مولانا علاؤالدین ندوی
استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
دنیا کے ہر انقلاب، ہر تحریک اور ہر مشن کی پشت پر صرف اور صرف نوجوانوں کی کی طاقت نظر آتی ہے۔ قوموں ملکوں اور تہذیبوں کی بقا و ترقی کا انحصار نوجوانوں ہی کی ابلتی ہوئی طاقت پر منحصر ہے اور طاقت بہہ جانے کو نہیں کہتے بہا لے جانے کو کہتے ہیں ۔ طاقت جھک جانے اورمڑ جانے کو نہیں کہتے ،جھکا دینے اور موڑ دینے کو کہتے ہیں ۔ طاقت کبھی گھٹنے نہیں ٹیکتی وہ ہمیشہ اپنی بات دلیل ،منطق اور اصول و قانون کے ذریعہ منوانے کے لئے جدو جہد کرتی رہتی ہے۔ انہی نوجوانوں کے زور بازو ،انہی کی ہمت مردانہ اور حوصلوں کی بنیاد پر ہرمنصوبہ اور ہر آئیڈیالوجی حقیقت کی دنیا میں رو بہ عمل آتا ہے ۔ یہی ہیںجو قوت کا سرچشمہ اور امیدوں کا مرکز بنتے ہیں ۔ یہی ہر قوم کے لئے آب حیات اور حیات تازہ کے بہار ہوتے ہیں۔ ان کے ولولوں اور امنگوں کے آگے ہمالہ پربت کی عظمت وبلندی بھی کانپتی نظر آتی ہے ۔ یہ نوجوان جس وقت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو وہ مظلوم اور کچلے ہوئے انسانوں کے درد کا درماں بن جاتے ہیں۔ جب یہ زندگی کے معرکے میں اتر تے ہیں تو ان کے عزم و ہمت کا گرم لہو لا وا بن کر ظلم و نا انصافی کے آشیانوں کو بھسم کر ڈالتا ہے۔
ایک چراغ سے ہزاروں چراغ جلتے ہیں ۔ آگ کی ایک چنگاری آسمان سے باتیں کرتے شعلوں میں بدل جاتی ہے۔ہر روزایک ہی سورج ہے جوپوری کائنات کو منور کرتا ہے۔ ایک چھوٹا سا ٹیوب لائٹ پورے کمرے کے اندھیرے کو اجالے میں بدل دیتا ہے ۔ انقلابات کی تاریخ بتاتی ہے کہ بالکل اسی طرح قوموں اور ملکوں کی زندگی میں انقلابی فکر و نگاہ رکھنے والے چند بہادر اور جینیس (Jenius) جوانوں ہی نے قوموں کی تقدیر بدل ڈالی ہے ۔ یہ دنیا ان گنت اقوام و ملل سے آبادچلی آ رہی ہے ، لیکن ان کی قسمت تھوڑے سے اشخاص کی فکر وفلسفے سے وابستہ ہوتی ہے ، جیسے پہاڑوں کے مضبوط جماؤ سے وہاں کی زمینوں کو جماؤ ملتا ہے ، ویسے ہی قوم کے لیڈروں اورعزم و ہمت کے دھنی انسانوں سے عوام میں عزم و ہمت کا لپکتا ہوا شعلہ پیدا ہوتا ہے۔
انسانی تحریکیں حالات کے شدید تقاضے سے ابھرتی ہیں ۔ ۱۵/ دسمبر ہندوستان کی پارلیامنٹ کی تاریخ میںوہ المناک گھڑی تھی جس دن CAAکے نام سے بل پاس ہو گیا ، مگر اسی دن کی وہ ساعت بڑی مبارک ثابت ہوئی، جب ملک کے دستور کی حفاظت کی خاطر اس شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ایک تحریک نے جنم لیا ، یہ تحریک ملک کی یونیوسیٹیوں کے غیور طلبہ کے ذہن و دماغ کی پیدا وار ہے۔ انہوں نے اپنے گہرے شعور اور قابل فخرکارنامہ کاآغاز کرکے اپنے بڑوں کا سر اونچا کیا ہے۔ چھوٹوں کے لئے ایک مثال قائم کی ہے اور تاریخ ہند میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیاہے۔ان نوجوانوں نے اپنے مثبت اور مبارک اقدام سے یہ پیغام دیا ہے کہ ہم نا انصافی اور انسانوں کو بانٹنے والے کسی بھی کالے قانو ن کو تسلیم کرنے والے نہیں ہیں۔ ہم اس ملک کے آئین اور دستور میں دیئے گئے سارے حقوق کے ساتھ خوددارانہ شان کے ساتھ زندگی گزاریں گے ۔ ہم اپنے ملک کے آئین کو بچانے کے لئے ،ہم اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لئے اور ان تک اپنی ملی جلی تہذیبی روایات اور قومی اقدار کوپہنچانے کے لئے آخر دم تک لڑیں گے ۔
ہندوستان کے غیور نوجوانو!تم نے قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کی سازشوں کے بھیانک نتائج کو بھانپ لیا اور تم اس کی مخالفت میں سینہ سپر ہو گئے ۔ اس مشن میں اس ملک کا ہر با شعور شہری تمہارے کارواں کے ساتھ جڑتا جا رہا ہے ۔مجھے نہیں معلوم کہ آزادی کی لڑائی کو چھوڑ کر جس نے ملک کو آزاد کرانے کے لئے ہندو مسلم اتحاد کا تاریخی نظارہ دنیا والوں کو دکھایا تھا ، آزاد ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد اوردل کش برادرانہ منظر دیکھا ہو گا۔ یقینی طور پرآئندہ نسلیں نہ صرف یہ کہ تم پر فخر کریں گی بلکہ تمہاری آج کی یہ قربانیاں ان کے لئے نشان راہ بن جائیں گی۔ اب تمہارے یقین و ارادے میں ذرا بھی کمزوری نہ آ نی چاہئے ،کوئی آندھی ، کوئی ہتھکنڈہ ، کوئی لالچ اور کسی بھی طرح کا ٹارچر تم کو راہ سے پیچھے ہٹا نہ سکے۔ اب تمہارا سفراسی وقت رکے گا اوراسی وقت آرام کرو گے جب تمہارا یہ مشن کامیابی سے ہم کنار ہو جائے گا۔
میں خاص طور سے اس ملک کے مسلمانوں سے کہوں گا کہ اگر تم پورے عزم و حوصلے سے یہ فیصلہ کر لو کے مذہبی فرقہ واریت پر مبنی اس قانون کو تسلیم کرنے کے لئے تیارنہیںہو ،تو دنیا کی کوئی طاقت تم کو تسلیم نہیں کرا سکتی۔تم خود میدان چھوڑ کر بھاگنا نہیں چاہتے تو کوئی طاقت نہیں جو تم کو بھگاسکے۔ مگرہم میں اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اگرہم اب بھی ہوش کے ناخون نہ لئے تو یہ غفلت ہمیںموت کے گڑھے میں جا کر گرائے گی ۔ہمیں اپنے ملک میں رہتے ہوئے بار بار اپنے اس عہد کو تازہ کرنا پڑے گا کہ ہم سچا مسلمان = سچاانسان=سچا محب وطن بنیں گے۔ہم ہمیشہ کمزوروں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ہم مظلوموں کی داد رسی سے کبھی پیچھے نہ ہٹیں گے۔ ہم انسانیت کے خدمت گار بن کر جئیں گے۔ہماراآئڈیل وہ انسان کامل ؐہے جو دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا ، لھذاہم رحمت کے اس سندیسے کو ہرجگہ پہنچانے کا پروگرام بنائیںگے اور اس پر عمل کریں گے۔ ہم ہمیشہ اس جذبے سے سرشار رہیںگے کہ اس ملک کی تقدیر سنوارنے میںہم حصے دار بن کر رہیں گے ۔
جوانو! خدا تمہارے اس مشن کو کامیاب کرے اور جب تک تم کامیاب نہیں ہو جاتے خدا تم ثابت قدم رکھے۔ پہلا قدم اٹھانے کااعزاز تم کو حاصل ہواہے ،پھر پوری قوم تمہارے ساتھ چل پڑی ہے، اب تمہیں آگے ہی بڑھتے جانا ہے اور ہر گز پیچھے ہٹنے کا خیال دل میں نہیں لانا ہے، جب تک کہ تم منزل کو پا نہیں لیتے ؎
اولو العزمانِ دانش جب کرنے پہ آتے ہیں سمندر پاٹتے ہیں ،کوہ سے دریا بہاتے ہیں۔
جواب دیں