پیرس میں جمع ہونے والے عالمی راہنما

ایشیااورافریقہ کے عوام تو ویسے ہی پست ترین معیارزندگی کے حامل ہیں جب کہ یورپ جیسی جنت ارضی میں بھی خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے،جس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ وہاں کے لوگ کس کس طرح کے ذہنی دباؤ کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یہ عالمی قیادت کبھی تویہ بھی سوچتی کہ محض پیٹ کی خواہش اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کو ہی پوراکرناانسانیت کی بقاکے لیے کافی نہہں ہیں،’’انسانیت‘‘ کے تقاضے کچھ اس سے بالا تر مزید بھی ہیں۔اپنے باشندوں کے قتل پر غم و غصے کااظہاریااپنی مملکت اور اپنے جغرافیائی خطے کے ہی امن و دفاع کے بارے میں فکر مند رہناہی تو عالمی راہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے،’’انسانیت‘‘کی فکر اپنے خطے سے باہر نکل بھی دامن گیر ہونی چاہیے کہ دنیاکے دیگرعلاقوں میں بھی ’’انسان‘‘ہی بستے ہیں۔پوری دنیاکے ذرائع ابلاغ چینخ چینخ کراس جمع ہونے والی قیادت کو’’ عالمی راہنما‘‘ہونے کا طعنہ دیتے چلے جارہے ہیں لیکن یہ کیسے ’’عالمی راہنما‘‘ہیں جن کی فکرمندی اپنی قوم یا اپنے ملک سے باہر نکل ہی نہیں پاتی۔
جن ملکوں کے سربراہ فرانس میں ہونے والے اس مظاہرے کی قیادت میں موجود تھے ان میں سے بیشتر بڑے بڑے ملکوں کے مالیاتی ادارے پوری دنیاسے انسانوں کی گردنوں پرسودکی لعنت کو مسلط کرکے توان کے جسم سے خون کاآخری قطرہ تک نچوڑنے کی فکر میں غلطاں ہوئے چلے جارہے ہیں۔سال میں کئی کئی مرتبہ ان اداروں کے سربراہ سرجوڑ جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور خوب غوروفکر کرتے ہیں کہ دنیابھرسے کس کس طرح دولت کو کھینچ کھینچ کر اپنے ملکوں میں لائی جائے ،کہیں تو آلودگی کے نام پر دوسروں کو مشورے دیتے ہیں کہ کارخانے مت لگاؤ تاکہ انہیں کے ملکوں کی ساختہ اشیاء فروخت ہوں اوردوسری اقوام ہمیشہ انہیں کے دست نگر رہیں اور کہیں ’’چائلڈ لیبر‘‘کے نام پر دوسرے ملکوں کے بچوں سے خوب خوب پیار بگھارتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو تعلیم حاصل کرنا چاہیے اور انہیں محنت و مشقت سے دوررہناچاہیے تاکہ بچوں کے ذریعے سے جو سستی لیبر میسر آتی ہے اور اس سستی لیبر کے باعث دوسرے ملکوں کے کارخانوں میں سستی اشیا بن پاتی ہیں،وہ نہ بن پائیں اور معاشی جنگ میں ’’عالمی راہنماؤں‘‘کی معیشیت جیت جائے۔کبھی ’’حقوق نسواں‘‘کے نام پرپرسکون معاشروں میں خاندانی نظام کے درپے ہوجاتے ہیں تو کہیں جمہوریت کے عنوان سے قوموں میں غداروں کی تلاش شروع کر دی جاتی ہے ،معاشی جنگ کے ان ہتھیاروں سے تیسری دنیاکی قبا چھلنی چھلنی ہو چکی ہے لیکن ابھی بھی ’’عالمی قیادت‘‘کے پروردہ عالمی ساہوکاروں کی حرص و ہوس کے پیمانے لبریزنہیں ہوئے۔کیا بارہ افراد کے قتل کے خلاف پیرس میں اکٹھے ہونے والے ’’عالمی راہنما‘‘کبھی انسانیت کے اس درد کو بانٹنے کے لیے بھی اکٹھے ہو سکیں گے؟؟؟
پیرس میں جمع ہونے والے ’’عالمی راہنماؤں‘‘کے بڑے بڑے ملکوں کی خفیہ اداروں نے اس وقت دنیامیں قتل و غارت گری کابازارگرم کررکھاہے اس کے نتیجے میںآج دریاؤں میں پانی کی بجائے انسانی خون بہتاچلاجارہاہے۔صہیونی انگلیوں پر ناچنے والے ان خفیہ ادروں نے بڑی چابکدستی سے دوسری جنگ عظیم کے بعدسے یورپ میں رکنے والی خون کی ہولی کو ایشیااورافریقہ میں منتقل کردیا۔ایک زمانے تک ان ملکوں کے خفیہ اداروں نے سرد جنگ کے نام پراقتدارکی کھینچاتانی سے دیگرریاستوں کو اندر سے کھوکھلا کیا،دنیابھرمیں اسلحے کی دوڑ شروع کی،خودآتشیں ہتھیاروں کے ڈھیرکے ڈھیرلگائے اور سیٹی بجاکر ملکوں کولڑایااور امن عالم کے عنوان سے جدیدترین اور تباہ کن ہتھیاروں کی منڈیاں لگائیں۔اپنے ملکی مفادات کے لیے دوسرے ملکوں میں دھماکے کرانا اور ان دھماکوں میں بہنے والے انسانی خون کی قیمت سے سیاسی و معاشی مفادات حاصل کرناان اداروں کی ریت بنتاچلا گیااور نوبت یہاں تک پہنچی کی کسی ایک فرد کو راستے سے ہٹانے کے لیے پورے کے پورے ہوائی جہازکو نشانہ بناکر معصوم شہریوں اور عازم سفر مسافروں کوفضامیں ہی خون میں لت پت سمندرکی بے رحم موجوں کے سپرد کر دیاجاتا۔ان خفیہ اداروں کی باہمی کشمکش سے اب تیسری دنیاکے ملکوں کی حکومتیں بھی خوف کھانے لگی ہیں اور خفیہ اداروں سے فارغ ہونے والے اہل کاروں نے اپنی خود نوشت میں ایسے ایسے خوفناک راز فاش کیے ہیں الامان والحفیظ۔پیرس میں مظاہرہ کرنے والے ’’عالمی راہنما‘‘کبھی اپنے ملکوں کے ان خفیہ اداروں سے انسانیت کو بچانے کے لیے بھی اکٹھے ہو سکیں گے؟؟؟
پیرس میں بارہ افرادکے قتل پرمظاہرہ کرنے والے لاکھوں انسانوں کی قیادت کرنے والے ’’عالمی راہنماؤں‘‘میں سے کتنوں کے ہی ملکوں نے تعلیم کو ایک تجارتی معاملہ بنالیاہواہے اور پوری دنیاسے الحاق کے نام پر بڑی بڑی رقومات بٹورنے والے ان ملکوں کے تعلیمی ادارے کس کس طرح سے محض اپنے علاقائی و تہذیبی تفوق کی بنیادپرتعلیمی اسنادجیسی قیمتی متاع کوچندبے حقیقت سکوں کے عوض فروخت کرتے چلے جا رہے ہیں۔کیایہ انسانی اقدار کی تضحیک نہیں ہے کہ استاداور شاگردکے مقدس تعلق کوکاروباری اور تجارتی تعلق میں تبدیل کر دیاجائے ؟؟اورتعلیم کے نام پر خدا ناآشنائی کو عام کرنا اور مخلوط تعلیم کے رواج سے نوجوانوں کو اخلاق باختہ کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟؟تخلیق آدم علیہ السلام کے بعدسب سے پہلا کردار جو اﷲتعالی نے اپنے لیے پسند کیاوہ استادکاکردارتھاجب کہ پیرس میں مظاہرہ کرنے والے متعددملکوں کے سربراہان اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے اس مقدس شیوہ تعلیم کے ساتھ جو بدترین سلوک کیاہے اس سے انسانیت کی کل تاریخ خالی ہے۔دوسرے ملکوں پرتعلیم کے نام پر اپنی تہذیب مسلط کرنااور انہیں ان کے مقامی شعائرسے بدظن کر کے اپنا ذہنی غلام بنالینا بدترین قسم کی علمی خیانت ہے۔کہانی اس سے بھی آگے بڑھتی ہے اور پوری دنیامیں اگر کہیں مقابلۃََمذہب،تہذیب،تمدن یامقامی روایات کی تعلیم کے ادارے بغیر کسی معاوضے کے اپنی نسلوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کررہے ہیں تو ایک طویل منصوبہ بندی کے تحت انہیں ختم کرانا بدنیتی کی انتہاہے۔اور صرف تعلیم ہی نہیں خوراک سے لے کر علاج تک انسانی مجبوری کے کل عوامل جن سے حیات انسانی کی بالیدگی یا نسل انسانی کی بقا منسلک ہے اسے کاروبار تجارت کا درجہ دے کر انسانوں پر ظلم عظیم کیاگیاہے۔کیا پیرس میں ساٹھ سے زائد ملکوں کے راہنماکبھی انسانیت کے ان غموں کے مداواکے لیے بھی اکٹھے ہو سکیں گے اور ان کا بھی کوئی حل تجویز کر سکیں گے یا ان حالات کے ذمہ داران کے خلاف بھی دائرہ تنگ کر سکیں گے؟؟
آگ کی آنکھیں نہیں ہوتیں،جب پھیلتی ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتی کہ جس نے میراآغاز کیاتھا میں اسے کچھ نقصان نہ پہنچاؤں۔سیکولرازم نے دنیا بھر میں جس خود غرضی،شقاوت اور قتل و غارت گری کی آگ لگائی ہے اب وہ آگ خود اس کے اپنے گھرکو جلایا چاہتی ہے۔نیٹوکی فوجیں پوری دنیامیں دندناتی پھرتی ہیں،باراتوں اور جنازوں پر اورشہری آبادیوں پر بمباری کرنے والی لاکھوں افراد کی قاتل ان افواج کے ملکوں کی قیادت کواب یہ بات سوچنی چاہیے کہ صرف اپنے باشندوں کے لیے نہیں باقی دنیا کے انسانوں کو بھی اپنے ظلم سے بچانے کے لیے اکٹھے ہوں اور صرف اپنے ملکوں اور صرف اپنے جغرافیائی خطوں سے ہی نہیں باقی دنیاؤں سے بھی ’’انسانیت‘‘کے تعلق کو قائم کرنے کے لیے جمع ہوں۔اقوام متحدہ ،عالمی عدالت انصاف اور ان جیسے دیگر بین الاقوامی اداروں میں بھی بیٹھ کر اگر صرف اپنے مفادات کا ہی تحفظ کرنا ہے توپھردنیاکو بہت دیرتک بے وقوف بناناممکن نہیں ہوگا۔تین سوسالوں سے زیادہ عرصہ تک انسانی اجتماعی اداروں سے مذہب کو بے دخل کرنے والا سیکولرازم آج تاریخ کی دہلیز پر اپنے ننگ انسانیت کارناموں کے باعث تن تنہا کھڑااپنی بے بسی کا رونا رو رہا ہے۔ان عالمی راہنماؤں کا احتجاج خود اپنی ناکامی کا اعتراف ہے ،دنیابھرکے طاقتورترین افرادکاسڑکوں پر نکل کرعوام کے ساتھ پیدل چلناچہ معنی دارد؟؟۔وہ لوگ جن کے دستخطوں سے قوموں کی تقدیرکا تعین ہوتاہے اور جن کے فیصلے تاریخ کا دھاراموڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں آج کیا وہ اتنے بے بس ہو چکے ہیں عام عوام کے ساتھ شاہراہوں پرنعرے لگارہے ہیں؟؟آخروہ اپنا احتجاج کسے دکھانا چاہتے ہیں؟؟کیاوہ سیکولرازم کو پس پشت ڈال کر خدائے واحد کی قدرت کاملہ کو اپنے دل سے مان چکے ہیں؟؟کیونکہ اس وقت زمین کے سینے پر ان سے برتر قوت تو رب ذولجلال کی ہی ہے۔وہ مانیں یا نہ مانیں حقیقت وہی ہے جس کی تعلیم کل انبیاء علیھم السلام نے دی ہے انسانیت کی بھلائی صرف اور صرف آفاقی صحیفوں کے عطاکردہ نظام میں ہی مضمرہے۔

«
»

مر اعشق بھی کہانی ،تر ا حسن بھی فسانہ

پیرس حملہ : امن عالم کے لئے ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے