پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی ۰۰۰ جمہوریت کا قتل یا۰۰؟

بعض تعصب پرست الکٹرانک میڈیا کے چیانلس مسلم دشمنی کا کھلا ثبوت پیش کرنے میں نمایاں نظر آتے ہیں اور ان ہی صحافیوں اور چیانلس کی وجہ سے ملک میں بد امنی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔یعقوب میمن کو پھانسی کی سزا سے لے کرپھانسی دےئے جانے تک تعصب پرست میڈیا نے مسلم دشمنی کا کھلا ثبوت دیتے ہوئے فرقہ پرست مسلم دشمن عناصر کو پیش کرکے ملک کی امن وآمان فضا کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی لیکن ممبئی کے مسلمانوں نے جس طرح یعقوب میمن کی نماز جنازہ میں شریک ہوکر امن و آمان کو برقرار رکھا یہ ہندوستانی تاریخ کی ایک مثال ہے۔یعقوب میمن کو پھانسی دےئے جانے سے قبل ہندوستان کی پارلیمنٹ میں کوئی اور ہی معاملہ کے خلاف احتجاج جاری تھا اور اب بھی جبکہ پارلیمانی سیشن ختم ہونے والا ہے یہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے ۔ سیشن کے تیسرے ہفتہ کانگریس کے 25اراکین لوک سبھا کو غیر اصولی رویہ پر پانچ دن کیلئے معطل کردیا گیا تھا جسکے خلاف اپوزیشن نے احتجاج کیا ۔سیشن کے چوتھے ہفتے بھی کانگریس کی ہنگامہ آرائی جاری رہی ۔ ہنگامہ آرائی پراسپیکر لوک سبھا سمترا مہاجن نے ہنگامہ آرائی کو جمہوریت کا قتل قرار دیا اور کہا کہ 40افراد 440سے زیادہ ارکان کے حقوق کو یرغمال بنانے کی کوشش کررہے ہیں جو مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم دیکھ رہی ہے اس سے پوری قوم کو غلط پیام جارہا ہے۔ واقعی یہ صرف ہندوستانی قوم ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں دیکھا جارہا ہوگا جس کا اثر ملک و بیرون ملک پڑے گا۔
21؍ جولائی سے مانسون سیشن کا آغاز ہوااور اس سیشن کا تین ہفتے اپوزیشن کی جانب سے للت مودی اور ویاپم گھوٹالہ کو لے کر مرکزی وزیر خارجہ محترمہ سشما سوراج ، مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کے استعفیٰ کی مانگ کی نظر ہوگئے۔ اس سے قبل بھی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا قیمتی وقت یعنی2014کا سرمائی سیشن اور2015کے بجٹ سیشن کے دوران حکومت کے خلاف اپوزیشن کے احتجاج کی نظر ہوگیا۔گذشتہ بجٹ سیشن سے قبل فرقہ پرست اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ بیانات دینے کی وجہ سے اپوزیشن نے سخت احتجاج کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو اس سلسلہ میں ایوان پارلیمنٹ میں بیان دینے کی اپیل کی گئی تھی ، اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں خاموشی اختیار کی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس سیشن کا بہت سارا وقت ضائع ہوگیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو آج بھی عالمی سطح پر گجرات 2002کے فسادات کا ذمہ دار مانتے ہیں ۔ وزیر اعظم کے اتنے بیرونی دورے ہوچکے ہیں اور وہ ان دوروں کے دوران ملک کی سلامتی و خوشحالی و ترقی کیلئے جس طرح پیش پیش دکھائی دیتے ہیں درآمدات اور برآمدات اور ہندوستان میں سرمایہ کاری کے سلسلہ میں ان ممالک کے ساتھ ہندوستان کے بہتر اور خوشگوار تعلقات کے استحکام کے سلسلہ میں جو معاہدات ہورہے ہیں یہ تمام اپنی جگہ۔ ملک میں ترقی و خوشحالی اور پرامن فضا اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب ملک میں اکثریت اور اقلیت کے درمیان خوشگوار تعلقات اور بھائی چارگی کا ماحول ہو۔ جس ملک میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور جہاں آئے دن اقلیتوں پر حملے کئے جاتے ہیں ایسے ممالک کبھی ترقی نہیں کرسکتے اور یہاں کی فضاء ہمیشہ مکدر رہتی ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی آزادی کے بعد سے یعنی چھ دہوں سے کسی نہ کسی مقام پر فرقہ وارانہ فسادات کا لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔ قومی جماعت کانگریس جس نے ملک پر سب سے زیادہ حکومت کرچکی ہے اسکے دورِ حکومت میں بھی ہزاروں فسادات ہوچکے ہیں جس میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور انکی جائیدادوں کو لوٹ لیا گیا یا انہیں تباہ و برباد کردیا گیا، انکے معصوم بچوں کو بے یارو مددگار کیا گیا یہی نہیں بلکہ نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی عصمتوں کو لوٹ کر انہیں بھی بری طرح قتل کردیا گیا۔ آزادئ ہند کی بعدکی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں نے جو مصیبتیں و صعوبتیں برداشت کیں ہیں اور فرقہ ورانہ فسادات میں انہوں نے جو جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے اس زخم کو کوئی بھی حکمراں یا جماعت نہیں بھر سکتی۔ کانگریس کے دورِ اقتدار میں جس طرح مسلمانوں کے خلاف اندرونی طور پر سازشیں رچی گئیں اس کا منہ بولتا ثبوت بابری مسجد کا تالا کھلانا اور اس کی شہادت ہے۔ بی جے پی ور دیگر ہندوتوا جماعتوں کوتو مسلمان کھلے عام اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور ان جماعتوں اور قائدین سے انہیں کوئی اچھی امیدیں بھی نہیں رکھتے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی کامیابی اور وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد اس ملک کے تمام عوام کو برابر کے حقوق دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن انکی حکمرانی میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے کیونکہ مرکز میں بی جے پی حکومت قائم ہونے کے بعد سے ہندوتوا جماعتوں کے بعض تعصب پرست ملک دشمن عناصر کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا بازار گرم ہوچکا ہے کبھی لو جہاد تو کبھی گھر واپسی کے پروگرام کی تشہیر کی گئی۔ مسلمانوں کے خلاف جس طرح ممکن ہوسکتا ہے ان فرقہ پرست ذہنیت نے کھل کر بیان بازی اور تقاریر کیں اور کررہے ہیں اس کے باوجود ہمارے ملک کے وزیر اعظم پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے اصرار کے باوجود کوئی جواب دینے حاضر نہیں ہوتے ۔ گذشتہ سیشن کے دوران پارلیمنٹ میں اتنی ہنگامہ آرائی اور احتجاج کے باوجود وزیر اعظم کی خاموشی کوئی توڑ نہ سکا۔ پارلیمنٹ کا وقت کتنا قیمتی ہوتا ہے اس کا اندازہ شائد اراکین پارلیمنٹ یا حکومت کو نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو انہیں اس کی کیا پرواہ کیونکہ پارلیمنٹ پر جو خرچہ آتا ہے یہ عوامی پیسہ ہے اور عوام کے پیسے کا استعمال سیاسی قائدین کا حق ہے۔ پارلیمنٹ سیشن کے دوران ہر ایک منٹ پر ڈھائی لاکھ (2.5)روپیے کا خرچہ آتا ہے ۔ ہندوستانی پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہے یعنی لوک سبھا اور راجیہ سبھا ان دونوں ایوانوں میں سال بھر میں تین سیشن ہوتے ہیں یعنی بجٹ سیشن جو فبروری سے مئی تک، مانسون سیشن جو جولائی سے ستمبر تک اور سرمائی سیشن جو نومبر سے ڈسمبر تک جاری رہتا ہے ۔ یہ تینوں سیشن ہرسال 80سے 100دن جاری رہتے ہیں اور ہر دن کے لئے کم و بیش چھ کروڑ روپیے کا خرچہ ہوتا ہے یعنی ہر سال پارلیمنٹ کے تینوں سیشنوں پر کم از کم600کروڑ روپیے کا خرچہ ہوتا ہے۔ نریندر مودی کے دور حکومت میں جس طرح پارلیمنٹ کے تینوں سیشنوں کے دوران کئی دن اپوزیشن کے احتجا ج کی نظر ہوگئے ، اس مرتبہ بھی مانسون سیشن للت موی اور ویاپم گھوٹالہ کی نظر ہوگئے جبکہ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دورِ حکومت میں یعنی 2014کا مانسون سیشن کوئلہ اسکام کی نظر ہوگیا تھا ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دورِاقتدار میں آئی پل ایل اسکام، 2G spectrumاسکام وغیرہ کی وجہ سے پارلیمنٹ کا وقت ضائع ہوا۔ اپوزیشن کی مخالفت اور حکمراں جماعت کا اپنے فیصلہ پر اٹل رہنا یا اپوزیشن کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ماضی میں کئی مرتبہ ایوان بالا (راجیہ سبھا ) اور ایوانِ زیریں (لوک سبھا) کاکئی گھنٹوں و دنوں کا وقت ضائع ہوا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہوتا رہے گا ۔ پارلیمنٹ کے سیشنں کے مقاصد عوام کی فلاح و بہود کیلئے نئی نئی اسکیمیں روشناس کرانا اور عوام کے مسائل پر بحث و مباحثہ وغیرہ ہے جبکہ ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے نئی اسکیموں کے تحت اہم بل پیش کئے جاتے ہیں اور اس کی منظوری کے لئے دونوں ایوانوں میں بحث و مباحثہ ہوتا ہے یا پھر کسی نزاعی کیفیت کے بغیر بعض بلز پاس بھی ہوجاتے ہیں ۔ حکومت کے بعض فیصلوں کو اپوزیشن قبول کرتی ہے اور بعض کے خلاف احتجاج بھی ہوتا ہے ۔ حکمراں جماعت کے متعلقہ وزراء بحث و مباحثہ کے دوران تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے دلائل پیش کرتے ہیں۔ ملک کی ترقی و خوشحالی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی برقراری کے لئے کئے گئے حکومت کے ناقص انتظامات یا کوتاہی پر اپوزیشن جماعتیں آواز اٹھاتے ہیں ۔ پارلیمنٹ ایک اہم اور باوقار ادارہ ہے جس کے دونوں ایوانوں کے نمائندوں کو دستور میں ردو بدل اور ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔ ہندوستانی پارلیمنٹ کے جملہ اراکین کی تعداد 795ہے جس میں راجیہ سبھا کے اراکین کی تعداد250اور لوک سبھا کے اراکین کی تعداد545ہے۔ موجودہ لوک سبھا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہے جبکہ راجیہ سبھا میں کانگریس کے اراکین کی اکثریت ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کو 2010کی ایک رپورٹ کے مطابق 50ہزار روپیے تنخواہ، 45ہزار روپیے انتخابی حلقہ الاؤنس اور آفس کے اخراجات کے لئے 45ہزار روپیے اس طرح ماہانہ جملہ ایک لاکھ چالیس ہزار روپیے ملتے ہیں اور سالانہ یہ رقم سولہ لاکھ اسی ہزار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سیشن کے دوران ہر روز دو ہزار روپیے الاؤنس دیاجاتا ہے۔ رکن پارلیمنٹ کو ہر سال 50ہزار یونٹس الکٹرسٹی مفت فراہم کی جاتی ہے ، ٹیلی فون کالس ، پانی ، گھر کا کرایہ، ہوائی جہاز کا سفر اور کئی ایک سہولتیں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ ان سب کے باوجود ہندوستانی اراکین پارلیمنٹ کی ماہانہ تنخواہ دوسرے بعض ممالک سامنے کم ہے ۔ یعنی امریکی رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ دو لاکھ سے زائد ہے ، کینیڈاکے اراکان کی تنخواہ دیڑھ لاکھ ، جرمنی، اسٹریلیا، برطانیہ، نیوزی لینڈ فرانس اور سوڈان کے اراکین کی تنخواہ ہندوستانی رکن پارلیمنٹ سے بڑھ کر ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ہندوستانی اراکین پارلیمنٹ اپنی تنخواہ کے اس فیصد کو مدّنظر رکھ کر اپنا قیمتی وقت پارلیمنٹ میں ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے صرف کرنے کے بجائے احتجاجی پروگرامس ترتیب دے کر عوام کو یہ بتانا چاہتے ہونگے کہ وہ حکمراں جماعت کے فیصلوں پارلیمنٹ میں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر اپوزیشن کے بے حد اصرار کے باوجود حکومت اپنے فیصلے پر اٹل رہتی ہے تو اپوزیشن دوسرے مسائل پر توجہ دیں ۔ للت مودی کے مسئلہ سے ملک کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے اس لئے اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کے وقت کو برباد کرنے کے بجائے حکمراں کے ساتھ مل کر کوئی ٹھوس فیصلے عوام کے مفاد میں کریں اور اسی سے ملک کی ترقی و خوشحالی ہوسکتی ہے۔

«
»

کیا حق ہے ہمیں آزادی منانے کا

بیٹی‘ اپنی اور پرائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے