پنڈت جواہر لعل نہر و ا ور ہندوستان میں سائنسی پیش رفت

پنڈت نہرو کی خدمات جو انہوں نے ملک اور عالمی برادری کی فلاح وبہبود اورامن کی خاطر ہیں وہ یوں تو ایک زمانہ تک یاد رکھی جائیں گی۔ لیکن سائنسی بیناد پر نئے ہندوستان کی تعمیر کی جانب ان کوششوں اورکارناموں کو کبھی نہ بھلایا جاسکے گا۔ پنڈت نہرو کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ہندوستان آج سائنس اور ٹکنا لوجی کی ترقی کے اعتبار سے دنیا کے سات ملکوں میں سے ایک ہے اور سائنٹیفک اور ٹیکنکل مین پاور (Man Power) کے اعتبار سے نمبر تین پر گناجاتا ہے۔ 
۱۹۲۰ء کے بعد ہندوستان میں انگریزی سامراج نے سائنس اورٹیکنا لوجی کی جانب توجہ ضرور دی لیکن ایسا کرنے کا ان کا مقصد ہندوستانی عوام کو سائنس سے روشناس کرانا نہ تھابلکہ سائنس کی مدد سے اس ملک پر اپنے تسلط کی معیاد بڑھانا تھا چنانچہ اس دور میں عام ہندوستانی سائنس کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا تھا۔بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی جو سائنس کے تذکرہ کو غیر مذہبی عمل ہی نہیں بلکہ مذہب دشمنی تصور کرتے تھے۔ ۱۹۴۷ء میں جب ملک کوآزادی ملی اس وقت بھی کم وبیش سائنس کا یہ تصور عام ذہنوں میں موجود تھا۔ لیکن ہمارے ملک کا قائد یعنی وزیراعظم ایک ایسا انسان منتخب کیا گیا جوایک صاف ذہن ہی کامالک نہ تھا بلکہ سماج میں سائنسی رویہ اور رجحان کازبردست وکیل تھا۔ پنڈت نہرو کو یہ یقین کامل تھا کہ ہندوستان کواصل آزادی اسی وقت نصیب ہوگی اور غریبی ومفلسی سے اسی وقت نجات ملے گی جب سارا ملک نئے سائنسی رجحانات کوسمجھے گا۔ اورانہیں طرز زندگی میں اپنائے گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تقاریر اور تحریر کے ذریعہ اس امر پر زور دیا کہ عام ہندوستانی توہم پرستی سے باز آئے۔ فرسودہ رسم ورواج کوختم کردے اور اپنی فلاح کے لئے سائنس کااستعمال کرے وہ چاہتے تھے کہ سائنس ہمارے کلچر کا جز بن جائے۔ 
پنڈت جواہر لعل نہرو کی بیشتر تعلیم انگلینڈ میں ہوئی جہاں وہ ۱۹۰۴ء میں چودہ سال کی عمر میں (Harrowschool) میں داخل کئے گئے تھے۔ اسکول کی تعلیم ختم کرنے کے بعد انہوں نے کیمبرج یونی ورسٹی Trinity College میں داخلہ لیا۔ اور وہاں سے کیمسٹری بوٹینی اور جیالوجی میں Natural Sciene Tripos کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد گو کہ بارایٹ لا کیا لیکن ساری زندگی سائنس سے لگاؤ باقی رہا اور ان کے اس لگاؤ سے اس ملک کو بیش بہا فائدہ پہنچا مہاتما گاندھی نے ۱۹۱۶ء میں اپنی پہلی ملاقات میں نہروجی کی صلاحیتوں کو پہچان لیا تھا۔ اور ان کو ہندوستان کی نئی نسل کانمائندہ سمجھنے لگے تھے ان کی انہیں صلاحیتوں کے پیش نظر ۱۹۳۸ء میں جب سبھاش چندر بوس کانگریس کے صدر تھے تو نیشنل پلاننگ کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی نہرو جی کو اس کاچیئر مین بنایا گیا۔ اور ایک ایسی پالیسی کی بنیاد مرتب کی جس میں بڑی مشینوں کی اہمیت کو توضروری سمجھا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیہی صنعتوں کے فروغ پر زور دیا گیا ۲۹؍دسمبر ۱۹۳۹ء کو لکھے گئے ایک خط میں جوانہوں نے شانتی نکیشن کے ایک دوست کولکھا تھا۔ اس بات پر زور دیاکہ نئے سائنسی تقاضوں کی روشنی میں اور ہندوستان کے سماجی اور معاشی حالات کومد نظر رکھتے ہوئے چھوٹی اور بھاری صنعتوں کے درمیان ایک توازن قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔ 
آزادی ملنے کے بعد جب ۱۹۴۷ء میں پوری قوت وجود میں آئی تواس وقت غالباً دنیامیں پہلی بار Scientfic Research and Natural Resources کا شعبہ قائم ہوا۔ جس کو خود وزیر اعظم نہرو نے اپنے چارج میں رکھا تاکہ لوگوں کو سائنس کی اہمیت کا اندازہ ہو۔
۱۹۴۷ء میں ہی پنڈت نہرو ہندوستانی سائنس دانوں کی سب سے بڑی جماعت انڈین سائنس کانگریس کے بلا مقابلہ صدر منتخب کئے گئے اوراس وقت سے ہی ان کا یہ معمول بن گیا تھاکہ ہر سال جنوری کے مہینہ میں ہونے والی سائنس کانگریس میں شرکت ضرور کرتے خواہ یہ کانگریس ملک کے کسی بھی گوشہ میں ہورہی ہو۔
۱۹۴۸ء میں پنڈت نہرو کی ایماء سے ہی کاؤنسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی نئے سرے سے تشکیل کی گئی جس کے وہ آخری دم تک صدر رہے اور اپنے دور صدارت میں انہوں نے متعدد نئی تجربہ گاہیں ملک کے مختلف علاقوں میں قائم کرائیں۔ آزاد ہندوستان میں اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی گئی کہ ملک میں معاشی ترقی کی رفتار تیز ترکرنے کے لئے سائنٹیفک پلاننگ ہونی چاہئے لہٰذا ۱۹۵۰ء میں پلاننگ کمیشن وجود میں آیا جس کے چیئر مین خود وزیر اعظم ہوئے۔ ان کی قیادت میں بنائے گئے تین پنچ سالہ منصوبے ان کی سائنسی سوجھ بوجھ کے مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کے بھی ثبوت ہیں کہ وہ ہندوستان کی سماجی معاشی، سیاسی اور تاریخی پس منظر کا کتنا عمیق مطالعہ رکھتے تھے۔ دنیاکا شائد ہی کوئی مدیر ہوگا جس نے اپنے ملک کے سائنسی اور ثقافتی امور میں اس حد تک دلچسپی لی ہوگی جس حد تک پنڈت نہر نے اپنے دور اقتدارمیں دلچسپی لی تھی۔ ملک میں ایک متحرک سائنسی پالیسی کے وہ خالق تھے۔ ملک میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کی انہوں نے مختلف زاویوں سے کوشش کی ۔ لوک سبھا میں ۴؍مارچ ۱۹۵۸ء کو جو نیشنل سائنٹیفک ریزولیشن پیش کیا گیا وہ خود نہرو جی نے ہی پیش کیا تھا۔اس ریزولیشن کے ذریعہ ملک میں سائنس اور ٹیکنا لوجی کی ترقی کے لئے ایک نئی سمت عطا کی گئی پنڈت جی کی منشا سے ہی Indian Parua Mentary and scientific Committee بنائی گئی جس کے وہ PresidentI ہوئے۔ اس سے قبل ۱۹۴۷ء میں Scientific man power commitee قائم کی جا چکی تھی۔ یہ پنڈت نہروکی دور اندیشی اور بصیرت تھی کہ انہوں نے بہت سے نیو کلیئر توانائی کی ضرورت کو محسوس کر لیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ آنے والے برسوں میں جب پٹرول جیسا ایندھن نایاب ہوجائے گا تو اس توانائی اور طاقت کااستعمال نا گزیر ہوجائے کا۔ لہٰذا ۱۹۵۴ء میں Departmint of atomic energy قائم کیاگیا جس کی اہمیت اورافادیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس شعبہ کاچارج خود پنڈت نہرو نے اپنے پاس ہی رکھا۔ آج اس شعبہ سے متعلق اداروں کی سائنسی کامیابیاں ملک کے لئے باعث افتخار سمجھی جاتی ہیں۔
یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ پنڈت نہرو Association of scientific workers of India (ASWI) کے بانی صدر تھے۔ اوراسی لئے وہ ساری زندگی سائنسدانوں کی بہبودی کے لئے کام کرتے رہے ہندوستان اور بیرون ملک کے نہ جانے کتنے سائنسدانوں سے ان کے قریبی مراسم تھے۔ وہ ان سب کی بڑی عزت کرتے تھے اور اکثر ان سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے دل میں جو عزت سائنسدانوں کی تھی اس کی مثال ان کی ایک تقریرکے حوالہ سے دی جاسکتی ہے جو انہوں نے ۱۹۴۷ء میں نیشنل فیزیکل لیبوریٹری کی افتتاحی تقریب میں کی تھی انہوں نے فرمایا کہ ’’ماضی میں سائنس نے واقعی بڑی ترقی کی ہے۔ لیکن مستقبل میںیہ ترقی حیرت انگیز ہونے جارہی ہے اور اس لئے مجھے سائنس سے لگاؤ ہے۔ مجھ میں اگر ڈائریکٹر بننے کی قابلیت ہوتی تو میں اس ادارہ کا ڈائریکٹر بننا پسند کرتا نہ کہ وزیر اعظم ان کے خیالات واحساسات سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ پنڈت جی سائنس دانوں کی کتنی عزت کرتے تھے ۔
ملک کے کسی کونے میں بھی اگر سائنسی کانفرنس یا سائنسی ادارہ کی تقریب میں ان کو مدعو کیا جاتا تووہ حتی الامکان اس میں شرکت ضرور کرتے، لکھنؤ کے Birbal Sahni Ins.Titute of paleobotany کے قیام کے جلسہ میں ۱۹۴۹ء وہ بہ نفس نفیس شریک ہوئے اور انسٹی ٹیوٹ کے قیام پر اپنی مسرت کااظہار پر زور الفاظ میں کیا وہ اکثر سائنسی تحقیقی اداروں کو Temple of Leaing کہاکرتے تھے۔ ایسی جگہوں پر جہاں قدرت کے پوشیدہ عطیات پرتحقیق کی جاتی ہو اس کوعبادت گاہ کہنا واقعی ایک فلسفیانہ خیال ہے جو پنڈت نہرو کے نظریات کے عین مطابق ہے ۔ 
آزادی سے قبل لکھی گئی کتاب Discowery of India میں پنڈت نہرو نے ہندوستان کی بد حالی اورغریبی پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا تھا کہ ہندوستان کی غریبی اصل میں زراعت میں پیداوار کی کمی کی وجہ سے ہیم اس لئے آزادی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے زراعت میں نئے سائنسی طریقوں کو اپنانے پر زور دیا۔ انہیں کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک اناج میں خود کفیل ہے۔ اور سبز انقلاب سے ہمکنار ہے۔
پنڈت نہرو کی ذاتی دلچسپی کی بنا پر ملک میں کئی Indian Institute of Technology قائم کئے گئے جہاں کے انجینئروں نے ملک میں صنعتی انقلاب لانے میں بڑی مدد کی نہروجی نے یونی ورسٹیوں کی جانب بھی خاص توجہ فرمائی جہاں وہ چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ طلبا اورطالبات سائنس کی تعلیم حاصل کریں، علی گڑھ یونی ورسٹی میں سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم کے سلسلہ میں وہ خاص دلچسپی لیتے تھے اور اس میدان میں پیش رفت کے لئے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین کو حکومت کی جانب سے پورا تعاون دلواتے تھے۔ ۱۹۵۶ء میں علی گڑھ کے طلباء کو خطاب کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے وہاں کے سائنسی ماحول اور ترقی کی تعریف فرمائی تھی۔
پنڈت نہرو ان لوگوں میں نہ تھے جو صرف سائنس کے مثبت پہلو ہی دیکھتے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ سائنسی انقلاب کی وجہ سے قدریں بہت تیزی سے بدل رہی ہیں اوران قدروں پر بھی ضرب لگ رہی تھی جن کاباقی رہنا انسانیت کے لئے ضروری ہے۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ سائنسی بنیاد پر بدلتے دور میں کچھ مسائل بھی ابھر سکتے ہیں ۔انہوں ن ایک مضمون میں لکھاتھا جو Economic review میں شائع ہوا کہ سائنسی ترقی کی ان حدوں کوچھونے جارہی ہے جن کا ہم میں سے بہت لوگ تصور تک نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ سائنسی حدود میں کچھ مسائل بھی پیدا کر سکتے ہیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سائنسی ماحول میں انسانی فطرت کے روحانی تقاضوں پر بھی دھیان دیں۔۱۹۵۲ء کے سائنس کانگریس میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے انہوں نے نصیحت کی تھی کہ سائنسداں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بہترین انسان بھی ہو۔اسی طرح ۱۹۵۴ء کی سائنس کانگریس میں انہوں نے کہا تھا کہ علم کے ساتھ دانائی بھی ضروری ہے۔ Wesdom and leaing are needed together پنڈت نہرو کے خیالات، تصورات اوراحساسات کی جتنی اہمیت آج ہے وہ شاید پہلے نہ تھی۔ عوام غلط قسم کے سائنسی رجحانات کے شکار ہورہے ۔ مادی فائدہ کی خاطر لوگ اس فلسفہ حیات کو اپنانے سے قاصر ہیں جس میں موجودہ سائنسی تقاضوں اورماضی کے اخلاقی قدروں کا امتزاج ہو وہ امتزاج جو نہرو جی کی شخصیت میں موجود تھا۔ انہوں نے مغرب میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی مشرق اندازِ فکر کو اپنائے رکھا مغربی ممالک کے لئے وہ ایک بہترین ڈیما کریٹ تھے۔ افریقی اقوام کے انسانی حقوق کے کاز کے چیمپین تھے۔ عربوں کے لئے امن کانشان تھے تیسری دنیاکے لئے نئے ابھرتے ہوئے شولسٹ نظام کی علامت تھے۔ ہندوستانی معاشرہ میں سیکولر نظر یات کی علامت تھے۔ وہ مذہبی عصبیت اور فرقہ واریت سے ہمیشہ نفرت کرتے رہے۔ لیکن مذہبی عالموں کی صحبت پسند کرتے رہے اور ان سے فیض حاصل کرتے رہے۔ مذہب اورمذہبی اداروں کوذاتی اور سیاسی مفاد کے لئے ان اداروں کی اہمیت کو تسلیم کرتے رہے پنڈت نہر کی ذات میں ان ساری خوبیوں کے یکجا ہونے کی وجہ سے ان کا سائنسی مزاج تھا۔

«
»

’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ یا جاہلیت کے علمبردار

مادیت اسلام اور مغرب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے