پہلے نکاح یا پہلے کیرئیر؟ ہائیر ایجوکیشن کے نام پر لڑکیوں سے دشمنی

    ڈاکٹر علیم خان فلکی (صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد) 

9642571721

لڑکیوں کی ہایئر ایجوکیشن کی پرزور وکالت کرنے والے دانشوروں سے آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لڑکیاں سوال کررہی ہیں کہ آج ہماری عمریں تیس سال سے تجاوز کرچکی ہیں، اب ہم سے شادی کون کرے گا کیونکہ جو بھی رشتہ آتا ہے انہیں بیس بائیس سال کی لڑکی چاہئے۔ کل تک جہیز سب سے بڑی رکاوٹ تھی، لیکن اب میچنگ سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔پہلے لڑکی اگر خوبصورت نہ بھی ہو خوب جہیز کی رشوت دے کر لڑکے کے ماں باپ کا منہ بند کرنا آسان تھا، لیکن اب ہائیر ایجوکیشن کی وجہ سے لڑکیوں کی عمر کی میچنگ، ان کی ڈگری کی میچنگ اور پھر ان کی تنخواہ کی میچنگ ملنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ہمارے نام نہاد تعلیم یافتہ کچھ حضرات نے اس موضوع پر ہمارا ویڈیو سن کر اعتراض کیا کہ ”آپ ایک ڈاکٹر ہوتے ہوے بھی مولویوں اور ملّاؤں جیسی فرسودہ باتیں کررہے ہیں، لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم سے ”قوم کی ترقی“ ہے۔ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کی رٹ لگانے والوں سے پہلے چند سوالات ہیں جن کاجواب ان کے پاس کوئی نہیں۔

ا۔ ایجوکیشن کا مقصد کیا ہے؟   ۲۔ قوم سے اِن کی کیا مراد ہے؟  ۳۔ قوم کی ترقی کی ان کے پاس کیا تعریف ہے؟ ۴۔ اسلام چاہتا ہے کہ پہلے نکاح ہو بعد میں کیرئیر، یہ صحیح ہے یا غلط؟

قوم سے مراد  کیا انڈین پاکستانی یا عرب معاشرہ ہے؟  ہمارے پاس قوم سے مراد صرف ”قومِ رسولِ ہاشمی“ ہے۔اس قوم میں اور دوسری قوموں میں یہی فرق ہے کہ اس قوم کے لیڈر محمد الرسول اللہ ﷺ نے زندگی کا ایک مکمل راستہ، ایک مکمل دستور دیا ہے۔ اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب ایسا نہیں ہے جس نے زندگی گزارنے کا مکمل دستو ر دیا ہو۔ وہ لوگ ہماری قوم کے لوگ ہی نہیں جو مسلمان تو کہلوانا چاہتے ہیں لیکن زندگی گزارنے کے اصول کبھی امریکہ سے، کبھی یہودیوں سے اور کبھی مشرکوں سے لے کر کسی نہ کسی طرح جائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

قوم کی ترقی سے مراد ہمارے آج کے دانشوروں کے ذہن میں یہ ہے کہ لڑکیاں زیادہ سے زیادہ ڈگریاں حاصل کریں، نوکریاں کریں، مردوں کے شانہ بشانہ چلیں، پھر ان کے رشتے اچھے گھرانوں سے آئیں، لڑکیاں امریکہ یا یورپ جاکر ان کے معاشرے میں سیٹ ہوجائیں۔ لیکن ہمارے نزدیک قوم کی ترقی صرف یہ ہے کہ جس قوم سے آپ کا تعلق ہے، آپ اس قوم کے لیڈر کو اپنا مکمل لیڈر تسلیم کرلیں، اور ان کے دیئے ہوئے دستور  کو پوری دنیا کا دستوربنادیں۔ جو فوج میدانِ جنگ میں اپنے کمانڈر کی 100% تابعداری کرتی ہے، جنگ وہی جیتتی ہے۔ جو فوج کمانڈر کے فیصلوں کو اپنی دانشوری کے تابع کرتی ہے وہ فوج بری طرح ذلت اور شکست سے دوچار ہوتی ہے۔ آج مسلمان قوم کی ساری دنیا میں ذلت اور ہر قدم پر شکست کا سبب یہی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے لیڈر نے جب حکم دے دیا کہ بالغ ہونے کے بعد کفو مل جانے پر پہلے نکاح کرو۔ ایجوکیشن ضروری ہے، کیرئیر بھی ضروری ہے اور پروفیشنلزم بھی ضروری ہے۔ لیکن اسلام نے اس کی Priority  طئے کردی ہے کہ پہلے نکاح بعد میں سب کچھ۔ لیکن ہمارے دو کوڑی کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ لڑکیاں پہلے گریجویشن کریں، پھر پوسٹ گریجویشن، پھر کوئی میچنگ کا لڑکا ملنے تک نوکری کریں  اور تجربہ حاصل کریں۔ اگر کوئی ان سے اختلاف کرے تو اس کو بڑی حقارت سے مولوی یا ملّا سے تعبیر کریں گے۔ یہ نادان یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ یہ کس کی مخالفت کررہے ہیں۔ یہ مولویوں کی نہیں بلکہ اس قوم کے سردار محمد الرسول اللہ ﷺ کی راست مخالفت کررہے ہیں۔ کسی بھی رشتہ لگانے والے آفس میں جایئے، دیکھ لیجئے کہ شادی کی منتظر لڑکیوں کی اکثریت تیس سال کے آس پاس ہیں۔ اور ان میں زیادہ تو وہی لڑکیاں ہیں جن کے ذہنوں میں اعلیٰ تعلیم کا جنون بھردیا گیاتھا۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ ایجوکیشن، ایجوکیشن کی رٹ لگانے والوں کے پاس ایجوکیشن کا مقصد کیا ہے، اس کی صحیح تعریف کیا ہے؟تھیوریٹکلی اس پر تو ہر دانشور ایک طویل تقریر کرسکتا ہے، لیکن پراکٹیکلی دیکھ لیجئے، ایجوکیشن دلاتے ہوئے ماں باپ کے ذہن میں جو مقصد ان کی چھٹی حِس میں چھپا ہوتا ہے وہ  یہ ہے کہ لڑکی کو مرد پر منحصر نہ ہونا پڑے، غلامی نہ کرنی پڑے، اگر شوہر مرجائے، بھاگ جائے، دوسری شادی کرلے یا چھوڑ دے تو لڑکی کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ جب آغاز ہی شک، سرکشی اور بغاوت کی بنیاد پر ہو تو انجام بھی ویساہی  ہوتا ہے۔ پہلی اینٹ اگر ٹیڑھی رکھ دی جائے تو دیوار چاہے آسمان تک اٹھادی جائے، وہ دیوار ٹیڑھی ہی جائیگی۔ ایک کامیاب شادی شدہ زندگی کا راز یہ ہے کہ بیوی پہلے لونڈی بن جائے پھر شوہر غلام بن جاتا ہے۔ یہ ایک Reciprocal عمل ہے۔ لیکن لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم انہیں پہلے جھکنے نہیں دیتی۔  اعلیٰ تعلیم کے بعد اپنی Ego کو دفن کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

میاں بیوی کے کامیاب رشتے کی بنیادیں چار ستونوں پر کھڑی ہیں۔ پہلا رشتہ یہ ہے کہ تعلق میاں بیوی کا ہو یعنی ایک دوسرے کے مکمل حقوق اداکررہے ہوں۔ دوسرا دوستانہ رشتہ ہے۔ یعنی وہ  ایک دوسرے کے ساتھ مکمل دوست کی طرح رہتے ہوں۔ تیسرا رشتہ یہ ہے کہ وہ ایک مکمل محبوب اور محبوبہ کی طرح رہتے ہوں۔ پہلے دو تعلقات تو بہرحال دیکھنے میں آتے ہیں لیکن تیسرا رشتہ یعنی محبوب اور محبوبہ کا رشتہ جو پور ی زندگی کی جان ہے، یہ اس وقت ممکن ہے جب لڑکی کی عمر بیس بائیس  یا زیادہ سے زیادہ پچیس سال تک ہے۔ جب جذبات کلی کی طرح علی الصباح کھلتے ہیں اور مہک آتی ہے۔ دھوپ نکل جانے کے بعدپھول کھلتا تو ہ ہے لیکن بڑھتی ہوئی دھوپ کی گرمی اس کی خوشبو کا ختم کردیتی ہے۔ جب لڑکیاں جوانی کی اصل عمر سے نکل جائیں، تو پھر انہیں خوشی کے رشتے نہیں آتے، مجبوریوں کے رشتے آتے ہیں۔ کبھی طلاق شدہ مردوں کے کبھی کوئی نہ کوئی خامی والے مردوں کے۔ اور جو فِٹ مردوں کے رشتے آتے ہیں ان کا Rate بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مہذّب گھرانوں کی لڑکیاں کسی نہ کسی طرح سمجھوتہ کرلیتی ہیں، لیکن جن دماغوں میں فیمنزم اور لبرٹی آف وومن کا زہر اتارا جاچکا ہے وہ اپنے سے بہتر تعلیم یافتہ  اور کمائی والے کو دیکھتی ہیں جو ان کے ساتھ کام کرتا ہے چاہے وہ کوئی سید یا خان ہو، چاہے شرما یا ریڈی ہو چاہے سنگھ یا چٹرجی ہو۔ اس کو Cultural Assimiliation کہتے ہیں۔ اس میں غالب کلچر، کمزور کلچر کو اپنے اندر ضم کرلیتا ہے۔ مغلوں کے طاقتور کلچر میں راجبوت شہزادیاں ضم ہوجاتی تھیں۔ انگریزوں کے زمانے میں نوابوں کے کلچرکو  انگریز عورتیں اپنالیتیں اورنوابوں رئیسوں سے شادیاں کرلیتی تھیں۔ اب ہندوستان میں مسلمان لڑکیاں جس تیزی کے ساتھ اس انجذاب میں مبتلا ہیں، یہ سلسلہ آئندہ پانچ دس سال میں خطرے کے نشان سے اس قدر اوپر اٹھ چکا ہوگا کہ آج جو لوگ غیرت مندی سے سوچ کر رنجیدہ ہیں، رفتہ رفتہ یہ بھی پتھر ضمیر کے ہوجائیں گے۔

اب بھی وقت ہے۔ جو کچھ حالات آج ہیں، فاشسٹوں کی ایک مکمل منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسلامی پرسنل لا اور اسلامی تاریخ اور تہذیب کے سامنے ان کے دیوی دیوتاؤں کے بچکانہ قصے ٹِک نہیں سکتے،اس لئے وہ  اپنی قوم کے تعلیم یافتہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اسلام سے بدظن رکھنے اسلام کے خلاف مستقل پروپیگنڈے اور تشدّد پر اتر آئے ہیں۔ اگر قومِ رسولِ ہاشمی آج بھی اپنے قائد کے سیاسی، اخلاقی، معاشرتی اور اکنامک اصولوں پر اڑ جائے تو پوری غیرقوم اسلام میں جذب ہوسکتی ہے، کوئی اس سے روک نہیں سکتا۔ لیکن ہم ایک قدرتی تنزّل کا شکار ہیں۔ پہاڑ سے تیزی سے نیچے کی طرف آتے ہوئے وزنی پتھر کی طرح ہم لوگ نیچے جارہے ہیں، یہ کیسے رکے گا اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہم میلادالبنی کے  شاندار جلوس نکال سکتے ہیں، ہم فرانس کے صدر کے پوسٹر پیروں میں روند سکتے ہیں، ہم پرسنل لا میں دوسروں کی دخل اندازی روکنے گولیاں کھانے تیار ہیں لیکن نکاح کا حکم خود اپنے خاندان پر نافذ کرنے تیار نہیں۔ یہ حکم نافذ ہوجائے تو نہ صرف لاکھوں مسلمان ہر سال غربت و افلاس سے باہر نکل سکتے ہیں بلکہ لاکھوں غیرقوم کی لڑکیوں کا اسلام میں داخلہ ممکن ہے، لیکن خود قومِ رسولِ ہاشمی آج دوسروں کو اس قوم  میں داخل ہونے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے نام پر جو کورسس ان سے کروائے جاتے ہیں، ان کا بھی کوئی مقصد نہیں ہوتا سوائے اس کے بس اچھا رشتہ آئے، بچی امریکہ یا دوبئی چلی جائے توکوئی سی بھی کلرک کی نوکری مل جائے۔کیا یہ حماقت نہیں ہے کہ لڑکیوں کو وہ کورس کروانا جو صرف مردوں کو سوٹ کرتے ہیں؟  کوئی لڑکی سیول انجینئرنگ، تو کوئی آرکٹکٹچر، کوئی  اگریکلچر  تو کوئی وِٹرنری کررہی ہے۔  ایسے کورسس میں ڈگری دلا کر ماں باپ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟اگر کسی آفس یا فیکٹری میں سو میں سے پچاس لڑکیاں مسلمان بھی ہوں تو اس سے مسلمانوں یا اسلام کا نام کہاں روشن ہوا؟ اس سے قوم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ ایک گھر کی آمدنی ڈبل ہوگئی۔ میاں بیوی جب دونوں کمانے لگے تو عیش ڈبل ہوگیا۔ پہلے ایک کار تھی، اب دو ہوگئے، پہلے ایک فلیٹ تھا اب دو فلیٹ ہوگئے۔ پہلے بچے دال روٹی بھی خوشی سے کھالیتے تھے، اب ماکڈونالڈ، کے ایف سی آرڈر کرنے لگے ہیں۔ بچے جو امریکہ چلے گئے، کیا ان سے قوم کو کوئی فائدہ ہوا؟ کبھی یہ سو ڈالر بھی جیب سے نکالتے ہیں تو قوم پر بہت بڑا احسان کرتے ہیں۔۔یہ زیادہ تر مڈل کلاس کے لوگ ہوتے ہیں، مشورے، اعتراضات اور بکواس زیادہ کرتے ہیں، قوم کے لئے ان کے پاس سوائے تبصروں کے کچھ اور نہیں ہوتا۔

اسلام عورت کی نوکری کو بغیر کسی شرعی عذر کے کیوں پسند نہیں کرتا، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے مرد کو باہر کی دنیا کا اور عورت کو خاندان کا حاکم بنایا ہے۔ عورت پر اپنے اور اپنے اطراف کے بچوں اور عورتوں کی تربیت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیروزگاری کتنی عام ہے سب کو پتہ ہے۔ ایک مرد کو اگر نوکری ملتی ہے تو اس کی وجہ سے دس لوگ پلتے ہیں۔ لیکن اگر وہی نوکری عورت لے لے تو ایک گھر کی آمدنی کا گِراف اوپر اٹھتا چلاجاتا ہے، اور ایک مرد کے خاندان کا گراف گِرتا چلاجاتاہے۔ اس طرح ایک عورت کی نوکری کتنے افراد کی روٹی چھین لیتی ہے خود اس کو خبر نہیں۔ مرد مجبوری میں کئی کرائم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا ایک گھر کی ترقی سے قوم کی ترقی ممکن ہے؟

اگر شوہر بیمار ہو، مرجائے یا کوئی اور مجبوری ہو تو عورت نوکری کرسکتی ہے۔ لیکن یہ مشکل سے دو فیصد عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے 98% لڑکیوں کو یہ ذہن نشین کروادیا جاتا ہے کہ ان کا شوہر مرنے ہی والا ہے، یا عورت کو کمائی پر مجبور کردینے والا ہے۔

قوم کی ترقی لڑکیوں کی نوکریوں کی غلامی میں نہیں ہے بلکہ ہماری قوم، ہمارے کلچر اور ہمارے پرسنل کو پھیلانے میں ہے۔ دراصل ہمارے نام نہاد دانشور امریکہ اور یورپ کی لڑکیوں کو دیکھ کر سخت احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔ انہیں فر فر انگلش بولنے والیوں میں، مردوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کام کرنے والیوں میں، مردوں کی محتاج نہ رہنے میں ترقی ہی ترقی نظر آتی ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں آخر ہماری لڑکیاں یہ ترقی کیوں نہیں کرتیں۔یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے آم کے پیڑ پر جام کیوں نہیں اُگتے؟ ان بے چارے دانشوروں کو یہی پتہ نہیں کہ ہر ترقی کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ مغرب کی عورت نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے تب جاکر اسے یہ آزادی ملی ہے۔ کیا ہماری تہذیب یہ قیمت ادا کرسکتی ہے؟ ہماری تہذیب اور ان کی تہذیب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سب سے پہلا فرق یہ ہے کہ سیکس انسان کی بھوک اور پیاس کی طرح ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ اسلام نے اس کو ایک انتہائی قابلِ احترام طریقے سے پورا کرنے کا پورا طریقہ دیا جس میں عورت کی مکمل حفاظت ہے۔ لیکن مغرب نے اس ضرورت کو ویسا ہی پورا کرلینے کی آزادی دے دے جیسے بھوک اور پیاس کو وقتی طور پر پورا کرلینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ لوگ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک خاندان کو پالنا، بچوں کو پیدا کرنا اور ساری زندگی ایک کھونٹے سے بندھے رہنے کے قائل نہیں۔ عورت بے چاری کرتی بھی کیا، وہ بھی اس سسٹم کا شکار ہوگئی۔ پہلے پہل اسے بھی اس میں لطف نظرآیا، اسے لگا کہ وہ صحیح آزادی حاصل کرچکی ہے، لیکن چند سالوں میں یہ محسوس ہوگیا کہ اب وہ سوائے مردوں کی ہوس پورا کرنے والے کھلونے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ذرا زیادہ عمر ہوجائے تو پھر اس کی طرف کوئی پلٹ کر نہیں دیکھتا، باقی ساری زندگی وہ خود کمانے اور خود کھانے پر مجبور ہوگئی۔ دوسرا فرق ہے کہ مغرب میں پہلے تو کوئی شادی نہیں کرتا، اگر کرتے بھی ہیں تو طلاق کی شرح% 50-70 ہے۔ مغرب میں اب عورت اپنی آزادی کو باقی رکھنے کے لئے اپنے باس کو خوش رکھنے، غیرمردو ں سے بے تکلفی، ترقی کے نام پر کچھ برہنگی، کچھ جسم کی نمائش، پر مجبور ہے۔ کیا ہمارے دانشور یہی ترقی چاہتے ہیں؟  اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہزاروں عورتیں جو نوکریاں کررہی ہیں وہ ساری زنا ہی کررہی ہیں۔ لیکن اتنا تو کرنے پر مجبور ہیں کہ اسلامی لباس کے بغیر،  بال کھولے، کبھی پیٹ اور کبھی پیٹھ دکھانے والی ساڑیاں یا اسکرٹ پہن کر نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔

اور پھر جتنی ہزاروں لڑکیوں کو ہم اعلیٰ تعلیم کی بھٹّی میں جھونک رہے ہیں، کیا اتنی نوکریاں دستیاب ہیں؟ یہاں فاشسٹوں نے مسلمانوں کے لئے ویسے ہی نوکریاں ختم کردی ہیں۔ہم ہزاروں لڑکیوں کو کن نوکریوں کے لئے تیار کرنا چاہتے ہیں؟ اب جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمانوں کو جو بھی آفر دیا جائے وہ بھیک سمجھ کر قبول کرلینے تیار ہیں، ان کی قابلیت، ان کی وفاداری اور محنت کا مکمل استحصال ہورہا ہے، ہم لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے ذہن بناکر نہ صرف انہیں نوکریوں کی بھیک پر مجبور کررہے ہیں، بلکہ حریص مردوں کو گھر بیٹھے بیوی کا مال کھانے، اس سے نوکری کروانے، پھر بچوں کی، ساس سسر کی اور گھر، پکوان، صفائی وغیرہ جیسی خدمات مفت حاصل کرنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔معصوم لڑکیاں ایک طرف صحیح عمر میں شادی کے لطف سے محروم ہیں تو دوسری طرف باقی ساری زندگی کے آرام سے محروم ہیں۔ اس سے بہتر ہوتا وہ شادی کی صحیح عمر میں شادی کرکے زندگی کا لطف تو اٹھاتیں۔ 

اب آیئے،جہیز کے زاویہ سے بھی بات کرتے ہیں۔ کون نہیں جانتاکہ آج کی شادیاں، جہیز، بارات اور منگنی وغیرہ لڑکی اور اس کے ماں باپ پر ایک ظلم ہے۔ ہائر ایجوکیشن کا فائدہ یہ تو ہونا چاہئے تھا کہ ایجوکیٹیڈ لڑکیاں ظلم اور ناانصافی کے خلاف اٹھتیں، لیکن آج کی ایجوکیشن کا مقصدناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ڈگریاں حاصل کرکے نوکریوں کے قابل بنانا ہے، پھر ایسی ایجوکیش کا فائدہ ہی کیا جس میں لڑکی کو جتنا پڑھایا جائے اس کے ماں باپ پر وہ اتنا زیادہ بوجھ بنتی جائے؟ اس تعلیم سے قوم کو کیا فائدہ ہوا؟ اس سے قوم کی ترقی کہاں ہوئی؟

حل کیا ہے؟ صحیح وقت پر شادی اللہ کی ایک نعمت ہے۔ زندگی میں صحیح وقت پر صحیح پیار مل جائے، جذبات سرد ہونے سے پہلے زندگی شروع ہوجائے تو ایسا ہی ہے جیسے بھوک میں کسی انسان کو سوکھی روٹی اور دال بھی مزا دیتی ہے۔ لیکن اگر آدمی کا فالتو چیزوں سے پیٹ بھر جائے اور بعد میں اس کے سامنے بریانی بھی پیش کردی جائے تو وہ اس میں کئی خامیاں نکالتا ہے۔ اسی طرح اگر صحیح وقت پر شادی ہوجائے تو لڑکا یا لڑکی نہ خوبصورتی دیکھتے ہیں نہ پیسہ، ایک دوسرے کی بانہیں ان کے لئے بہت بڑا سہارا ہیں۔ اس کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد پہلے ان کی شادی کردی جائے تاکہ نہ ان کے ذہن جنسی جذبات  میں بہکیں، اور نہ کوئی دوسرا انہیں بہکانے کی کوشش کرے۔۔ شادی مکمل نبی ﷺ کے طریقے پر ہو، یعنی نکاح گھر پر یا مسجد میں ہو، مہمانوں کو چائے یا شربت پیش کیا جائے، نقد مہر ادا کیا جائے، ولیمہ نبی ﷺ اور علی ؓ کے ولیموں کی طرح ایک بکرے پر ہو، اور جو پیسہ بچ جائے، شادی کے بعد ان کی ایجوکیشن اور کیرئر پر خرچ کیا جائے۔ بچے فوری پیدا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اسلام میں نہ بچے  پیدا کرنے سے روکا ہے اور نہ پلاننگ کرنے سے۔ دو چار سال بچے تاخیر سے پیدا ہوں تو کوئی قیامت نہیں آجائیگی۔ دونوں زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ہوئے تعلیم بھی مکمل کرینگے اور اپنے اپنے پروفیشن میں کمانے بھی لگیں گے۔ جو پیسہ دکھاوے کی دعوتوں، جہیز اورجوڑے کی رقم میں ضائع کرکے تیار دلہوں کو خریدتے ہیں، اور بعد میں طلاقوں اور جھگڑوں میں زندگی گزارتے ہیں، اس سے نجات مل جائیگی۔ معاشرہ ایک صحیح بنیادوں پر چل پڑے گا۔ اس کی مزید تفصیلات آپ کو ہماری کتاب ”نکاح یا وِواہ“ میں مل جائیں گی۔

 

 

 مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

 

 

 

 

 

 

«
»

والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ

قیمتی وقف املاک ہوتے ہوئے ملت زبوں حالی کی شکار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے