پپو پاس ہو گیا اور فیکو فیل ہو گیا

ہندوستانی سیاست کا شاید ہی کوئی ایسا طالب علم ہو جو پپو اور فیکو کو نہیں جانتا ہو۔ راہل گاندھی کی حالیہ تقریر کے بعد اس کہانی میں ایک نیا موڑ ا گیا۔ اس موڑ کو سمجھنے کیلئے پہلے کہانی سن لیجیے۔ پپو اور فیکو ایک ساتھ اسکول میں داخل ہوئے۔انتظامیہ کے سامنے سوال تھا کہ کسے مانیٹر بنایا جائے؟ وہ ان دونوں کو کھیل کے میدان میں لے آیا۔ یہاں پر فیکو نے خوب قلابازیاں دکھائیں پپو سے وہ کرتب نہ ہو سکے اس طرح فیکو مانیٹر بنا دیا گیا۔ اس کے بعدجب پڑھائی شروع ہوئی تو فیکو کا دل کلاس میں نہیں لگتا تھا وہ کبھی لٹوّ گھما رہا ہوتا تو کبھی کنچیاں کھیلتا نظر ا?تا۔ کبھی گلی ڈنڈا لیکر کسی جانب نکل پڑتا تو کبھی کبڈی کے میدان میں شور مچاتا۔ اس طرح دیکھتے دیکھتے ایک سال گزر گیا۔ امتحان قریب آئے تو پپو غائب ہو گیا۔ فیکو نے سوچا میدان صاف ہے لیکن امتحان والے دن پپو اچانک نمودار ہوگیا اور اس نے پیپر میں کچھ ایسے گل کھلائے کہ فیکو بیچارہ دیکھتا کا دیکھتارہ گیا۔ اس طرح پپو پاس اور فیکو فیل ہوگیا۔ 
وزیراعظم نریندر مودی نے گجرات میں کیا کچھ کارنامے انجام دئیے اس کے بارے میں جو بھی جھوٹ اور سچ اخبارات میں چھپتا رہا ہے اس میں ان کی ایوان اسمبلی کی کسی کارکردگی کا کوئی ذکر نہیں ملتا سوائے شاہ اور کندنانی کے وزیر بنانے اور ہٹانے کے۔ مایاکندنانی کے خلاف نرودہ پاٹیہ کے فسادات میں عملاً ملوث ہونے کیسنگین الزامات تھے۔ اس کے باوجود اقتدار کے نشے میں چور نریندر مودی نے عورتوان اور بچوں کی اس قاتل کو وزیر برائے بہبودطفل و خواتین بنادیا۔ بعد میں جب عدالت کی پھٹکار پڑی تو اسے ہٹانا پڑا۔ یہی حال امیت شاہ کا تھا کہ سہراب الدین کے قتل میں ملوث ہونے کے باوجود اور ہفتہ وصولی کے سنگین الزامات کے بعدانہیں وزیرداخلہ بنائے رکھا گیا لیکن جب عدالت نے گجرات سے تڑی پار کیا تو مجبوراً ہٹانا پڑا۔
ان دو کارناموں کے علی الرغم ایک ڈکٹیٹر کی مانند لوہے کی چھڑی ہاتھ میں لے کر انہوں نے بارہ سال حکومت کی۔ دہلی میں ا?نے کے بعد ایوان پارلیمان میں انہوں نہ کوئی معقول تجویز پیش کی اور نہ اچھی تقریر کی بلکہ گھر واپسی کے بعد جب وزیراعظم کی ایوان میں واپسی کا شور بلند ہوا تو بادلِ ناخواستہ اجلاس میں تشریف لائے۔ اس دوران عوام نے انہیں اکثرو بیشتر ناچنے گانے والوں کے ساتھ اچھلتے کودتے ہی دیکھا۔ اندرونِ ملک مودی جی نے صرف ان ریاستوں کا دورہ کیا جہاں انتخابات ہونے تھے۔ ایک ا?دھ بار اپنے حلقہ? انتخاب سے بھی ہو آئے باقی وقت بیرونِ ملک سیروسیاحت میں صرف ہوا۔ گزشتہ سرکار کے تیارکردہ معاہدوں پر دستخط کرنا اور اس پر لعن طعن کرنا یہ مودی جی کاپسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ 
ایوان پارلیمان کے بجٹ اجلاس کے دوسرے حصے سے قبل جب کانگریس نے کسان ریلی کا اعلان کیا اور راہل نے واپسی کے بعد کسانوں سے ملاقات کی تو اچانک مودی جی کو پیر کے نیچے سے ریت کے کھسکنے کا احساس ہوااور انہوں نے ارکان پارلیمان کیلئے ایک تربیتی اجتماع کا اہتمام فرمایا۔ مودی جی ان کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ یہ امیروں کی نہیں بلکہ غریبوں کی سرکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ غریبوں کی سرکار ہے تو حکومت میں شامل ارکان کو یہ بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ان کو یہ تو نہیں بتانا پڑتا کہ یہ این ڈی اے کی سرکار ہے اس لئے کہ وہ سب اس اظہر من الشمس حقیقت سے واقف ہیں اسی طرح وہ اس بات سے کیوں واقف نہیں ہیں کہ یہ سرکار کس کی ہے اور کس کی نہیں ہے؟ عوام کو کسی نے نہیں بتایا کہ یہ کارپوریٹ کی سرکار ہے لیکن انہیں پتہ چل گیا اس لئے کہ بقول غالب? 
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل… جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
مودی جی نے ارکان پارلیمان کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ عوام کے پاس جاکر حکومت کے کارنامے بیان کریں۔ سرکار ان کی فلاح و بہبود کیلئے جو کچھ کررہی ہے اس کا انہیں پتہ نہیں چل رہا ہے۔ یہ عجیب احمقانہ منطق ہے مثلاً کیا یہ ممکن ہے کہ لوگ دھوپ میں کھڑے ہیں کوئی ان کے سرپرسائبان باندھ دے اور اسے معلوم نہ ہو۔ ہاں اگر آپ سائبان کو باندھے بغیر ان کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اب وہ دھوپ میں نہیں سائے میں ہیں تو یہ مشکل کام ہے۔ اس لئے مودی جی کو چاہیے کہ وہ زعفرانی رنگ کا سہی مگرسائبان تو کھڑا کریں عوام کوخود ہی پتہ چل جائیگا ورنہ اگر ارکان پارلیمان ان کی نصیحت پر عمل کریں گے تو لوگ انہیں پاگل خانے میں لے جاکر جمع کردیں گے۔ مودی جی نے اس اجلاس میں یہ بھی کہہ دیا کہ ملک کیلئے ایک طاقتور حزب اختلاف ضروری ہے۔ چونکہ ان کا ابھی تک گجرات یا دہلی میں طاقتور حزب اختلاف سے پالا نہیں پڑا اس لئے وہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ امید ہے راہل گاندھی کی حالیہ تقریر اور تحویل اراضی بل کے بار بار ناکام ہو جانے سے انہیں اندازہ ہو جائیگا۔ 
اس بار کانگریس نے پارلیمانی اجلاس سے قبل دہلی کے رام لیلا میدان میں کسان ریلی کا اہتما م کیا۔ اس ریلی میں تقریباً پچاس ہزار کسانوں کو دیکھ کر منموہن سنگھ خوش ہوگئے اور انہوں نے وہاں موجود کسانوں کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔ دہلی کے اندرنہ کھیت بچیہیں اور نہ کسان چہار جانب کانکریٹ کا ایک جنگل آباد ہے۔ دہلی کے آس پاس تمام ریاستوں میں غیر کانگریسی حکومتیں ہیں اس لئے اس ریلی کے حوالے سے بڑی مایوسی کا اظہار کیا جارہا تھا لیکن بھلا ہو مودی جی کی کسان دشمن پالیسیوں کا جو اتنی بڑی تعداد میں کسانوں کو اس ریلی میں لے ا?ئی۔ انتخاب سے قبل جس طرح کانگریس سے بیزار لوگ بی جے پی کے جلسوں میں ا?تے تھے اب کانگریس کے جلسوں میں آنے لگے ہیں۔ عوام کا بھلا کوئی نہیں کرتا لیکن ان کو اہل اقتدار سے توقع ہوتی ہے اور جب وہ پوری نہیں ہوتی تو وہ دوسری جانب نکل جاتے ہیں۔ اس طرح گویا یہ سیاستداں نادانستہ طور پر ایک دوسرے کا بھلا کرتے ہیں عوام تو یونہی دونوں سروں کے درمیان پنڈولم کی مانند جھکولے کھاتے رہتے ہیں۔ 
پارلیمانی اجلاس کی ابتداء4 میں کانگریسیوں نے سونیا گاندھی کے خلاف گری راج سنگھ کے بیان پر اعتراض کیا۔ بی جے پی غالباً اس کیلئے تیار ہو کر ا?ئی تھی اس لئے اس نے فوراً گری راج سنگھ سے معافی مانگنے کیلئے کہہ دیا لیکن کانگریسی نہیں مانے ان کا کہنا تھا چونکہ گری راج سنگھ وزیر ہیں اور وزیراعظم حکومت کے سربراہ ہیں اسلئیانہیں اپنا موقف واضح کرکیمعذرت طلب کرنی چاہیے۔ بی جے پی اس کیلئے تیار نہیں تھی اس لئے کانگریسی ایوان سے باہر نکل ا?ئیاور اجلاس عارضی طور پرمعطل کردیاگیا۔ اس کے بعد جب واپسی ہوئی تو راہل گاندھی نے حزب اختلاف کے رہنما کی حیثیت سے۶۱ ویں لوک سبھا میں اپنا پہلا خطاب پیش کیا اور ۵۱ منٹ کے اندر بازی الٹ دی۔ 
راہل نے جب اپنی تقریر کی ابتداء4 انگریزی میں کی تو حکمراں جماعت کی میزوں سے شور بلند ہوا ہندی میں۔ راہل نے برجستہ جواب دیا فکر نہ کریں ہندی میں بھی بولوں گا۔ اس کے بعد راہل ہندی میں آئے۔ انہوں نے جب بار بار کہا ا?پ کے وزیراعظم تو اعتراض کیا گیا وہ دیش کے وزیراعظم ہیں اس وقت بھی راہل نے رک کر کہا ہاں ہاں دیش کے وزیراعظم۔ اگر آپ انہیں اپنا وزیراعظم نہیں سمجھتے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ راہل گاندھی سے اس طرح کی برجستگی کو توقع بی جے پی والے تو کجا کانگریس بھی نہیں کررہی تھی۔ اس کے بعد جب راہل نے مودی جی کے مہنگے کوٹ کا ذکر کیا تو پھر ہنگامہ ہو گیا اس پر راہل نے مسکرا کر کہا جی ہاں چونکہ آپ لوگ اسے نیلام کرچکے ہیں میں اس کا ذکر نہیں کروں گا۔ اب خوش۔ مودی جی بہت اچھے خطیب ضرورہیں لیکن اس طرح کی 
حاضر جوابی کا مظاہرہ وہ ابھی تک تو نہیں کرسکے ا?گے کیا ہوگا کون جانے؟
راہل گاندھی کی تقریر میں ’’یہ سوٹ بوٹ والی سرکار ہے‘‘ والا فقرہ ضرب المثل بن گیا اوراسے’’ اچھے دن‘‘ کی مانند یاد رکھا جائیگا۔ راجیو گاندھی نے بی جے پی پر الزام لگایا کہ اس نے انتخاب جیتنے کیلئے جن صنعتکاروں سے رقم لی تھی اب اس کی بھرپائی کررہی ہے۔ وہ ان کی خوشنودی کیلئے کسانوں کی زمین چھین لینا چاہتی ہے۔ راہل گاندھی نے اس معاملے میں ماہرین زراعت ،وزارت زراعت اور مودی جی کے ذریعہ پیش کردہ اعدادوشمار کے درمیان پائے جانے والے تفاوت کا ذکر کیا اور پوچھا کہ ا?خر کون جھوٹ بول رہا ہے؟ راہل گاندھی نے مودی جی سے سوال کیا کہ وہ خود کسانوں سے بات کیوں نہیں کرتے؟ اس پر حزب اختلاف کی جانب سے شور بلند ہوا وزیراعظم کو غیر ملکی دوروں سے فرصت کہاں ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب حزب اقتدار کے پاس نہیں تھا۔ 
راہل گاندھی کی تقریر اپنے شباب پر اس وقت پہنچی جب مرکزی وزیر نتن گڑکری کی تعریف کرتے ہوئے وہ بولے اس سرکار میں نتن جی واحد ا?دمی ہیں جو دل کی بات کہتے ہیں۔ اس فقرے میں مودی جی ماہانہ نشر ہونے والی من کی بات پر طنز چھپا تھا۔۔ اس کے بعد راہل نے گڑ کری کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے یہ کہا کہ کسانوں کی مدد کوئی نہیں کرسکتا نہ بھگوان اور نہ سرکار۔ راہل نے کہا اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کسانوں کی بابت کس قدر غیر حساس ہے۔اس طرح گویا انہوں نے زعفرانی ڈنڈے سے حکومت دھنائی کردی۔ نتن گڑ کری کے اس بیان کا بین ثبوت خود ان کی اپنی ریاست مہاراشٹر کے اندر بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد گزشتہ تین ماہ میں ۶۰۱ کسانوں کی خودکشی ہے۔ اس پر مدھیہ پردیش میں بی جے پی وزیر وجئے ورگیا کا بیان کہ کسان فصل کی تباہی کے سبب نہیں بلکہ اپنے نجی مسائل کی وجہ سے خودکشی کررہے ہیں کسانوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ 
ایسا نہیں ہے کسان ناراض ہیں اور کارپوریٹ خوش ہے بلکہ وہاں بھی حکومت کے تئیں شدید بے چینی پائی جاتی۔ اس کا ایک ثبوت تو بجٹ اجلاس کے پہلے ہی دن سنسکس کا ۶۵۵ پوائنٹس نیچے گرنا ہے جو گزشتہ چار سیشنس میں ۰۶۱۱ پوائنٹس گرا ہے۔ یہ گراوٹ سرمایہ کاروں کے عدم اطمینان کی واضح علامت ہے۔ اس پر رتن ٹاٹا کا بیان کہ صنعتکار اس حکومت سے اس قدر جلد مایوس نہ ہوں اور اسے کام کرنے کا مزید موقع دیں بلکہ اس کے ساتھ تعاون کریں۔ اس بیان میں ایک پیغام تو یہ ہے کہ ملک کا سرمایہ دار مایوس ہو رہا ہے ورنہ اس نصیحت کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ دوسرے سرمایہ داروں کو حکومت سے تعاون کی تلقین کرنا اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ فی الحال وہ ایسا نہیں کررہے ہیں۔ ایچ ڈی ایف سی کے سربراہ دیپک پاریکھ اور ماریکو کے ہرش ماریوالا بھی اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرچکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قدر جلدی مودی جی نے کارپوریٹ دنیا کو کیسے مایوس کردیا اور کیا وہ اداسی رتن ٹاٹا کی پندو نصائح سے دور ہوجائیگی یا اس کیلئے حکومت کو بھی کچھ کرنا ہوگا؟ 
مذکورہ بے اطمینانی کی کئی وجوہات ہیں اول تو مودی جی نے جوش خطابت میں صنعتکاروں کو کچھ زیادہ ہی سبز خواب دکھلا دئیے تھے نیزان کی نظر عنایت جس طرح اڈانی اورامبانی تک محدود ہے اس سے بھی دیگر لوگوں کی ناراضگی فطری ہے۔ اس پر ان کے وزراء4 کی نااہلی بھی گل کھلا رہی ہے جس کا ثبوت بجٹ سے قبل نئے انکم ٹیکس فارم کا پیش ہونا اور پھر اسے واپس لے لینا ہے۔وزیر خزانہ ارون جیٹلی اگر اس فارم کو جاری کرنے سے قبل ماہرین کو دکھلا دیتے تو ہزیمت سے بچ جاتے لیکن حکومت کرنے کا فن بی جے پی کو نہ پہلے کبھی ا?یا تھا اور شاید نہ آگے کبھی آئے۔
بی جے پی کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ راہل گاندھی کے مشورے پر سنجیدگی سے عمل کرے جو انہوں نے مودی جی کو دیا ہے۔ راہل نے کہا مودی جی اس قدر ما ہر سیاستداں ہیں اس کے باوجود وہ مٹھی بھر سرمایہ داروں کی دلجوئی کیلئے ۰۶ فیصد کسانوں اور مزدوروں کو نظرانداز کررہے ہیں۔ جب کسان ان کی جانب سے نظر پھیر لیں گے تو یہ سودہ ان کو مہنگا پڑے گا لیکن جو شخص خودپسندی کے مرض میں مبتلا ہو وہ بھلا کسی بات پر کب توجہ دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ دن بدن مودی جی کی حالت ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ‘‘کی سی ہو تی جارہی ہے۔ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ جس ملاح نے زعفرانی ناو? پار لگائی تھی وہی اس کو ڈبونے پر تلا ہوا ہے۔ 

راہل کی تقریر کا نزلہ مودی جی نے گری راج سنگھ پر اتارا اور انہیں کمرے میں بلا کر اس طرح پھٹکارہ کہ وہ رو پڑے۔ وینکیا نائیڈو نے راہل کی تقریر کو شیطان کے وعظ سے تعبیر کیا حالانکہ جب راہل سے اخبارنویسوں نے پوچھا کیا آپ کی جانب کھڑے کئے جانے والے سوالات کے جواب مل گئے تو ان کا کہنا تھا یہ حکومت مسائل کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اپنے اندر نہیں رکھتی۔ وینکیا نائیڈو نے یہ بھی کہا کہ کانگریس کسانوں کے مسائل پر صرف باتیں کرتی رہی ہے اسی لئے وہ حزب اختلاف میں ہے اورہم سرکار میں۔ نائیڈو کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی حکومت بھی کانگریس کے نقش قدم چل رہی ہے اس لئے ممکن ہے بہت جلد کانگریسیوں کو ان کا جملہ دوہرانے کا موقع مل جائے کیوں کہ کسانوں کی نہ بی جے پی سے رشتہ داری ہے اور نہ وہ کانگریس کے رشتے دار ہیں۔ 

«
»

سرکا بدلی مگر حالات نہیں بدلے!!

یمن کے ’’حوثی‘‘کون ہیں؟؟؟!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے