے دیتی تھی۔ شاید مسلمانوں کی کسی تنظیم کو اتنا احترام نصیب نہیں ہوا ہو جتنا پرسنل لاء بورڈ کو ہوا۔ اور بورڈ نے بھی مولانا رحمانی اور قاضی مجاہدالاسلام کی حیات تک بورڈ کو اندر اور باہر سے ایسا ہی بنائے رکھا کہ نہ اپنوں میں سے کسی کو مخالفت کی ہمت ہوئی اور نہ اُن کو ہوئی جن کے شر سے ملت کو بچانے کے لئے بزرگوں نے بورڈ کی تشکیل کی تھی۔
بورڈ کے ذمہ داروں کے سامنے ہم نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں۔ لیکن ہم ہمیشہ بورڈ کی حمایت میں قلم کی لاٹھی لئے کھڑے رہتے ہیں اور جب کبھی کوئی بری نظر اس پر ڈالتا ہے اس کا مقابلہ کرنے میں ہم شاید سب سے آگے ہوتے ہیں۔ مارچ میں جو اجلاس جے پور میں ہوا تھا وہاں ظفر سریش والا نام کے ایک صاحب پہونچ گئے۔ اُن کے متعلق مودی سرکار کے حلقوں میں یہ افواہ پھیلی کہ انہیں بورڈ کے جلسہ سے بے عزت کرکے نکالا گیا۔ دو تین ٹی وی چینل جو مودی کے محافظ ہیں اور ان کی شہرت میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں ان میں کے ایک انڈیا ٹی وی اور اس کے چیف رجت شرما نے اپنے سارے بھونپو کھول دیئے اور پورا ایک دن اور رات اسی پر قربان کردی کہ جیسے وہ سریش والا کی عصمت اور حرمت کی خاطر بورڈ کو بھی سیمی کی طرح غیرقانونی قرار دلا دے گا اور اس پر بھی پابندی لگوادے گا۔
دوسرے دن ہی ہم نے ’’بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا‘‘ کے عنوان کے تحت وہ سب لکھ ڈالا جو کسی تنظیم کا مقرر کیا ہوا با تنخواہ ترجمان بھی شاید نہ لکھ سکتا۔ ہم نے نہ رجت شرما کو چھوڑا نہ سریش والا کو اور نہ اُن دونوں کے بھگوان جیسے محترم مودی کو۔ یہ ہماری اور بورڈ کی خوش قسمتی ہے کہ یہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اور ہم کیسے پروردگار کا شکر ادا کریں کہ ہماری معلومات کی حد تک ملک کے 20 اخباروں میں اور ملک سے باہر کئی اخباروں میں چھپتا ہے اور نیٹ کے ذریعہ ہر ملک میں ہمارا مضمون پڑھا جاتا ہے۔ اس مضمون کے بعد مہاراشٹر سے اور گجرات سے کئی ٹیلی فون آئے اور انہوں نے سریش والا اور مودی کے ظاہری اور باطنی کئی رشتے ہمیں بتلائے کہ اب اگر وہ بولے تو یہ کارتوس کام آئیں گے۔
ہم نے کبھی بورڈ کو نشانہ نہیں بنایا البتہ یہ ضرور لکھا کہ تینوں بزرگوں کے بعد اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے اور رکنیت اندھے کی ریوڑی کی طرح تقسیم کی جارہی ہے یعنی ایسے لوگ بھی پرسنل لاء بورڈ کے ممبر بن گئے ہیں جو خود بھی مسلم پرسنل لاء کا احترام نہیں کرتے۔ رہی یہ بات کہ وہ کون ہیں تو بورڈ کے اندر ایسے کئی حضرات ہیں جو اُن سے واقف ہیں۔
اس وقت اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ اب پھر ایسے ہی حالات سامنے آرہے ہیں جیسے حالات کی وجہ سے 1972 ء میں بورڈ کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس وقت جو قدآور بزرگ تھے وہ مقابلہ کے لئے سینہ سپر ہوگئے تھے لیکن اس وقت نہ جے پور میں کسی اقدام کا اشارہ کیا گیا اور نہ اس کے بعد۔ آج جسے نریندر مودی مودی سرکار کہتے ہیں وہ بھاگوت سرکار ہے اور یہ نوراکشتی ہے کہ دونوں کو جو کرنا ہے وہ کررہے ہیں اور جو کہنا ہے وہ کہہ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے کاموں اور بیان سے اپنا پلہ جھاڑ رہے ہیں۔ یہ وہی خفیہ سیاست ہے جو آر ایس ایس کی روح ہے۔
آج ہر مسلمان کی نگاہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف ہے اور ہونا بھی چاہئے اس لئے کہ پورے ملک میں کوئی نہیں ہے جس کی چوکھٹ پر کوئی جاسکے۔ اس وقت 1972 ء سے کہیں زیادہ حالات سنگین ہیں ملک کی مسجدوں کے ساتھ جو ہورہا ہے یا مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون بنانے کی جیسی تیاری ہورہی ہے یا تبلیغی جماعت جو 95 سال سے صرف مسلمان کو سچا مسلمان بنانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتی اسے دوسرے ملکوں سے آنے والی جماعتوں کے عنوان سے چھیڑنے کی ابتدا ہوچکی ہے۔ لوجہاد، گھر واپسی، سوریہ پوجا، رام زادہ حرام زادہ مدارس میں نیشنل ڈے کو قومی پرچم نہ لہرانا اور یکساںٰ سول کوڈ جیسے نہ جانے کتنے پروگرام ہیں جنہیں ان پانچ برسوں میں پورا کرنا ہے۔ اور اہم ترین بات یہ ہے کہ بزرگ لیڈر شری اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو صرف اسی وجہ سے منظر سے ہٹا دیا ہے کہ یہ دونوں چھ برس کی اٹل حکومت میں اُٹھتے بیٹھتے سیکولرازم کی بات کرتے تھے اور پوری طرح مسلمانوں کے مخالف ہونے کے بعد بھی ایک حد سے آگے جانے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
اب صرف تین آدمیوں سے سامنا ہے۔ مودی، بھاگوت اور امت۔ ان سے دو بہ دو بات کرنے کے لئے بورڈ کو بھی یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کم از کم اپنے دو بزرگوں کو اب آرام دلانے کے لئے رخصت کردینا چاہئے اور صدر محترم اور جنرل سکریٹری صاحب کو سرپرست کے منصب پر فائز کردینا چاہئے۔
اب تک بورڈ کی حیثیت یہ تھی کہ وہ وزیراعظم منموہن کی جیسی مہین اور لرزتی ہوئی آواز میں بھی اپنا کوئی فیصلہ کردیتا تھا تو اسے توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اب جس تگڑی سے سابقہ پڑے گا اس کے لئے ایسی آواز میں بات کرنے والوں کی ضرورت ہے جس کی گونج براک اوبامہ بھی سن کر معلوم کریں کہ یہ کیسی آوازیں آرہی ہیں؟ اب وہ بورڈ ہونا چاہئے جس کی آواز پر صرف ایک شاہ بانو کے مسئلہ پر ہر شہر میں چار اور پانچ لاکھ کے جلسے ہوئے اور پوری حکومت لرز گئی۔
بورڈ کے صدر صاحب کے اوپر بہت بڑی ذمہ داری دارالعلوم کی ہے شاید حضرت مفکر اسلام نے ساری عمر کسی سیاسی پارٹی کے حق میں یا مخالفت میں اس کی وجہ سے منھ نہیں کھولا اور سب کو دعا دے کر رخصت کردیا۔ ہمارے کانوں میں لال جی ٹنڈن کے وہ جملے گونج رہے ہیں کہ اگر غیرملکی زرمبادلہ کے معاملہ میں ندوہ میں چھاپہ ڈلوادوں تو سارے مولوی داڑھی ہلاتے بھاگتے نظر آئیں گے۔ اب حقیقت تو ندوہ جانے یا حکومت، ہم تو یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب مولانا رابع صاحب پر بورڈ کی ذمہ داری رکھنا صرف ان کی عظمت کا اعتراف ہے جو یوں بھی آخر دم تک رہے گا۔
سنا ہے بورڈ کی کوئی میٹنگ اسی عشرہ میں لکھنؤ میں ہونے والی بھی ہے۔ ایسی ہی میٹنگ میں اسی طرح کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ عام اجلاس ان کے لئے موزوں نہیں ہے اسی طرح ایسے ممبروں کو بھی دوسری ذمہ داریاں سپرد کردی جائیں جو بورڈ کی عظمت کو شیروال کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اداروں کی سربراہی کے لئے عمر کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن بورڈ ایک تحریک ہے اور تحریک کی ذمہ داری کے لئے جھکے ہوئے شانے نہیں تلوار گھمانے کے قابل مضبوط ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
نریند مودی کو دنیا کو منھ دکھانا ہے۔ وہ یہی کہتے رہیں گے کہ ’’اقلیتوں کے خلاف تشدد ناقابل برداشت ہے‘‘ اور ہریانہ کی مسجدوں پر بھی حملہ ہوتا رہے گا مختار عباس نقوی گائے کا گوشت کھانے والوں کو ملک بدر بھی کرتے رہیں گے۔ ساکشی چار بیوی چالیس بچے بھی گاتے رہیں گے اور ہر کوئی پروگرام کے مطابق اپنی اپنی تلواروں پر دھار بھی رکھتا رہے گا۔ بورڈ کے ارکان میں آج ایسے حضرات کے سرگرم ہونے کی ضرورت ہے جیسے مولانا کلب صادق، مولانا ولی اللہ رحمانی یا مولانا سلمان حسینی اور ان کے علاوہ وہ جن کے پاس علم بھی ہو زبان بھی اور بے جگری بھی۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ ایسے مسلمانوں کی فروخت کا ہے جنہیں میر جعفر و صادق اس طرح فروخت کریں گے کہ وہ جاتے ہوئے بھی نظر نہ آئیں اور اللہ اکبر بھی کہتے رہیں مگر خریدنے والے کا پیٹ بھرجائے اس کے لئے ایسے چاق و چوبند حضرات کی ضرورت ہے جو پانچ سو میٹر اوپر اُڑتی چیل کی آواز بھی سن سکیں اور ایک ہزار میٹر اوپر اُڑتے کبوتر کو بھی دیکھ سکیں۔ اس لئے کہ اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے۔(یو این این)
جواب دیں