پاکستانی صحافت پر دہشت کے سایے

کبھی جان کا یہ دھڑکا عام شہریوں پر حاوی ہوجاتا ہے،کبھی مذہبی سربراہوں پر،کبھی سیاسی لیڈران پر،تو کبھی اربابِ قلم و قرطاس اور اہلِ صحافت پر،۲۰؍اپریل کی شام کو کراچی ایر پورٹ کے قریب ہی پاکستان کے مشہور ترین اور سب سے بڑے نشریاتی ٹی ویچینل جیو کے اینکر پرسن ، جنگ کے مشہور و مقبول ترین کالم نگار اور اپنی جرأت مندانہ و بے باکانہ صحافت کے حوالے سے امتیازی شناخت رکھنے والے صحافی حامد میرپرجوقاتلانہ حملہ ہوا،وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے،پاکستان میں صحافیوں پر حملہ ایک عرصے سے جاری ہے،یہی وجہ ہے کہ صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نامی تنظیم نے سال۲۰۱۲ء کے دسمبرمیں جو رپورٹ پیش کی تھی،اس کے مطابق شام اور صومالیہ کے بعد صحافیوں پر قاتلانہ حملوں کے سلسلے میں پاکستان تیسرے نمبر پرہے،سی پی جے کے مطابق گزشتہ دہائی بھر میں اس ملک میں ۲۰سے زائدصحافی ٹارگیٹ بناکرقتل کیے جاچکے ہیں،مگر ایک بھی معاملے میں عدالت سے فیصلہ نہیں آسکاہے،وہاں صحافیوں کو دوہری مشکلات کا سامنا ہے،ایک طرف سرکاری ادارے اورخفیہ ایجنسیاں کہتی ہیں کہ ان کے مطابق رپورٹنگ کی جائے،دوسری جانب شدت پسندوں کی جماعتیں ہیں،جو انھیں یرغمال بنانے اور اپنے حسبِ خواہش رپورٹنگ کرنے پر مجبور کرتی رہتی ہیں،اس عجیب و غریب مخمصے والی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس کے صفدرداؤدبالکل صحیح کہتے ہیں کہ’’پاکستانی صحافی شدت پسندی اور فوج کے درمیان سینڈویچ بن کر رہ گئے ہیں‘‘یہی صورت حال ہے،جس کی وجہ سے ہر مہینے دو مہینے میں کسی نہ کسی بڑے اور نمایاں صحافی کے اندوہ ناک قتل کی خبر مملکت خدادسے آتی رہتی ہے،جوصحافی باضمیرہوتااور اپنے پیشے ، فرائض اور ضمیر سے سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا،اسے دشمن بڑی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں،گزشتہ سال دسمبر میں ٹی وی چینل نیوز ایکسپریس کے مرکزی دفتر پر بھی نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کی تھی،جس میں اس کا گارڈمرگیاتھا،اس حملے کے بعد وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے مؤثر کارروائی کی یقین دہانی بھی کرائی تھی،مگر نتیجہ صفر ہی رہا،یہی نہیں اس سے پہلے کے دنوں میں جیواور جنگ گروپ کے کئی ایک رپورٹروں اور صحافیوں کو قتل کیاگیایا ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا،مگران میں سے صرف ایک ولی بابر کیس میں ہی فیصلہ آسکا،نومبر۲۰۱۲ء میں خود حامد میرہی کی گاڑی کے نیچے دھماکہ خیز موادپایاگیا تھا،جسے موقع پرہی ناکارہ کردیاگیااور وہ بچ گئے تھے،حکومت بیچ میں صحافیوں کو سیفٹی فراہم کرنے کے لیے چھوٹے موٹے ہتھیار رکھنے کا قانون لانے کی بھی بات کر رہی تھی،مگر وہ بھی محض ایک تجویز ہی رہ گئی۔
ان حملوں کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرماہوتے ہیں،تیقُّن کے ساتھ ان کی تعیین بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے،کیوں کہ شدت پسند جماعتوں میں سے کوئی اگر ایسا کرتی ہے،تو وہ اس طرح کے واقعے کے بعد فوراً اپنی ذمے داری قبول کرلیتی ہے،مگر جن واقعوں کی ذمے داری وہ قبول نہیں کرتی ہے،ان کا پتا بھی نہیں لگتا ہے اوربے چارے مرنے والے کے اہل خانہ اور متعلقین آہ وواویلا مچاکر رہ جاتے ہیں،نہ حکومت کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ عدلیہ ان کی کوئی مدد کرتی ہے،حامد میر پر ہونے والے حالیہ حملے نے اس بارے میں حکومت کے لیے بڑی غیر معمولی مشکل کھڑی کردی ہے،کہتے ہیں کہ انھوں نے اس واقعے سے چند دنوں پہلے ہی اپنے بھائی عامر میر سمیت جیوٹی وی کی اپنی ٹیم اور دیگر خاص لوگوں کو ایک ویڈیوکے بارے میں بتایاتھا،جس کے حوالے سے ان کا کہنا تھاکہ اگر ان پر کوئی جان لیوا حملہ ہوتا ہے،تو اس کی ذمے داری پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ ظہیر الاسلام پر ہوگی؛چنانچہ جوں ہی حامد میر پر حملہ ہوا،ان کے بھائی نے آئی ایس آئی پر الزام جڑدیا،خودجیوٹی وی نے باقاعدہ ایسی ہی خبر چلادی، چند ہی گھنٹوں بعد پاک فوج کے محکمۂ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کی طرف سے پریس ریلیز جاری کرکے اس کی تردید کی گئی،۲۳؍اپریل کوجہاں وزارت دفاع نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولریٹری اتھارٹی(پیمرا)کوجیوٹی وی پر پابندی لگانے کی درخواست بھجوائی ،وہیں وزارت داخلہ نے ملک کے دفاعی اداروں کو تنقید اور الزامات کا نشانہ بنانے کو تشویشناک قراردیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی،گرچہ وزیر اعظم میاں نواز شریف بذات خود حامد میر کی عیادت کو ہاسپیٹل گئے تھے اور انھوں نے معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے فوری طورپر عدالت کے ذریعے تفتیشی کمیشن بھی مقررکروادیاہے؛لیکن بہر حال حکومت کے سامنے اصل چیلنج اپنے وقار اورخفیہ ایجنسی کی ایمیج کے تحفظ کا ہے،بڑے بڑے افسران اور اعلیٰ سطح کے حکام کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ حامد میر اور ان کے حامی کے اس الزام کی وجہ سے دنیا کے دوسرے ممالک،بالخصوص بھارتی میڈیا بغلیں بجارہاہے،حکومت اس پہلو پر سرے سے غور کرنے کو تیار نہیں کہ حامد میرنے پہلے اپنے لوگوں کوجس اندیشے سے باخبر کیا تھا، اس کی بنیاد کیاتھی،اس کی تحقیق کی جائے،ظاہر ہے کہ وہ ایک بڑے صحافی تھے،حکومت کی بہت ساری پالیسیوں سے انھیں اختلاف تھا،خاص طورسے پاکستان کے مختلف خطوں سے نوجوانوں کے اغوا ہونے کے بڑھتے سلسلے کو انھوں نے گزشتہ دنوں بڑے زور وشور سے اٹھایاتھا اور حکومت کو سرِ عام لتاڑا تھا،یوں بھی سبھی جانتے ہیں کہ انھیں پہلے کئی دفعہ انجانے لوگوں نے جان کی دھمکی بھی دی تھی،مگر اس بار جو انھوں نے اشارتاً دھمکی دینے والوں کی نشان دہی کی تھی،تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہوگی،حکومت اس پہلو پر غورکرنے کو بالکل بھی تیار نہیں،اسے پہلے سے ہی خانہ خراب ہوچکے آئی ایس آئی کی پوزیشن صاف کرنے سے دل چسپی ہے۔
معاملے میں اور زیادہ پیچیدگی و سنگینی پیدا ہونے کے آثاراس لیے بھی پیدا ہوتے جارہے ہیں کہ وزارت دفاع کی متذکرہ درخواست پر نوٹس لیتے ہوئے پیمرا نے جیوٹی وی کونوٹس بھیج دیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت ، حکومتی اداروں اور حامد میر اوران کے چینل سے پرخاش رکھنے والے چند ایک ملکی سطح کے صحافی و دانشوران کی ملی بھگت سے یہ منصوبہ تیار کرلیاگیا ہے کہ جیوٹی وی کو بند کردیا جائے،پیمرا کے اقدام کی مذمت امریکی میڈیا نے بھی کی ہے اور صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرزودآؤٹ بارڈرنے بھی پاک حکومت کوجیوٹی وی یا حامدمیرکے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے بازرہنے کی تنبیہ کی ہے ، اگر جیوٹی وی پر روک لگائی جاتی ہے،تو یہ اظہار رائے پر قدغن لگانے جیسا عمل ہوگا جو کسی بھی طرح مناسب نہیں کہا جاسکتا،پاکستان جیسے مسائل کے انبار تلے ملک میں اگر عوام کا کچھ بھلا ہوپاتا ہے،تووہاں کے انصاف پسند،حق گو اور بے باک میڈیا کی وجہ سے اور اگراس پربھیزباں بندی کا دستورنافذکردیاگیا،تب تونشۂ اقتدار میں چور حکمرانوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے گااور عوام کی سسکیوں اور کراہوں کی آوازیں ان تک پہنچ ہی نہیں سکیں گی۔
حامد میر کے اس کیس میں پاکستانی صحافتی طبقے کی بھی ایک دُکھتی رگ ظاہر ہوئی ہے اور وہ ان کی آپسی رنجش اور خلش و کڑواہٹ ہے،جسے وہ ایسے نازک موقعے پر بھی بھولنا اور اپنی برادری کے تحفظ کی خاطر متحد ہونا نہیں چاہتے،جہاں ایک طرف حامد میر پر حملے کے خلاف پورے پاکستان میں حکومت سے جلد اقدام کرنے اور انصاف کے مطالبے ہورہے ہیں،وہیں اہل صحافت کا ایک حلقہ وہ بھی ہے،جو کھلے عام حکومت کی سائڈ لے رہاہے اور نہ صرف یہ کہ حامد میر،ان کے بھائی اور ان کی ٹیم کے الزام کو غلط قراردیتے ہوئے اسے ایک معتمدترین سرکاری ادارے کوبدنام کرنے سے تعبیر کررہاہے؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حامد میر پر حملے کے سارے سانحے کو ہی کھڑاگ بتارہاہے،یعنی بالکل فرضی اوراس کے کئی ثبوت اور شواہد بھی تلاش کر لیے گئے ہیں،ظاہر ہے کہ جب ایک مقصدکے تحت سرگرم عمل افراد میں اس قدر قلبی بعد اور تباین پایا جاتاہواور وہ آپس میں اتنے کھنچے کھنچے سے ہوں،توپھر ان کی مشکلیں اور مصیبتیں کیوں کر ختم ہوسکتی ہیں؟یہی وجہ ہے کہ پاکستان آئے دن صحافیوں کے لیے مزید دہشت ناک بنتا جارہاہے اور حکومت انھیں محض وعدوں کے کھلونوں سے بہلارہی ہے۔

«
»

حماس اور فتح میں مفاہمت

آر ٹی آئی ایکٹ عوام کو بہلانے کا ذریعہ ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے