اس کارٹون کی اشاعت کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں نے احتجاج کیا اور مجرموں کے خلاف کارروائی کی مانگ کی لیکن ہمیشہ کی طرح نا نہاد اظہار رائے کی آزادی کا راگ الاپنے والوں نے بڑی حقارت سے مسلمانوں کے اس مطالبہ کو ٹھکرا دیا ۔دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کے ثنا خوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمان اپنے نبی ﷺ کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ۔دنیا اس کا متعدد بار مشاہدہ کر چکی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم و ستم کو برداشت کیا ہے اور اگر کبھی کہیں اس پر احتجاج بھی کیا تو اس میں وہ شدت نہیں ہوتی ،لیکن جب معاملہ اس کے ایمان کا ہوتا ہے تو وہ خود پر قابو نہیں رکھ پاتا کیوں کہ اس کے پاس بس یہی دولت تو ہے جس پر ہر مسلمان خود پر فخر کرتا ہوا ملے گا۔اور ایمان مشروط ہے نبی ﷺ کی محبت سے ۔اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ غیر مسلم دانشور کہتے ہیں کہ دنیا کے سارے مذاہب اور ان کے پیشواؤں پر تنقید ہوتی ہے تو پھر نبی ﷺ پر کیوں نہیں ؟اس کے کئی جواب ہیں اس میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا میں کوئی اگر مذہبی پیشوا پر تنقید کرتا ہو تو کرتا ہو لیکن ہمیں اسلام نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے ۔اس کے علاوہ دوسرا جواب یہ ہے کہ نبی ﷺ کی شخصیت تاریخی ہے افسانوی نہیں ۔نہ ہی اسلام کوئی افسانوی مذہب ہے اور نہ ہی اس کے لئے اپنی جانوں کو لڑا دینے والے اور دنیا کو تاریکی سے روشنی کی طرف لے جانے والوں میں سے کوئی کردار دیو مالائی یا افسانوی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسلا م مسلمانوں یا نبی ﷺ کے خلاف جو بھی دریدہ دہنی کرتا ہے وہ صرف تعصب اور تنگ نظری کی بنا ء پر ہی کرتا ہے ۔لیکن جب وہ اسلام کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ دل سے اس کا قائل ہوجاتا ہے ۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن وہ نبیﷺ اور شعائر اسلام کے خلاف کسی بھی طرح کی گستاخی کو قطعی برداشت نہیں کرسکتا ۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا پیرس میں چارلی ہیبڈو نام کے میگزین پر ہونے والا حملہ کس نوعیت کا ہے؟اس کو کیا دہشت گردانہ حملہ قرار دیا جائے؟لیکن مسلمانوں کے جذبات یہ ہیں کہ پہلے جس نے اس حملے کے لئے جواز فراہم کیا وہ حقیقی دہشت گرد ہے ۔جب تک حقیقی دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا ئے گا ۔اس کے رد عمل میں اس طرح کے واقعات کو بھی روک پانا ناممکن ہے ۔عام لوگوں سے الگ ہٹ کر روشن خیال لوگوں میں میں ایک مسلم صحافی کے خیالات کو یہاں بیان کرتا ہوں اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں نبیﷺ کی ذات عالی کی کیا اہمیت ہے؟مذکورہ صحافی لکھتے ہیں’’ان لوگوں کی جرات کو سلام جنہوں نے ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو اچھا سبق سکھایا ہے‘‘۔لہٰذا دنیا میں شرارت پسند عناصر جس میں یہود سر فہرست ہیں انہیں قابو میں رکھنا دنیا کی ذمہ داری ہے وہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے امن عالم کو خطرہ ہو ۔دنیا میں امن صرف مسلمانوں کی شرائط پر ہی قائم ہوں گے لیکن وہ کوئی ایسی شرط نہیں ہے جسے دنیا کو قبول کرنے میں کوئی قباحت ہو ۔اس میں اول تو یہ ہے کہ اسلام اورپیغمبر اسلام نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کو بلا تاخیر ختم کیا جائے اور ظلم و جبر کو ختم کیا جائے ۔بس یہ دو آسان سی شرط ہے جس سے دنیا میں پائیدار امن ممکن ہے ۔لیکن کچھ لوگ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش میں مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور حکومتیں بھی ان کی حمایت کرتی ہیں نیز انہیں اپنے یہاں پناہ بھی فراہم کیا جاتا ہے ۔
اقوام متحدہ جس کا کردار قیام امن کی کوششوں میں جمود کا شکار ہے اور صہیونیت کے پروردہ سوپر پاور کی رکھیل کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرچکا ہے ۔اس کے لئے اب بھی وقت ہے کہ وہ اقوام متحدہ سے پوری دنیا میں اینٹی ڈیفیمیشن لاء کو منظور کر کے اس کا سختی کے ساتھ نفاذ کرائے ۔مسلمانوں کا صرف یہ ہی مطالبہ نہیں ہے کہ صرف نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف ہی کارروائی ہو بلکہ مسلمان یہ چاہتا ہے سبھی مذاہب اور اس کے قائد و رہنما کے خلاف ہر طرح کی گستاخی کو خلاف قانون قرار دیا جائے ۔ جب تک بین الاقوامی طور پر ایسا قانون نہیں بن جاتا تب تک دنیا کو حقیقی امن نصیب نہیں ہوگا ۔صرف یہ کہہ دینے سے کہ ’’ہم فرانس کے ساتھ ہیں اور اس طرح کے حملے سے پریس کی آزادی کو ختم نہیں کرسکتے ‘‘۔ٹھیک ہے لیکن پریس کو بھی اپنی حد میں رہنا چاہئے ۔اسے یہ پتہ ہونا چاہئے کہ انسانوں کی آزادی کی حد ہوتی ہے اس کی آزادی غیر محدود نہیں ہوتی ۔انسانوں کی دنیا ہے یہاں انسانوں کی طرح رہنا پہلی شرط ہے ۔جنگل کے بھی کچھ اصول اور قانون ہوتے ہیں جسے جنگلی جانور عمل کرنے کے مجبور ہوتے ہیں ۔لیکن یہ آج کا انسان اس نے ہر حد پھلانگنے کی گویا قسم کھا رکھی ہے ۔وہ اپنی نام نہاد فرد اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اپنے ہی ہم جنسوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ نارمل رہے ۔آخر میں پھر وہی بات دہرانا ضروری ہے کہ ’’دنیا میں امن صرف مسلمانوں کی شرائط پر ہی ممکن ہے‘‘۔
جواب دیں