پینے کا جب شعور نہ تھا جام کیوں لیا؟

لیکن ان چیزوں کے حصول میں کچھ تو انسان کی ذاتی محنت ولگن جذبہ اور تگ ودو اور زیادہ مشیت ایزدی کا بھی دخل ہوتاہے جسے مالک کائنات نے اپنی کتاب مقدس میں بھی بیان فرمایاہے وہ کچھ اس طرح کے وتعزمن تشاء وتذل من تشاء( یعنی اسی رب العزت کی ذات پاک ایسی ہے جس کو یہ حق اور قدرت حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے اقبال وعروج سے نوازے اورجسے چاہئے ذلت ورسوائی کو اس کا مقدراور نصیبہ بنائے ۔
اس حقیقت غیر انکاریہ سے صرف نظر اب ہم اپنے اصلی موضوع کی طرف رخ کرتے ہیں کہ میں نے جو اپنے مضمون کی شروعات جن تین الفاظ سے کی در حقیقت ان تین الفاظ کی اہمیت اور ان کی حقیقت سے سیاسی لیڈران زیادہ بہتر واقف ہیں کیوں کہ آج پوری دنیا میں جو اصلی لڑائی اور مقابلہ ہے وہ ان ہی تین چیزوں کا ہے آج ہمارے معاشرے کا ہر چھوٹا اور بڑا شخص خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشہ اور خطہ میں ہی کیوں نہ ہو خود کو ان چیزوں سے منسلک رکھنا چاہتاہے چاہے اسے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر چھوٹے اور بڑے سیاسی لیڈران کے دل میں ایک چھوٹے عہدے سے بڑے عہدے پر براجمان ہونے کی خواہش دل میں ہر وقت انگڑائیاں لیتی رہتی ہیں اگرچہ اسے اس کا موقع ملے یاپھر نہ ملے ۔ لیکن اگر کسی کو اس کا موقع کبھی مل جاتا ہے تو پھر وہ اس سے بھر پور رطریقہ سے جی بھر کے فائدہ اٹھانا چاہتاہے ۔ بقول شخص مل جائے جو بھی وقت غنیمت سمجھ کر چل۔
بڑے ہی قسمت کے دھنی ہیں بہار کے سابق وزیراعلی محترم جتن رام مانجھی جی جو کہ موجودہ وزیراعلی مسٹر نتیش کمار جی کی کرم فرمائی کی بنا پر وزیر اعلیٰ جیسی بڑی کرسی پر براجمان ہوئے تھے۔ اورجن پر بہت زیادہ اعتماد کرکے مسٹر نتیش کمار نے انہیں اس کرسی پر بیٹھایا تھا کہ وہ ان کے مقصد اور مشن کو آگے بڑھائیں لیکن مانجھی جی نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا اور ان کے مقصد کے خلاف کام میں ملوث ہوگئے جس کی بنا پر انہیں اپنی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اب یہ بھی بتادیں کہ مانجھی جی کے ہی بقول انہوں نے تودوچار مہینے ان کی خواہش اور ان کی مرضی کے مطابق کام کیا لیکن ایسی صورت میں انہیں اپنی حقارت محسوس ہونے لگی اور اس کے بعد انہوں نے اپنی ضمیر کی آواز کے مطابق فیصلے لینے شروع کئے تو مسٹر نتیش کمار نے ان سے اپنی کرسی لینے کا عندیہ ظاہر کیا؟ جس کی مخالفت میں مسٹر مانجھی جی نے صدائے احتجاج بلند کیا۔ اوراس موقع سے ایک دوسری سیاسی پارٹی جو کہ اقلیتوں یعنی مسلمانوں کی نظر میں کبھی بھی لا ئق اعتبار نہیں رہی اس نے اپنی سیاسی روٹی خوب سینکی یہاں تک کے سیدھے سادھے مسٹر مانجھی جی کو ان کے اڑیل رویہ پر اکسانے میں اس کا ہی خاص رول رہا جس کی بنا پر بہار کی دار الحکومت پٹنہ میں جو دو ہفتے تک ہا ئی وولٹیج سیاسی ڈرامہ چلا وہ پورے ملک کے میڈیا کی سرخیوں میں رہا۔ بالآخر انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ مانجھی جی کو اپنی امیج خراب کرنے اور افسوس ومحرومی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں لگا اور غالباً وہ اس شعر کے بھی مصداق بنے
نکلناخلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن 
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
جس کا انہیں بعد میں احسا س بھی ہوا اورانہوں نے شاید اپنی اس غَلطی پر ندامت کے آنسو بھی بہائے اور تنہائی میں اپنے آپ کو اتنی بڑی غلطی کے لئے کوسا بھی ہوکہ یہ میں نے کیا کیا ؟ لیکن شاید وہ وہ اقتدار کے نشے میں یہ کلیہ بھول بیٹھے تھے کہ اگر کوئی شخص کسی کواپنی جانب سے کوئی چیز دے سکتاہے تو وہی شخص کبھی اس سے وہ چیز لے بھی سکتاہے اس میں بہت ہی زیادہ احتجاج اور حجت کی ضرورت ہی نہیں ہوتی لیکن مسٹر مانجھی جی بی جے پی کے سہانے خواب کے آگے یہ چیزیں بھول گئے اورانہوں نے یہ تصور کرلیا کہ مسٹر نتیش کمار اور ا ن کی پارٹی جنتا دل یونائٹیڈ انہیں ان کے عہدے سے بے دخل نہیں کر سکتی اورانہوں نے اس کیلئے اپنی حمایت میں کچھ ممبر اسمبلی کے ہونے کی بھی بات کہی لیکن ا کثریت ثابت کرنے سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے انہوں نے اپنا استعفی گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی کو سونپ کر یہ ثابت کردیا کہ وہ دو ہفتے تک جھوٹ کے سہارے حکومت چلاتے رہے اور جس کے بعدیہ بھی ظاہر ہوگیاکہ اس سیاسی ہائی وولٹیج ڈ ارے کے پیچھے بی جے پی اورا س کی سیاسی مکاری کر فرما رہی جس کی قیمت مانجھی جی کو اپنی حکومت قربان کرکے چکانا پڑی ۔ جس کابعد میں مانجھی جی کو احساس بھی ہوا اورانہوں اس کا اظہار بھی کیا ابھی حالیہ دنوں میں مسٹر مانجھی نے پٹنہ میں صاف طور سے کہاکہ میری سرکار بی جے پی کی وجہ سے گری یعنی انہوں نے اپنی حکومت گرنے کا ذمہ دار بی جے پی کو مانا اورانہوں نے یہ بھی کہاکہ اگر ایک ہفتہ پہلے بی جے پی نے حمایت کا اعلان کردیا ہوتا تو اسمبلی میں وہ اکثریت ثابت کر دیتے اوران کی حکومت بچ جاتی۔ مانجھی جی نے نتیش کمار پر اکثریت ثابت کرنے کے لئے ہر ہتھکنڈے اپنانے کا الزام بھی لگایا اورکہا کہ نتیش کمار کو قانون سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ اسی موقع پرآئندہ کی حکمت عملی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پٹنہ گاندھی میدان کی ریلی کے بعد وہ اپنی راہ طے کر لیں گے مانجھی نے مزید کہا کہ انتخاب سے قبل ان کا کوئی اتحاد کسی کے ساتھ نہیں وہ بی جے پی، کانگریس، راشٹریہ جنتا دل یا جے ڈی یو کے ساتھ انتخابات کے بعد اتحاد کرنے کو تیار ہیں۔
لیکن 17 مارچ کو انہوں نے مظفر پور میں کہاکہ ان کی پارٹی ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) آئندہ اسمبلی کا الیکشن بی جے پی کے ساتھ مل کر لڑ سکتی ہے مانجھی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ سے ان کی بات ہوئی ہے اور ان کا خیال ملک کی ترقی کرنے کا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہار کی ترقی کے لئے ان کا مورچہ (ہم )بی جے پی کے ساتھ مل کر اسمبلی کا الیکشن لڑ سکتا ہے۔ دونوں ساتھ مل کر لڑے تو ریاست میں وہ حکومت بھی بنا سکتے ہیں وہیں سابق وزیر اعلی مانجھی نے کہا کہ پورے بہار میں بدعنوانی عروج پر ہے اور اس کے لئے ریاست کے وزیر اعلی نتیش کمار ذمہ دار ہیں یعنی انہوں نے مکمل طورپر نتیش کمار کو بہار کی صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا۔ 
اب رہی رہی بات آئندہ بہار کے اسمبلی الیکشن کی تو وہ آنے والے اکتوبر نومبر میں ہونے ہیں اور اس میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ شاید مانجھی جی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ بی جے پی کے ساتھ مل کر وہ اپنی نیا بھی پار لگا لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہوگی انہیں ا پنے ذہن سے یہ بات نکالنی ہوگی کہ ملک میں بی جے پی کی لہر ہے اور مودی لہر سے فائدہ اٹھا کر وہ بھی کامیاب ہوجائیں گے جیسے کہ گذشتہ سال کے پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی سے ہاتھ ملا کر ایل جے پی سربراہ رام ولاس پاسوان نے فائدہ اٹھایا اور اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ لیکن اب ایسا ہونے والا نہیں کیوں کہ عوام پر اب بی جے پی کے جھوٹے وعدوں کا زور چلنے والا نہیں ہے اورا ب عوام خاص طورسے بہار کی بیدار معز عوام اس کے جھوٹ وفریب میں آنے والی نہیں جس کا ثبوت دلی کی عوام نے بی جے پی کو دلی اسمبلی کے الیکشن میں زبردست شکست سے دوچار کرکے پورے ملک کو واضح پیغام دے دیاہے جو پورے ملک کی امن پسند عوام کیلئے ایک سبق ہے۔

«
»

آج کی دنیا کے قارون

آر ایس ایس اور عیسائی دنیا آمنے سامنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے