اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ لوگ یا تو بیوقوف اور ناسمجھ ہیں یا پھر شمع کی روشنی میں امن اور آزادی کے متلاشی ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ امن و سکون اور آزادی کیلئے وہ جس روشنی کی تلاش میں ہیں اس کے لئے اگر بار بار اپنی جان دینا پڑٖے تو کیا ہو اوہ اپنی اس جرات اور شاہینیت کا مظاہرہ ضرور کرتے رہیں گے ۔شمع اور پروانوں کے اس کھیل اور مفروضے سے جو نتیجہ بھی اخذ کیا جائے اور دنیا انہیں بیوقوف ہی کیوں نہ سمجھے لوگوں نے انہیں دہشت گرد اور حملہ آور کہنے کی بجائے ان کی اس حرکت سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کی ہے۔یہ کھیل ہم زمانے سے دیکھتے آرہے ہیں اور شاید قیامت تک جاری رہے مگر ان کی فطرت کو کوئی بدل نہیں سکتا ۔دنیا میں ایسی اور بھی مخلوق ہیں جو فطرتاًجانباز اور حملہ آور رہی ہیں ۔اقبال نے ایسے ہی ایک پرندے کی خاصیت بتاتے ہوئے اسے شاہین کا لقب دیا ہے اور کہتے ہیں کہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ
اور پھر ایک دوسرے مقام پر اس کی خودداری کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
شاید اس کا مفہوم یہ ہے کہ شاہین اپنی خوراک خود تلاش کرتا ہے جبکہ کرگس ہمیشہ اس تاک میں ہوتا ہے کہ کہیں کوئی مردار نظر آئے اور وہ شکم سیر ہو اور صرف اتنا ہی نہیں کئی مقام اور اشعار میں انہوں نے اس پرندے کی جنگجوئیت اور دفاعی حکمت عملی کو بھی خراج تحسین پیش کیا ہے ۔اقبال نے ایک رئیسانہ اور صوفیانہ گھرانے میں پرورش پانے کے بعد بھی اس پرندے کی خصلت کو جس طرح اتنی باریکی اور اتنی آسانی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے یہ دریافت بھی انہی کیلئے خاص ہے ۔مگر جو لوگ گاؤں اور دیہاتوں میں زندگی بسر کر چکے ہیں انہیں اکثر و بیشتر شاہین اور کرگس کی ان خصوصیات کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے ۔
ایک بار کا واقعہ ہے ہم ایک اسکول کے احاتے (کمپاؤنڈ )سے گذررہے تھے کہ اچانک ایک پرندے نے زور دار طریقے سے ہمارے سر پر حملہ کردیا اگر ہم اس کی آہٹ کو محسوس کرتے ہوئے سنبھل نہ جاتے تو ممکن تھا کہ گھائل بھی ہو جاتے اس طرح بھاگتے ہوئے جب ہم ایک عمارت کے نیچے کھڑے ہوئے تو دیکھتے ہیں کہ وہ ایک باز تھا اور حملہ کرکے قریب ہی ایک عمارت کی چھت پر بیٹھ گیا ہے ۔ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ آخر اس نے ہم پر حملہ کیوں کیا جبکہ ہم نے ااس کوکوئی نقصان بھی نہیں پہنچایا تھا کہ اتنے میں اسکول سے نکل کر کے کچھ لوگ ہمارے اطراف میں جمع ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ کہیں کوئی چوٹ تو نہیں آئی میں نے کہا چوٹ تو نہیں آئی مگر اس نے حملہ کیوں کیا ۔لوگوں نے کہا کہ سامنے ناریل کے درخت پر اس نے اپنا گھونسلہ بنایا ہوا ہے اور گھونسلہ بنانے کا مطلب ہے کہ اس کے اندر وہ اپنے بچوں کی رکھوالی کرتا ہے اور اکثر جب یہ پرندہ کسی اجنبی شخص کو اس درخت کے نیچے سے گذرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس حملہ کردیتا ہے ۔میں نے کہاتعجب ہے درخت کافی اونچا ہے اور ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان اتنی بلندی پر اس کے بچوں کو نقصان پہنچانے کی بھی سوچ سکے اس کے باوجود بھی حملہ کرنے کا کیا مطلب؟ہم نے دل میں سوچا کہ یا تو یہ پرندہ بیوقوف ہے یا پاگل ہے ۔مگر پھر یہ خیال آیا کہ اقبال کا یہ ہیرو ایسا بالکل نہیں ہو سکتا دراصل یہ پرندہ اپنی آزادی اپنے تحفظ اور دفاع کے تئیں بہت ہی حساس ہوتا ہے،وہ یہ برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ کوئی شخص اس کے آشیانے پر حملہ کرنا تودور کی بات اگر وہ اس کی حد میں بھی داخل ہوتا ہے تو بھی اسے ممکنہ حملے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔جبکہ اسے یہ بھی ضرور پتہ ہوگا کہ وہ انسانوں کے جس قبیلے پر حملہ آور ہے وہ اس پورے پیڑ کو بھی کٹواکر اس کے گھونسلے کو تباہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے ۔ مگر اس کی فطرت کو کون بد ل سکتا ہے ۔اس لئے وہ نتائج سے بالکل بے فکر ہو کر وہی کرتا ہے جیسا کہ اسے کرنا چاہئے اور جیساکہ اسی فطرت پر ہی اس کے خالق نے اسے پیدا کیا ہے۔شاید اسی لئے اس خونخوار پرندے کو بھی ہم دہشت گرد نہیں کہتے بلکہ اپنی اسی فطرت کے سبب ہی یہ پروانے اور یہ پرندے اس کائنات کی خوبصورتی کا حصہ ہیں اور اپنی انہیں حرکتوں سے ہمیں کوئی نہ کوئی پیغام دے جاتے ہیں ۔
اس طویل تمہید اور قصے سے ہماری مراد فلسطینی مسلمانوں کی آزادی اور مزاحمت ہے۔ اسرائیل مسلسل ان کے بچوں کا قتل عام اور گھروں کو مسمار کرکے اپنی درندگی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔اور جب یہ لوگ حملہ آور ہوتے ہیں تو ان کے اس عمل کو دہشت گردی میں شمار کردیا جاتا ہے ۔حالیہ دنوں میں جب اسرائیل نے اپنے تین لڑکوں کے قتل کے بدلے میں غزہ پر بمباری کرکے جس بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اخبارات میں ہر روز فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کی زخمی تصویریں نظر آتی ہیں اور اس تباہی کے بعد خوراک پانی اوردوا علاج کی قلت سے جس طرح یہ لوگ گذررہے ہیں اس کا اندازہ بھی صرف وہی لگا سکتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی ان کے چہروں پر کہیں سے خوف اور مایوسی کی کوئی تصویر نظر نہیں آتی ۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ مشکل اور تباہی کے ان حالات میں بھی وہ اسرائیل کے طاقتور میزائلوں اور طیاروں کے مقابلے میں اپنے ننھے منے میزائلوں سے حملہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔یہ ان کی جرات اور ہمت ہی ہے کہ پچھلے پینسٹھ سالوں میں اسرائیل نے ان کا سب کچھ چھین لیا یعنی ان کی زمین چھین لی گئی ،ان کے باغات تباہ کردئے گئے ،ان کے گھروں کو مسمار کردیا ان کے مویشی اٹھا لے گئے ان کی مسجدیں اور بازار تک کو ویران کردیا گیا مگر ان کے عزم اور استقلال کی طاقت کو ذرہ برابر بھی متزلزل نہیں کر سکے ۔اس کا ثبوت ہیں یہ ننھے میزائل اور میزائل لانچر اور ڈرون حملے جسکی تحریک انہیں اسرائیلی ٹینکوں پر سنگ باری کرتے کرتے حاصل ہو ئی ہے جبکہ ان کے میزائلوں سے زیادہ طاقت ور ان کی قیادت ہے ۔جو مسلسل اپنے بچوں کے خون گرمائے ہوئے ہے۔یہ اسرائیل کی دہشت ہی کہہ لیجئے کہ اس نے کچھ عرصہ پہلے حماس کے ایسے رہنما کو اپاچی ہیلی کاپٹر پر نصب میزائل سے حملہ کرکے شہید کیا جو اپنے پیروں اور آنکھوں سے معزور تھے اور جس وقت ان کے اوپر حملہ کیا گیا تقریباً75 سالہ شیخ احمد یسٰین فجر کی نماز پڑھ کر وہیل چیئر کے ذریعے اپنے گھر کی طرف لوٹ رہے تھے ۔ان کے بعد جب عبد العزیز الرنتیسی نے حماس کی سربراہی کی ذمہ داری اٹھائی تو کسی اخبار کے صحافی نے پوچھا کہ کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ جس کرسی کو سنبھالنے جارہے ہیں یہ اسرائیلی میزائلوں کی زد میں ہے ۔الرنتیسی نے جواب دیا کہ قوم کی قیادت ہمارے اوپر فرض ہے ۔موت کا خوف ہمیں فرض کی ادائیگی سے باز نہیں رکھ سکتا ۔اور پھر صرف تین دن بعد ہی اسرائیل نے اسی طرح میزائلوں کے ذریعے اس رہنما کو بھی شہید کردیا ۔اس واقعے کو گذرے ہوئے بھی تقریباً دس سال ہو چکے ہیں مگر کیا اسرائیل ان لوگوں پر اپنی دہشت قائم کرنے میں کامیاب ہو سکا ۔8 ؍جولائی سے اسرائیلی حملوں کی دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس کی شروعات حماس کی طرف سے ہوئی ہے ۔ اسرائیل ابھی اپنے تین لڑکوں کی موت کے بدلے میں حملے کی منصوبہ بندی کر ہی رہا تھا کہ اچانک اسرائیلوں کی طرف سے ایک تیرہ سالہ بچے کو اس وقت اغوا کر لیا گیا جب وہ فجر کی نماز پڑھ کر گھر لوٹ رہا تھا اور پھر اسے زندہ آگ میں جھلساکر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔فلسطینی تنظیم حماس نے اس بچے کی موت کا بدلہ لینے کیلئے اسرائیلی تنصیبات پر حملہ کرنا شروع کردیا۔کچھ لوگ حماس کی اس پہل کو بہانہ بناکر نہ صرف اسرائیل کی مذمت کرنے سے گریز کررہے ہیں بلکہ حماس کو اس حملے کی شروعات کا ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے ۔یہ دلیل سراسر غلط بے بنیاد اور نا انصافی کی حمایت کے مترادف ہے ۔ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور پچھلے پینسٹھ سالوں سے اس نے فلسطینیوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور عالمی طاقتیں انہیں انصاف دلانے سے بھی قاصر ہیں اس لئے فلسطینیوں کو یہ حق ہمیشہ حاصل ہے کہ وہ جب چاہیں اسرائیل پر حملہ کریں۔سوال یہ ہے کہ اب ان کے پاس مرنے مارنے اور شہید ہونے کے علاوہ کوئی راستہ بھی تو نہیں بچا ہے ۔کیا دنیا ان سے موت کا یہ حق بھی چھین لینا چاہتی ہے ۔برطانوی پارلیمنٹ میں لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے ممبر ڈیوڈ وارڈ نے بالکل صحیح کہا ہے کہ اگر وہ غزہ کے رہائشی ہوتے تو وہ خود بھی اسرائیل پر راکٹ فائر کرتے ۔اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل جنگ بندی کیلئے تیار ہے مگر حماس ضد پر قائم ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینیوں کا یہی مطالبہ ہے ؟کیا اسی جنگ بندی اور راحت کیلئے وہ پچھلی کئی دہائیوں سے شہید ہو رہے ہیں ؟آخر انہیں مکمل انصاف کب لوٹایا جائے گا؟اگر دنیا کے چرند و پرند اور حیوان اپنی آزادی کیلئے حساس ہو سکتے ہیں اور ان کے حملے کو جائز اور فطری قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر انسانوں کو یہ حق حاصل کیوں نہیں ہے؟اگر مہذب دنیا کا انسان قدرت کے اس فطری قانون کا احترام نہیں کرتا ہے تو پھر اسے ایک زبردست فساد اور تباہی کیلئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے جو اس کا مقدر ہے ۔فلسطینی مسلمان اگر دنیا میں اپنا حق نہیں پاتے ہیں تو کیا ہوا وہ ایک بہترین اجر کے مستحق ہو چکے ہیں ۔مگر اسرائیل اور اس کے حمایتیوں کاکیا اور عرب کے ان حکمرانوں کا کیا حشر ہوگا جو خاموش تماشائی بنے ہوئے ظلم کا نظارہ کررہے ہیں ۔
جواب دیں