پانچ بدترین گناہ غضب الہی کا سبب ہیں!

 

از:محمد ندیم الدین قاسمی 

 

مادی اعتبار سےتو دنیا نے خوب ترقی کی اور کر رہی ہے ، سائنسی ایجادات و انکشافات ،صنعتی انقلابات اور ٹیکنالوجی کی کثرت میں تصور سے زیادہ اضافہ ہوا ہے،مال ودولت کے اسباب کی فراوانی ہے، فلک بوس عمارتیں ، رہائش کے لئے پر تعیش مکانات کی بھرمار ہے ،لیکن ان سب کے باوجود پوری دنیا پریشان ہے اور دن بہ دن نئی نئی آفتیں ،زلزلے اور ایسی جان لیوا وبائیں کہ ترقی یافتہ ممالک بھی پریشان اور اس کے آگے بے بس نظر آتے ہیں،حد تو یہ ہے کہ اس موجودہ وبا(کرونا وائرس) نے تومعاش کے ذرائع کو تباہ و تاراج کردیا،ہر ملک معاشی بحران کا شکار ہوگیا، آخر ان کی کیا وجہ ہے؟ان سب کے ظاہری اسباب کچھ ہوں تو ہوں، لیکن احادیث کی صراحتوں سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک یا معاشرے پر اللہ کی طرف سے اجتماعی قہروعذاب اور آفتوں کا نزول پانچ گناہوں کے رواجِ عام کا نتیجہ ہے: (۱) سودخوری (۲) زنا اورعلانیہ بدکاری وفحاشی (۳) زکوٰة کی ادائیگی میں مجرمانہ کوتاہی،(۴)ناپ تول میں کمی ،(۵)اللہ و رسول کے احکام کی نافرمانی ۔

۱۔سودخوری 

مادیت پرستی اور دنیائےفانی کے حصول نے انسان کو اتنا اندھااور لالچی بنادیا کہ اسے حلال وحرام کی تمیز نہ رہی،بس مال کا حصول اس کا مقصدِ زیست بن گیا ،سود کا نام بدل بدل کر اس کا بےمحابا استعمال ہونے لگا جب کہ اللہ تعالی نے فرمایا

فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) اور اگر ایسا نہیں کرتے(سود لینےسے باز نہیں آتے) تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاوٴ۔

ایک حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ تعالیٰ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے ۔ (کتاب الکبائر للذھبی، الکبیرۃ الثانیۃ عشرۃ، ص69)

ایک اور حدیث میں ہے کہ سود کے وبال 73 قسم کے ہیں، سود کے 73 باب ہیں، سود کی خرابیوں کی 73 قسمیں ہیں، ان خرابیوں میں ادنیٰ اور کمتر قسم ایسی ہے جیسے کوئی شخص (معاذ اللہ) اپنی ماں کے ساتھ منھ کالا کرے‘‘۔ (المستدرک :2/37)

 

۲۔فحاشی وبدکاری 

آج قریہ قریہ شہر شہر میں بے حیائی کے اڈے ، شراب خانے ہیں، ،اپنی جنسی تسکین کے لیے ناجائز آلات کا استعمال، ناجائز تعلقات تواب عام سی بات ہے بلکہ اسے روشن خیالی کا نام دیا جاتا ہے، گھر گھر ٹیلی وژن اور عریانیت سے لبریز ایسے ٹی وی ڈرامے جو نوجوانوں کے ذہنوں میں بے حیائی اور بے دینی اور ہیجانی کیفیت پیدا کردے، عورتیں چار دیواری سے باہر نکل کر دفاتر، فیکٹریوں اور کارخانوں ہی کی نہیں ، بلکہ ہوٹلوں، ریسٹورینٹ، کلبوں، ناچ گانے کی محفلوں، مارکیٹوں، بازاروں سے لے کر تفریح کے پارکوں کی زینت بن چکی ہیں ،جس کی وجہ سے زنا عام اور عصمت دری کے واقعات روز افزوں ہیں، ہمارے اپنے مسلم معاشرے کی نوجوان بہن،نوجوان بھائی اور ماں باپ کو ایک ساتھ بیٹھ کر فحش مناظر دیکھنےمیں ذرا بھی شرم نہیں آتی،جس کی وجہ سے آج ہماری ماؤں بہنوں میں حیاء نام کی کوئی رمق باقی نہیں رہی جب کہ اللہ تعالی نے فرمایا ان الذین یحبون الخ

’’ جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے(النور ۹۱)

ایک حدیث میں رسول اکرمﷺ کا فرمان گرامی ہے: ’’ جب کسی بھی قوم میں فحاشی علانیہ طور پر ہونے لگتی ہے تو ان میں 

طاعون (وبائیں)اورایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔‘‘(سنن ابی دائوود 40) 

 

۳۔ناپ تول میں کمی:

ناپ تول میں کمی بیشی کرنادرحقیقت دوسرے کے حق پر ہاتھ ڈالنا اور چوری ہے قوم شعیبؑ اسی گناہ کی وجہ سی ہلاک کردی گئی ،ناپ تول میں کمی صرف خرید و فروخت میں ہی نہیں بلکہ شوہرکا بیوی کے حقوق ادا نہ کرنا ،اداروں کاملازمین ومدرسین کی تنخواہوں میں کمی کرنا ، بچوں کااپنے والدین کے حقوق ادا کرنے میں سستی کرنا ، مالداروں کاغریب پڑوسیوں کے حقوق میں کوتاہی کرنا ،اور موجودہ زمانہ میں تاجرین کالاک ڈاؤن سےفائدہ اٹھاکر اشیاء کی قیمتی بڑھاکر بلیک میں بیچنا اسی زمرے میں داخل ہے اسی وجہ سے آج گھروں میں خیر باقی نہیں رہا،مال کی کثرت کے باوجود اس میں برکت نہیں، اسبابِ تعیش کے باوجود راحت نہیں، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا،

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ، (سورہ تطفیف )بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی،

اور ایک حدیث میں 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اس کو قحط سالی ، روزگار میں تنگی اور باد شاہ کے ظلم کے ذریعے سے سزا دی جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ 4019)

۴۔زکوۃ کی عدم ادائیگی :

اللہ تعالی کے دیے مال میں سے زکاۃ ادا کرنا اہل ایمان پر فرض ہی نہیں بلکہ غریبوں کا حق بھی ہے،جو لوگ سال گزر نے کے باوجود اپنے مال میں زکاۃ ادا نہیں کر تے قیامت کے دن تو انھیں عذاب ہو گا ہی البتہ دنیا میں بھی وہ اللہ کے عذاب سے دوچار ہوں گے۔دنیا میں عذاب کی صورت یہ ہے کہ آسمان سے بارش روک دی جائے گی۔رسول اکرمﷺ نے فرمایا: 

اور جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکاۃ نہیں دیتی تو بارش روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ بر سے(سنن ابن ماجہ)

۵۔ اللہ و رسول کے احکام کی خلاف ورزی:

ایک حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا کہ جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ)آج ہم دیکھ لیں کہ ہر طرف مسلمان پریشان ہیں ، ان کا خون جانوروں سے زیادہ سستا ہوگیا، ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے اورجارہے ہیں،ان کو بدنام کرنے اور ان کوملک سے بے دخل کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں،آخر کیوں ؟ یہ سب اس لئے کہ ہم نےاللہ و رسول کے احکام کی علانیہ نافرمانی کی، نبی کی سنتوں کا جنازہ نکالا،صحابہ کرامؓ کی قربانیوں کی قدر نہیں کی ،جس کی وجہ سے آج ہماری یہ حالت زار ہے۔

اس لئے ہمیں چاہئے کہ اگر ہم ان گناہوں میں مبتلا ہیں تو توبہ کریں اور اللہ سے مغفرت کی بھیک مانگیں ۔اللہ عمل کی توفیق دے،آمین!

«
»

گودی میڈیااورصحافت کے عصری تقاضے

اے صاحب ایمان ! تیری سادگی پہ رونا آیا !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے