از قلم ۔ ڈاکٹر علیم خان فلکی
فلسطین میں ہونے والے مظالم کے خلاف سوشیل میڈیا اور جلسوں اور خطبوں میں اسرائیل کے خلاف مسلمانوں کا غم اور غصّہ قابلِ ستائش ہے۔ اخبارات اور رسائل میں بھی ہر کوئی اپنے جوشیلے بیانات اور مضامین کے ذریعے دشمن کو بھی اور مسلمانوں کی غیرت کو بھی للکار رہا ہے اور اخبارات کے صفحے کالے کررہا ہے۔ مخاطبت اِس غضب کی ہے گویا نتن یاہو اور جوبائیڈن شرمندگی سے سامنے سر جھکائے کھڑے ہیں، عرب لیڈر ڈر رہے ہیں کہ کہیں یہ کان نہ کھینچ لیں، اقوام متحدہ پریشان ہے کہ کہیں یہ اس کی نااہلی کا پردہ فاش نہ کردیں۔ اور عام آدمی گویا پیپسی کولا، مائیک ڈونالڈ وغیرہ آج سے ہی بند کرنے کے لئے اِن کے ایک اشارے کے منتظر ہیں، گویا اسرائیل پھر آکر اِ ن کے قدموں میں گِر جائیگا اور اپنی اکنامی کو بچانے کے لئے بھیک مانگے گا۔
عام لوگ تو خیر بے حِس بلکہ پتھر ہوتے ہیں۔ انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا چاہے کئی گجرات اور دہلی برپا ہوجائیں، چاہے چین یا فلسطین میں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑے، خود ان کے اپنے ملک میں مسلمانوں پر چین یا فلسطین سے زیادہ ظلم اور بربریت ہورہی ہے، اِن لوگوں کو کوئی پروا نہیں ہوتی، زیادہ سے زیادہ یہ لوگ میسیج فاورڈ کرکے اپنی ذلّتوں اور شکستوں کے ویڈیو پھیلاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ فلسطین پر بول کر یا لکھ لکھ کر اُن سے ہمدردی کا اظہار کرکے خواص ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں، ان سے چند گزارشات ہیں۔
سب سے پہلی گزارش تو یہ ہے کہ جس جوش سے آپ عربوں کو اور تمام مسلم ممالک کو حتیٰ کہ خود امریکہ اور اسرائیل کو مشورے، ہدایات اور وارننگ پر وارننگ دے رہے ہیں، ایسے، جیسے اگر اسرائیل آپ کے ملک میں ہوتا تو ابھی گُھس کر اس کی بوٹی بوٹی نوچ لیتے، اسے سپریم کورٹ میں گھسیٹ کر سزائے موت دلوادیتے، یہی مشورے اور ہدایات اپنے لئے بھی جاری کیجئے کیونکہ آپ کے ملک میں فلسطین سے زیادہ سنگین حالات ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں بم اور راکٹ کے ذریعے تباہی مچائی جارہی ہے اور یہاں فاشزم اور، فرقہ پرستی کے ذریعے۔ پچھلے ہفتہ کوویڈ کے ایک سرکاری ہسپتال میں ساؤتھ بنگلور کا ایک فرقہ پرست ایم پی پہنچ گیا، جہاں آکسیجن اور بیڈس کی کمی کی وجہ سے بحران پیدا ہوگیا تھا، لوگ مشتعل تھے۔ ان کی توجہ ہٹانے کے لئے اس نے ایک چال چلی اور 205 ملازمین میں سے صرف 16 جو مسلمان تھے، ان کو چن چن کر نکالا، ٹی وی چینلس کے سامنے ان کے نام پیش کرکے کہا کہ ہسپتال کو مدرسہ بنادیا گیا ہے، یہ مسلمان لوگ سارے بحران کے ذمہ دار ہیں۔ان تمام ملازمین کو نہ صرف برطرف کردیا گیا بلکہ ان پربغیر کسی ثبوت کے چارجس بھی لگا دیئے گئے۔
آپ میں سے کسی نے نہ جاکر احتجاج کیا نہ کسی نے اس بدبخت کو ہیٹ اسپیچ کے جرم میں سپریم کورٹ میں گھسیٹا۔ عمر خالد، کفیل خان اور صفورہ جیسے لوگ اگر تقریر کرتے ہیں توان پر غداری کے الزامات لگتے ہیں، لیکن اِس جیسے کئی غنڈے پولیس کے سامنے پستول تان کر گولی مارو سالوں کو کے نعرے لگاتے ہیں تو پھر بھی ہیرو بنا دیئے جاتے ہیں۔ کیا ایسا جرم اسرائیل میں ہوتا ہے؟ ابھی دو دن قبل ہریانہ میں ایک اور مسلم نوجوان عابد خان کی لنچنگ میں موت واقع ہوگئی، کیا کسی نے ایف آئی آر بک کیا؟ اسی ہفتہ کشمیر میں اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے کے جرم میں 21 نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان پر مقدمے درج کردیئے گئے۔ آپ نے اس کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی؟
خیر یہ تو تھے سیاسی مظالم جو خود آپ کے ملک میں ہورہے ہیں۔ اس سے قطع نظر ان مظالم پر بھی نظر ڈالتے ہیں جو مسلمان خود مسلمانوں پر کررہے ہیں، جن کے خلاف آپ کو ویسی ہی آواز اٹھانی چاہئے جیسے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف آپ اٹھارہے ہیں۔
کیا آپ کو وہ لاکھوں بے بس اور مجبور بہنوں اور بیٹیوں کی آہیں سنائی نہیں دیتیں جو جہیز اور کھانے نہیں دے سکتیں، اس لئے انہیں فحاشی، غربت، عمررسیدگی، ارتداد اور بھیک مانگنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے؟ آپ خود ایسی غیرشرعی دعوتوں میں شرکت کرکے خوب ڈٹ کر کھاتے ہیں، کیا آپ کو وہاں ہیومن رائٹس اور ویمنس رائٹس کی خلاف ورزی نظر نہیں آتی؟ خود مسلمان سودخوروں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون چوسنے کے واقعات کیا ہر شہر میں نہیں ہورہے ہیں؟ لاک ڈاؤن میں صرف چار گھنٹے کی چھوٹ میں ایک دن میں 200 کروڑ روپئے کی شراب فروخت ہورہی ہے جس میں مسلمان خریداروں کا بھی ہجوم ہے۔
کسی بھی اردو اخبار میں جرائم کا کالم پڑھئے، اگرچہ کہ آپ کی آبادی 15 فیصد ہے لیکن جرائم میں آپ کے لوگ 50-50 ہیں۔ کیا اس طرح کے لوگ جب قوم میں بھر جائیں گے تو ان کا وہی حشر نہیں ہونا چاہئے جو کہ ہورہا ہے؟ کیا اس کے ذمہ دار بھی یہودی یا امریکی یا آپ کے ملک کے فاشسٹ ہیں؟ کیا اس کو روکنے کے لئے آپ نے کسی قسم کی کوئی اصلاحِ معاشرہ کی تحریک برپا کی ہے؟ سیاسی مظالم کو روکنے کیا آپ نے کوئی اقدام کیا ہے؟
یہ سچ ہے کہ آپ انفرادی سطح پر کچھ نہیں کرسکتے، اِس کام کے لئے لیڈرشپ اور Masses درکار ہیں۔ اسلام نے اس کا ایک راستہ دکھایا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ آپ کو اجتماعیت میں داخل ہوجانے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ میں تمہیں پانچ چیزوں کی وصیت کرتا ہوں۔ سب سے پہلی وصیت جو فرمائی وہ آپ کی سیاسی، سماجی اور معاشی بقا کی ضمانت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا”جماعت اختیار کرو“ پھر اس کے بعد فرمایا ”سمع و طاعت، ہجرت اور جہاد“۔ اگر آپ پہلی شرط یعنی جماعت کے حکم کو پورا کرتے ہیں تو باقی چار خود بخود پورے ہوجاتے ہیں، ورنہ ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے کہا کہ
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اب وقت آگیا ہے کہ جتنے مشورے آپ نے فلسطین کے سلسلے میں پیش کئے ہیں، وہ تمام اپنے آپ پر اپلائی کریں۔ جماعت اور Masses کے بغیر نہ آپ ملک کے اندر کچھ کرسکتے ہیں اور نہ ملک کے باہر۔ اب کوئی پیغمبرآکر جماعت بناکر نہیں دیں گے۔ اب اگر کوئی جماعت اِن اہداف کو لے کر اٹھے گی تو فاشسٹ اور فرقہ پرست اس کو پھول نہیں پہنائیں گے، بلکہ وہ آپ ہی کے علما اور لیڈروں کو استعمال کرکے ان کو دہشت گرد، باغی، کافر، مشرک اور پتہ نہیں کیا کیا ثابت کروادیں گے۔ آپ کو مطمئن کرنے کے لئے فاشسٹ اُن کو گُڈ کنڈکٹ سرٹیفکٹ نہیں دیں گے، بلکہ ان کے خلاف ایسے ایسے الزامات لگائیں گے کہ آپ ڈر کے مارے اُن سے دور بھاگیں گے۔
اسرائیل کے خلاف آپ جس جہاد کا مشورہ بلکہ اعلان پیش کررہے ہیں، اب خود آپ کے ملک میں اس کو اپلائی کرنے کا وقت آگیا ہے۔ آپ تنہا کچھ نہیں کرسکتے لیکن کئی تنظیمیں ہیں جو سر پر کفن باندھ کر میدان میں آچکی ہیں، آپ اپنے جذبہئ جہاد کے ساتھ ان میں فوری شامل ہوسکتے ہیں۔ جو غلطی فہمیاں اور پروپیگنڈا اُن کے خلاف پھیلا کر آپ کو ان سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، آپ ان کے قریب ہوکر ان غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کرسکتے ہیں اور شامل ہوکر بے شمار دوسروں کو بھی راغب کرسکتے ہیں۔
ورنہ اگر آپ نے آنکھیں بند کرکے دشمنوں کی باتوں پر اعتبار کرلیا اور اپنی جان، نوکری، کاروبار وغیرہ کو بچانے کی خودغرضی میں اپنے آپ کو اُن سے دور رکھا تو بخدا آپ اپنا بھی، اپنی نسلوں کا بھی اور پوری امت کا نقصان کریں گے۔ کئی تنظیمیں ہیں، صرف ہمت، حوصلے اور وسیع النظری کے ساتھ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ سرِ فہرست پاپلر فرنٹ آف انڈیا ہے۔ جو ہر میدان میں فاشسٹوں کا مقابلہ کررہی ہے، ساتھ ہی ساتھ دعوت، اصلاحِ معاشرہ اور فلاحی کاموں میں مسلسل لگی ہوئی ہے۔
اس کے نوجوانوں کو مستقل ہراساں کیا جارہاہے۔آپ کو ان کے ساتھ شامل ہونا پڑے گا تاکہ آپ کا حشر کل چین اور فلسطین یا برما کے مسلمانوں جیسا نہ ہو۔ جماعتِ اسلامی اورایس آئی او، جمہوریت، سیکولرزم اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک گیر سطح پر دینی، سیاسی اور معاشی بیداری پیدا کررہی ہیں،
آپ یا تو ان کے ساتھ شامل ہوجایئے۔ملک میں اتنے بڑے بڑے فسادات اور گھوٹالے ہوچکے ہیں، سپریم کورٹ کے جسٹس لویا کا قتل، ہیمنت کرکرے، پنسارے، گوری لنکیش جیسے لوگوں کے قتل، پلوامہ میں تین سو سے زیادہ فوجی جوانوں کے قتل ہوئے ہیں، لیکن کسی فاشسٹ یا فرقہ پرست پارٹی پر نہ دہشت گردی کا الزام لگا اور نہ ان پر پاپندی لگی، لیکن سیمی جیسی حق اور انصاف کے لئے لڑنے والے نوجوانوں کی تنظیم پر پابندی لگ گئی،
اور کئی نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں کئی کئی سال کی جیل کرکے آپ کو اور آپ کی نسلوں کو ہمیشہ کے لئے خوف اور دہشت کا قیدی بنا دیا گیا۔ اٹھئے، سیمی نہ سہی سیمی کی فکر پر مبنی تحریک تو اٹھایئے، کسی کا ساتھ تو دیجئے۔ یہ سب نہیں کرسکتے تو کم سے کم سطح پر دعوت و تبلیغ کے ذریعے کام کیجئے، اس کے لئے تبلیغی جماعت ہے جو گاؤں گاؤں جا کر لوگوں میں اسلام کا شعور تو جگا رہی ہے۔
اسی طرح کی کئی تنظمیں اور گروپ ہیں جو سنّت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے شرک کی حقیقت بت پرستوں کو سمجھارہے ہیں، اورانہیں ایک اللہ کی طرف لوٹا رہے ہیں۔ آپ ان کا ساتھ دیجئے۔ ہندوستان کے پندرہ بیس کروڑ مسلمانوں میں سے صرف ایک کروڑ مسلمان کسی نہ کسی مذکورہ جماعت میں شامل ہوجائیں اور ان جماعتوں کی نفری بڑھادیں تو دیکھئے آپ کی آواز نہ صرف فاشسٹ اور فرقہ پسند سن کر کانپیں گے بلکہ اسرائیل اور امریکہ کے ایوانوں میں بھی آپ کی آواز گونجے گی۔ آپ کو سڑکوں پر آنا ہوگا۔
حقوق بھیک مانگنے سے یا سپریم کورٹ سے نہیں ملتے، حقوق سڑکوں پر آکر اپنا خون بہا نے سے ملتے ہیں۔ اپنی نسلوں کو آزادی دلانے کے لئے اپنا خون بہادیں تب بھی یہ بہت اچھا سودا ہے، ورنہ کئی نسلیں غلامی میں مبتلا رہیں گی۔ جو قوم پانچ نمازوں کے لئے تو درکنار جمعہ کا خطبہ جس کا سننا واجب ہے، وہ سننے کے لئے نہیں آتی تو وہ بھلا قوم کے لئے سڑکوں پر کیا آئے گی، اگر انہیں لانا ہے تو آپ کو سڑکوں پر آنا ہوگا۔
بھول جایئے کہ آپ لکھ پتی ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، یا بااثر ہیں یا کسی نواب کی اولاد ہیں۔ جب بات آپ کی تہذیب، مذہب، زبان، تاریخ اور شناخت کی بقا کی آچکی ہے تو کیا آٹو والے کیا نواب، سب کو جماعت کے ایک والنٹیئربن کر کام کرنا ہوگا، تب یہ حالات بدلیں گے۔ اپنی انا، اپنی شہرت، اور اپنے عیش و آرام کو قربان کرکے جب آپ گھر سے نکلیں گے تو ہزاروں لوگ اور بھی نکلیں گے۔
آپ اگر گھر میں ایر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف واٹس اپ، فیس بک یا ٹویٹر کرتے رہیں گے تو کوئی آکر دروازہ کھٹکھٹا کر یہ نہیں کہے گا کہ عزت مآب، تشریف لایئے ہم انقلاب لاچکے، اب آپ قیادت فرمایئے۔ اگر آپ کسی سیاسی پارٹی کے ورکر ہوتے تو کیا ہائی کمان کے حکم پر کسی نہ کسی احتجاج کے لئے سڑکوں پر نہیں آتے؟ ضرور آتے اور پہلی صف میں کھڑے ہوکر سوشیل میدیا پر فوٹوز ڈالتے، کیونکہ وہاں سڑکوں پر آنے میں آپ کے پارٹی پروموشن، کونسلر یا اسمبلی کے ٹکٹ کی امید ہوتی ہے۔
جب آپ نے دیکھ لیا کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو، آپ کے تعلق سے سب کی پالیسی ایک ہی ہے، نہ آپ کو منسٹری ملے گی، نہ آپ کو نیشنل لیڈرز کی صف میں آنے کا موقع دیا جائیگا، اورنہ کسی کارپوریشن کا ڈائرکٹر بنایا جائیگا۔ آپ کو دو چار اسٹیٹ کمیٹیوں جیسے حج کمیٹی، اردو اکیدیمی یا اوقاف کمیٹی کی کرسیاں حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی سیاست میں مصروف کردیا جائیگا، تو اب بھی وقت ہے سوچ لیجئے کہ اپنی ملت کے لئے خود اٹھیئے اور سڑکوں پر آیئے یاپھر یوں ہی سوشیل میڈیا اور اخبارات میں اپنے بیانات جاری رکھئے جس سے کبھی کوئی انقلاب نہیں آئے گا۔
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیوریفارمس سوسائیٹی، حیدرآباد۔
واٹس ایپ نمبر 738630883
|
جواب دیں