پہلے گستاخی، پھر معافی، یہ رسمِ مکاری ہے!!!

تحریر :جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)

 

 سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخی کرکے ملعون اینکر امیش دیوگن نے ملک میں نفرت کا زہر پھیلا کر فرقہ پرستی کی آگ لگانے کی کوشش کی ہے جوکہ انتہائی قابل مذمت ہے امیش دیوگن کو یاتو خواجہ غریب نواز کی تاریخ معلوم نہیں ہے یا پھر اس ملعون کو ذاتی طور پر بغض ہے،، غریب نواز کا آستانہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا مرکز ہے اور کل مذاہب اتحاد کا سنگم ہے ہندوستان میں یہی تو ایک ایسا مقام ہے جہاں ہر مذہب کے ماننے والے عقیدت کی بنیاد پر حاضری دیتے ہیں اس کے علاوہ کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں خلوص اور محبت و عقیدت کی بنیاد پر ہر مذہب کے لوگ پہنچتے ہوں،، غریب نواز نے جب ہندوستان میں قدم رکھا تو کسی کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا بلکہ سب کو سینے سے لگایا اور سب کو اپنے دسترخوان پر بیٹھایا اور کھلایا انکی زندگی اور انکی تعلیمات عالم اسلام انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے ہندوستان میں بہت سے لوگوں نے حکومت اور بادشاہت کی لیکن کسی کو سلطان الہند کا خطاب نہیں دیا گیا مگر خواجہ غریب نواز کو سلطان الہند کا لقب حاصل ہوا ایسی عظیم الشان شخصیت کی شان میں گستاخی کرنا ہندوستان کی تہذیب اور تمدن کے ساتھ بغاوت ہے اور  ملک کے ساتھ بھی غداری ہے اور بعد میں معافی مانگ لینا مکاری ہے
امیش دیوگن نے خواجہ غریب نواز کی شان میں بیہودہ الزامات لگایا اور جب گرفتاری کا مطالبہ ہونے لگا اور چہار جانب مذمت ہونے لگی تو معافی مانگنا شروع کردیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ غریب نواز کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت ہے اور ناقابلِ معافی ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ امیش دیوگن کی جانب سے معذرت نہیں بلکہ منافقت ہے حکومت اس ملعون کو گرفتار کرے اور سخت سزا دے کیونکہ غریب نواز کی شان میں گستاخی کرکے امیش دیوگن نے جہاں ایک طرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے وہیں دوسری طرف ملک کے سیکولر مزاج اور انصاف پسند عوام کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچایا ہے اور ایسی حرکت کرنا غداری سے کم نہیں اس لئے ضروری ہے کہ اسے گرفتار کیا جائے اور غداری کا مقدمہ درج کیا جائے  غریب نواز کی ہند میں آمد سے سسکتی ہوئی انسانیت کو قرار حاصل ہوا بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ ملا،، خواجہ غریب نواز نے کبھی کسی مذہب کو برا نہیں کہا اور کسی مذہب کے پیشوا اور انکے ماننے والوں کو بھی برا نہیں کہا بلکہ اسلام کی دعوت دی، اسلام کا نظریہ پیش کیا اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور خود اعلیٰ ترین اخلاق اور کردار عوام الناس کے سامنے پیش کیا جس سے لوگ متاثر ہوئے اور مذہب اسلام کی شیتل چھایا میں داخل ہوئے جادو گروں، راجاؤں اور فوجیوں نے تنگ کیا لیکن خواجہ غریب نواز نے ان سے مذہب نہیں پوچھا، اپنے فرش پر بیٹھایا لیکن مذہب نہیں پوچھا، دسترخوان پر ساتھ بیٹھ کر کھایا اور کھلایا لیکن مذہب نہیں پوچھا اور آج بھی خواجہ کے نام کا لنگر مذہب پوچھ کر نہیں دیا جاتا بلکہ کل بھی ان کا دربار سب کیلئے کھلا تھا اور آج بھی ان کا دربار سب کیلئے کھلا ہے یہ الگ بات ہے خواجہ کے ٹکڑوں پر پلنے کے کے باوجود بھی کوئی نمک حرام بن جائے اور ڈیبیٹ کے نام پر اپنا پیٹ بھرے اور قوم کو رسوا کرے،، یعنی جو خواجہ کے آستانے پر رہکر بھی خواجہ اجمیری کی تعلیمات کے اثرات کو اپنی زندگی پر مرتب نہ کرسکے اور وقتاً فوقتاً اپنا ضمیر فروخت کردے تو ایسا شخص بدبخت و بدقسمت اور بدنصیب ہی ہو سکتا ہے،،

تالاب سے پانی لینے پر پابندی عائد کر دی خواجہ اجمیری نے صبر کیا درختوں کے چھاؤں میں بیٹھنے نہیں دیا گیا، خواجہ اجمیری نے صبر کیا اور بیٹھ بھی گئے تو اٹھادیاگیا پھر بھی خواجہ نے صبر کیا،، لیکن اللہ رب العالمین اپنے محبوب اور برگزیدہ بندے کو دیکھ رہا تھا ان کو تنگ کرنے والوں کو بھی دیکھ رہا تھا خود اللہ کا فرمان ہے کہ جس بندے کو میرا قرب حاصل ہوجاتا ہے میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں مطلب یہ ہے کہ میں اسے بہت سارے اختیارات عطا کردیتا ہوں تو جب اللہ اپنے نیک بندوں سے اس قدر محبت رکھتا ہے تو وہ اپنے بندے کی توہین کیسے برداشت کرسکتا ہے، اپنے نیک بندوں پر ظلم کیسے برداشت کرسکتا چنانچہ غریب نواز کے ذریعے کرامتوں کا ظہور ہوا نتیجہ یہ نکلا کہ راجہ بھی متاثر ہوا اور فوج بھی متاثر ہوئی اور خواجہ غریب نواز کی کرامت ہی کی دین ہے کہ اناساگر نامی تالاب بھی آج قابل احترام ہے

اور آج بھی خواجہ کے آستانے پر حاضری دیکر دل کو بڑا سکون حاصل ہوتا ہے انکی سوانح حیات غیر متنازعہ ہے، ہر مذہب کا ماننے والا خواجہ غریب نواز کی عظمت کا قائل ہے اور ان کا احترام کرتا ہے انگریزوں نے بھی اس مقدس آستانے کو لوٹنے اور توڑنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے اور آج امیش دیوگن نے غریب نواز کی شان میں گستاخی کرکے انگریزوں کا دلال اور ایجنٹ ہونے کا ثبوت دیا،، اور انگریزوں کے دلالوں اور ایجنٹوں کو ملک میں چین سے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اس لیے ہم اس ملعون کی معافی کو خارج کرتے ہیں اور اس کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں اور اولیاء کرام کی شان میں گستاخی کرنے والے کو قدرت کی مار کا بھی سامنا کرنا ہوگا کیونکہ اولیاء کرام اللہ کے نیک و برگزیدہ بندے ہوتے ہیں ان کی گستاخی کا خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑے گا،، اب رہ گئی بات حکومت کی تو ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت کی مطلب یہ ہے کہ ہر قوم، ہر مذہب کی شناخت قائم رہے، سب کا تحفظ یقینی ہو سب کے حقوق محفوظ رہیں اور عدل و انصاف کا بول بالا ہو آئین سے بالا و برتر کوئی نہیں کوئی کسی کے مذہب کی اور مذہبی پیشوا کی توہین نہیں کرسکتا اگر کیا تو اسے جیل کی سلاخوں کا سامنا کرنا ہوگا تو آج نیوز 18 کے اینکر گستاخِ خواجہ امیش دیوگن پر اتنے ایف آئی آر ہوئے، بلا تفریق مذہب و ملت مذمت کا سلسلہ جاری ہے، گرفتاری کا مطالبہ جاری ہے پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بدبخت کو آخر کیوں گرفتار نہیں کیا جاتا اگر اسے گرفتار نہیں کیا گیا تو واضح ہوجائے گا کہ کوئی طاقت، کوئی چہرہ ہے جو پردے کے پیچھے سے امیش دیوگن کی پشت پناہی کررہا ہے اور پشت پناہی کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ قدرت کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی اور اللہ اپنے نیک بندوں کی گستاخی کو معاف بھی نہیں کرتا –

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

24جون 2020(ادارہ فکروخبر)

 

«
»

یادوں کے جھروکے۔(1)

ارطغرل سیرئیل پر دار العلوم دیوبند کا فتوی؛کیا تنگ نظری پر مبنی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے