گزشتہ سنیچر یعنی کہ 9نومبر2013کولکھی سرائے پولیس نے این آئی اے سے ملی ان پٹ کی بنیاد پر لکھی سرائے سے پون کمار، وکاس کمار، گنیش پرساداور گوپال کمار گوئل نیز دھنباد سے راجو ساؤکو کو گرفتار کیا ۔ان کے قبضے سے 20اے ٹی ایم کارڈ، 51سے زائد بینک اکاؤنٹ،دس سم کارڈ اوراکی درجن سے زائد پاس بک ضبط کیا گیا ہے۔ لکھی سرائے پولیس کے ڈی ایس اپی سبودھ کمار بسواس کے مطابق یہ لوگ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے رابطے میں تھے اور انہیں پاکستان سے موٹی رقم بھیجی جاتی تھی اور ان پیسوں کا استعمال یہ نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے کرتے تھے۔ یہ معاملہ کس قدر سنگین ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے اندر پاکستان سے ایک کروڑ رپئے کا ٹرانزیکشن کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق پاکستان سے پیسیوں کا یہ غیر قانونی لین دین کئی سالوں سے چل رہا ہے،اور پٹنہ دھماکوں میں ان پیسوں کے استعمال سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ پٹنہ دھماکوں کے بعد گرفتار کئے لوگوں نے قبول کیا تھا کہ گاندھی میدان میں بم رکھنے کے عوض انہیں 10-10 ہزار روپے دیے گئے تھے۔دھماکوں کے الزام میں گرفتار کئے گئے ایک ملزم کی نشاندہی پر ان چاروں کی گرفتاری ہوئی ہے۔گوپال گوئل کو اس گروہ کا سرغنہ بتایا جارہاہے ، جس کی نشاندہی پر پولیس نے دھنباد سے راجو شاؤ کو گرفتاری کیا گیا ہے اوراس کے مزید تین ساتھیوں کی تلاش جاری ہے۔لیکن جس طرح ان لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے اورجس طرح پٹنہ دھماکوں کے معاملے میں این آئی اے ان سے چھان بین کررہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا دہشت گردی سے نہایت گہرا رشتہ ہے اور یقین کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں ہوئے حالیہ دہشت گردانہ حملوں میں بھی ان کا اہم رول ہے۔
ان دہشت گردوں کی گرفتاری سے اگر ایک جانب پٹنہ دھماکوں کے اصل سازش بے نقاب ہوئی ہے تو وہیں اس منوج نامی شخص کی بھی کہانی سامنے آگئی جسے پٹنہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 10پر ہوئے دھماکے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، مگر اس کے بعد اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی کہ وہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا۔جبکہ گرفتاری کے وقت وہ خود کو بی جے پی کا کارکن قرار دے رہا تھا اور اس کی گرفتاری کے وقت اس کے ساتھیوں نے ہنگامہ کیا تھا کہ پولیس بی جے پی کے ایک کارکن گرفتار کیا ہے ۔بہت ممکن ہے کہ منوج کو بی جے پی کے کسی اہم لیڈر کی نشاندہی پر رہا کردیا گیا ہو۔ ان بھگوادہشت گردوں کی گرفتاری دہشت پھیلانے کے اس طریقۂ کار کی بھی نشاندہی کرتی جس میں ان گرفتارشدگان کی اہمیت ایک پیادے سے زیادہ کی نہیں ہوتی اور جس کے تحت ان کے جیسے لوگوں کو کچھ ایسے کام آؤٹ سورس کردئے جاتے ہیں جس میں پکڑے جانے کی صورت میں اصل مجرمین پر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔ ان پانچوں بھگوادہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد گوکہ سیکوریٹی ایجنسیوں نے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ ان کی نشاندہی پر ان کے اصل آقاؤں تک پہونچنے کی کوشش کی جائے گی ، مگر اس معاملے میں ابھی تک کی پیش قدمی یہ بتاتی ہے کہ ان گرفتارشدگان کی کہانی بھی بہت جلد کسی مسلم نام کی جانب مڑجائے گی اور جسے اس معاملے کا ماسٹر مائنڈ بتاتے ہوئے مجرم بنادیا جائے گا۔
ان بھگوادہشت گردوں کی گرفتاری سے ایک بار پھر یہ سوال ملک کے سامنے اور دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے والی ایجنسیوں کے سامنے منہہ کھولے کھڑا ہے کہ کیا دہشت گردی کے معاملے میں صرف مسلمانوں کو ملوث قرار دینا اور دہشت گردی کو صرف مسلمانوں سے جوڑنا بھگوادہشت گردی پر پردہ ڈالنے جیسا نہیں ہے؟ کیا یہ بھگوادہشت گردی ملک کے لئے ایک بڑا خطرہ نہیں ہے ؟ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہوجاتا ہے کہ پٹنہ بلاسٹ کے معاملے میں مذکورہ بالا پانچ بھگوادہشت گردوں کی گرفتاری سے قبل مالیگاؤں واجمیر وغیرہ بم دھماکوں کے الزام میں جیل میں قید دیا نند پانڈے نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ سنگھ کے کئے لیڈر ملک میں دہشت گردی کے لئے پاکستان کی بدنام زمانہ خفیہ تنظیم آئی ایس آئی سے پیسے لیتے ہیں۔ اس لنک http://zeenews.india.com/Nation/2009-02-18/508735news.html پر دیانند پانڈے کا وہ اعتراف نامہ موجود ہے جس میں اس نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا بھی نام لیا ہے کہ انہیں بھی آئی ایس آئی پیسے دیتی ہے۔ لیکن ان سب حقائق اور اعترافات کے باوجود دہشت گردی کے الزام میں گرفتار بھگوادہشت گردوں کوتفتیشی ایجنسیاں صرف مجرم قررادیتی ہیں جبکہ وہ صریح طو ر پر دہشت گرد ہیں۔ پٹنہ دھماکوں کے سلسلے میں بھی یہی ہورہا ہے کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور جن پر آئی ایس آئی سے فنڈ ملنے کی بات کہی جارہی ہے ، انہیں دہشت گرد قرار دینے کے بجائے حوالہ ریکٹر قرار دیا جارہا ہے ۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دوہرا پیمانہ نہیں ہے کہ اگر کسی مسلمان کوفرضی طور پردہشت گردی کے کسی معاملے میں گرفتار کیا جائے تو وہ دہشت گرد اور اگر کوئی ہندو یا سنگھی پکڑا جائے تو وہ محض مجرم؟دراصل بھگوادہشت گرد یہی چاہتے ہیں کہ ان کے کرتوتوں کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑا جائے ، جس میں وہ صد فی صد کامیاب ہیں۔
17؍اپریل2013کو بنگلور میں بی جے پی کے دفتر کے باہر صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے 17روز قبل بھی اسی طرح کے دھماکے ہوئے تھے ، جس کے الزام میں 14مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا کرلیا گیا تھا اور اکتوبر2013میں ان کے خلاف چارج شیٹ بھی داخل کردی گئی تھی۔جبکہ اس دھماکے میں ٹریگر کے طور پر استعمال ہونے والا سم کارڈ آر ایس ایس کے ایک لیڈرکا تھا(دی ہندو ،11؍مئی2013) اور دھماکے میں استعمال ہوئی موٹر سائیکل ایک ٹیلی ملازم ایس شنکرنرائنن کا تھا(پنجاب کیسری، 18؍اپریل2013)۔ اس صریح ثبوت کے باوجود انہیں کلین چیٹ دیدیا گیا اور 14؍مسلم نوجوانوں کو دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کے بارے میں نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹ آرگنائزیشن (NCHRO) کا دعویٰ یہ ہے کہ ان تمام کو فرضی طور پر گرفتار کرکے دھماکے کے الزم میں پھنسایا گیا ہے اور ان پر جھوٹے مقدمات درج کئے گئے ہیں(دیکھئے: ٹائمز آف انڈیابنگلور، 28مئی2013)۔ اسی طرح 7جولائی 2013کو ہوئے گیا کے پربودھنی مندر میں دھماکوں کے معاملے میں بھی انڈین مجاہدین کے حوالے سے مسلمانوں کونشانہ بنایا گیا جبکہ اس معاملے میں این آئی اے نے ایک ہندوپجاری اروپ برہمچاری اور ونود مستری کو گرفتار کیا تھا(نوبھارت ٹائمز،14؍اگست2013)، مگر دھماکوں کا پورا ٹھیکرا انڈین مجاہدین کے سر پھوڑا گیا۔ اس معاملے میں تفتیشی ایجنسیوں نے 6سے زائد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا اور بڑے ہی منظم طریقے سے اس معاملے میں ملوث بھگوادہشت گردی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
پٹنہ دھماکوں کے سلسلے میں لکھی سرائے ودھنباد سے گرفتار کئے گئے بھگوادہشت گردوں کے بارے میں ہمارے قومی میڈیا کا رویہ نہایت جانبدارانہ رہا ہے ۔ یہ وہی میڈیا ہے جو کسی مسلم کی گرفتاری پر آسمان سر پر اٹھالیتا ہے اور ہر دہشت گردانہ واردات کو ’سورسیس ‘و ’سوتروں‘کے حوالے سے انڈین مجاہدین سے جوڑنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے۔ لیکن جب ان پانچ بھگوادہشت گردوں کی گرفتاری ہوئی تو اسی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا اور انہیں حوالہ ریکٹ سے جوڑنے کی کوشش میں لگ گیا۔ دینک جاگرن توگویا بھگوادہشت گردوں کے ترجمان کا رل ادا کیا ہے۔ ان کی گرفتاری پر اس اخبار نے بجاے انہیں دہشت گرد قرار دینے کے انہیں دہشت گردوں کو معاشی مدد پہونچانے والا بتایا۔جبکہ این آئی اے کے حوالے سے اس گرفتاری کو پٹنہ دھماکوں کے سلسلے میں ہوئی گرفتاری قرارد دی گئی ہے۔غیرجانبداری کے علم بردار ہمارے اس قومی میڈیا کی غیرجانبداری پتہ نہیں کیوں بھگوادہشت گردی کے معاملے میں بالکل ہی تبدیل ہوجاتی ہے ۔ اگر ہمارے قومی میڈیا کی یہی مبنی بر انصاف جرنلزم ہے تو ایسے جرنلزم پر ہزارہا لعنت جو مذہبی عینک یا یوں کہیں کہ سنگھی عینک سے ہر حادثے، واردات یا واقعے کو دیکھتا ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ 26؍اکتوبر2013کو ہوئے ان بم دھماکوں میں شک کی سوئی ابتداء سے ہی انڈین مجاہدین کی جانب ہی رہی ،مگر اس کا کیا جائے کہ بھگوادہشت گردی پر دہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کے باوجود بلی تھیلی سے باہر آہی گئی اور اس طرح باہر آئی کہ5بھگوادہشت پولیس کے شکنجے میں آگئے۔ گوکہ ان بھگوادہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد بھی انہیں براہِ راست دہشت گردی سے جوڑنے میں پولیس وانتظامیہ کی پس وپیش جاری ہے اور اسے حوالہ ریکٹر قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے ، مگر اس پس وپیش سے یہ حقیقت تو نہیں تبدیل ہوجائے گی کہ ان گرفتار شدہ دہشت گردوں کے کے تار کسی نہ کسی طور پر پٹنہ دھماکوں سے ملتے ہیں ،جس کے الزام میں کئی مسلم نوجوانوں کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ان گرفتار شدہ دہشت گردوں کے ساتھ تفتیشی ایجنسیوں کے نرم رویہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے لکھی سرائے پولیس کے سربراہ راجیو مشرا نے ان گرفتار شدگان کے بارے میں کہا کہ گوکہ ان کے پاکستان رابطے کی تحقیات ہورہی ہیں، مگر ان کا انڈین مجاہدین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔(مسلم میرر،11؍نومبر2013) راجیو مشرا کے اس بیان سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پولیس ان بھگوادہشت گردوں کی پشت پناہی میں لگی ہے تو وہیں یہ حقیقت بھی اجاگر ہوتی ہے کہ انڈین مجاہدین اگر موجود ہے تو وہ دراصل انہیں جیسے بھگوادہشت گردوں کا ایک گروہ ہے ۔ اگر ان گرفتار شدگان کی گہرائی سے جانچ کی جائے تو یقین ہے کہ 2005سے ہم جس انڈین مجاہدن کے معمے سے جوجھ رہے ہیں وہ معمہ حل ہوجائے اور اس کے پردے سے بھگوادہشت گردی کا خونی چہرہ سامنے آجائے اور ملک میں ہوئے بیشتر بم دھماکوں کے اصل مجرمین بے نقاب ہوجائیں۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوگا اور یہ معاملہ لیپا پوتی کی نذرہوکر مسلمانوں کی گرفتاری پر ختم ہوجائے گا۔گویا حکومت، پولیس، تفتیشی وسیکوریٹی ایجنسیاں اور میڈیا نے یہ طئے کرلیا ہے کہ وہ ہر صورت میں بھگوادہشت گردوں کی پشت پناہی کریں گی اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی حتی الممکن سعی کریں گی۔
جواب دیں