عارف عزیز(بھوپال)
* پاکستان میں جمہوریت پر فوج کے بار بارگرفت سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ وہاں آج تک کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں ابھر سکی جس نے ملک کی تعمیر وترقی میں وہ کردار ادا کیا ہو جو ہندوستان میں آزادی سے قبل اور بعد میں کانگریس نے نبھایا، نہ ایسی کوئی عوامی قیادت پاکستان کے نصیب میں آئی جو گاندھی اور نہرو کی طرح رائے عامہ کو تابع بنا کر رکھتی، اس بارے میں اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پاکستان نہایت کم مدت میں اپنے دو رہنماؤں سے محروم ہوگیا جو اگر حیات رہتے تو وہاں جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے مواقع زیادہ روشن ہوجاتے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر محمد علی جناح اور لیاقت علی خاں زیادہ عرصہ تک زندہ رہتے تو کیا مسلم لیگ پاکستان کی تعمیر وترقی میں وہی رول انجام دیتی جو ہندوستان میں نیشنل کانگریس کے حصہ میں آیا ہے۔؟
اس کا جواب یہی ہے کہ شاید نہیں، کیونکہ مسلم لیگ کی اٹھان جس انداز سے ہوئی وہ کانگریس سے کافی مختلف تھی، آزادی کی جدوجہد کے دوران کانگریس نے جس طرح قومی امنگوں کی وقتاً فوقتاً ترجمانی کی مسلم لیگ اس کے برعکس صرف تحریکِ پاکستان کے تعلق سے مسلمانوں میں محمد علی جناح کی ہدایت واحکام پہونچانے کا کام کرتی رہی۔ اس کے پاس نہ تو کانگریس کی طرح کا ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچہ تھا، نہ قیام پاکستان کے علاوہ اس کو موثر پالیسی وپروگرام ہی میسر تھا، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ آخر تک اس مقام سے محروم رہی جو کسی جمہوریت میں حکمراں جماعت کا ہوا کرتا ہے یا کم از کم ہندوستان میں ایک طویل مدت تک کانگریس کو حاصل رہا۔ اس کمی یا کوتاہی کے باعث پاکستان کے اندر وہ سیاسی آب وہوا قائم نہ ہوسکی جس میں جمہوری روایات اور خصوصیت سے پارلیمانی نظام پرورش پاتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پیوپلز پارٹی کو ایک بار ضرور مغربی پاکستان میں عوام تک پہونچنے کا موقع ملا تھا لیکن حکومت وہ بھی جنرلوں، ایرمارشلوں اور ایڈمرلوں کی مدد سے چلاتی رہی حالانکہ بھٹو ذرا بھی سمجھداری سے کام لیتے تو پیوپلز پارٹی کو ایک مضبوط سیاسی جماعت کی حیثیت سے طاقت کا ایسا متبادل مرکز بنا دیتے جسے عوام کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہوتا اور جو فوج نیز اس کی ماتحت نوکر شاہی پر قابو پا سکتا تھا ، جن کی ملی جلی ٹولی پاکستان میں اقتدار پر قابض ہونے کا باربار اقدام کرچکی ہے اوراسے وہ اپنا حق سمجھتی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے ۱۱ سالہ دور حکومت کے بعد پاکستان میں جمہوری عمل دوبارہ شروع ہوا مگر کبھی فوج تو کبھی انتظامیہ کی مداخلت اس میں جاری رہی، جمہوریت کے اس ۱۱ سالہ تجربہ کے دوران وہاں دو سال سے کچھ کم عرصہ تک بے نظیر بھٹو کی منتخبہ حکومت کام کرتی رہی، نومبر ۱۹۹۰ء کے وسط مدتی الیکشن کے بعد پہلے میاں نواز شریف برسراقتدار آئے، بے نظیر کی حکومت کی طرح صدر غلام اسحاق خاں نے جو ڈیفنس سکریٹری کے عہدہ سے ایوان صدارت تک پہونچے تھے، اسلامی جمہوری اتحاد کی اس حکومت کو بھی برطرف کردیا۔ سپریم کورٹ کے ایک تاریخی فیصلہ کے نتیجہ میں نواز شریف حکومت کی بحالی تو عمل میں آگئی لیکن ۱۹۹۳ء کے نئے انتخابات میں انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور بے نظیر دوبارہ برسراقتدار آگئیں، جن کی حکومت کو تین سال بعد صدر فاروق لغاری نے برطرف کردیا ۔ اس کے بعد ۱۹۹۷ء کے جو انتخابات ہوئے اس میں نواز شریف کی مسلم لیگ غیر معمولی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی لیکن اس حکومت کو بھی سیاسی استحکام نہ مل سکا حالانکہ شروع میں ایسا اندازہ ہوتا تھا کہ نواز شریف اپنی مدت پوری کرلیں گے مگر انہوں نے عوامی حمایت کو ملک میں جمہوریت مستحکم کرنے کے بجائے اپنے نجی مفادات کے لئے استعمال کیا عدلیہ سے لڑائی میں تو بظاہر وہ کامیاب رہے لیکن فوج سے چھیڑ چھاڑ نے نہ صرف انہیں بلکہ جمہوریت کو بھی نقصان پہونچایا اور ایک مرتبہ پھر وہاں فوج حاکم بن گئی۔
اس سے پہلے بھی جیسا کہ کہا گیا پاکستان میں جمہوری حکومتوں کو کبھی استحکام نہیں ملا، جنرل ایوب خاں کی قیادت میں جو پہلی فوجی حکومت قائم ہوئی، اس سے پہلے بھی پاکستان میں صبح وشام حکومتیں بدلا کرتی تھیں، جنرل ضیاء الحق دوسرے فوجی تھے جو گیارہ سال حکومت چلاتے رہے اسی طرح جنرل پرویز مشرف طویل عرصہ تک اقتدار پر قابض رہے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہوئے الیکشن میں عوامی ہمدردی کے بل بوتے پر پیوپلز پارٹی کی جمہوری حکومت بنی تو پاکستان ہی نہیں، ہندوستان سمیت تمام پڑوسی جمہوری ممالک نے اطمینان ظاہر کیا کہ اب پاکستان کو سیاسی استحکام ملے گا اور ایک جمہوری آئین کے تحت وہاں کی حکومت کام کرے گی، ایسا ہوا بھی، باوجود اس کے کہ پیوپلز پارٹی کے اس دور میں عدالت اور صدر زرداری کی مداخلت پر کئی وزیراعظم بدلے گئے، لیکن یہ حکومت اپنی مدت کار مکمل کرنے میں بہر حال کامیاب رہی۔ جو پاکستان کی جمہوریت کیلئے نیک فال تھا ۔ اس کے بعد ۲۰۱۳ء میں جو الیکشن ہوئے اس میں نواز شریف کی مسلم لیگ کو کامیابی حاصل ہوئی، اس کو بھی پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں گہری ہونے سے تعبیر کیا گیا، لیکن کامیابی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود عمران خاں کی پی ٹی آئی اور علامہ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک نے جسے وہ سول نافرمانی کا نام دے رہے ہیں جمہوریت پر پھر خطرات کے بادل گہرے کردیئے ہیں، کیونکہ صورت حال بگڑی تو موقع کی منتظر فوجی قیادت کے لئے مداخلت کی راہ ہموار ہوسکتی تھی، نواز شریف کے خلاف اس تحریک کا مقصد بھی یہی تھا کہ عمران خاں چار سال انتظار کرنے پر آمادہ نہیں تھے، وہ فوج کی مداخلت سے نواز شریف کی حکومت کو گراکر جلد سے جلد نئے الیکشن میں قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں، اسلام آباد میں ریڈزون کی حفاظت کیلئے فوج کی طلبی اور فوجی قیادت کی طرف سے حکومت پر مظاہرین سے گفتگو کے لئے دباؤ یہی ظاہر کرتا ہے کہ فوج کیلئے مداخلت کی راہ ہموار کی جارہی تھی جو جمہوریت کے استحکام کیلئے صحت مند علامت نہیں تھی، اس ہنگامہ آرائی سے پاکستانی معیشت بھی گہرے طو رپر متاثر ہوئی اس پر بھی پاک فوجی قیادت مطمئن نہیں ہوئی اور نواز شریف پر مختلف الزامات عائد کرکے عدالت سے انہیں بدعنوانی کا مرتکب قرار دیکر حکومت وسیاست سے باہر کرنے کے احکامات صادر کردیئے گئے، جس کے بعد پاکستان فوج کے دباؤ میں جو پارلیمانی انتخابات ہوئے ان کا نتیجہ فوج کے حسب منشاء نواز شریف کی پارٹی مسلم لیگ کے خلاف اورعمران خاں کی تحریک انصاف پارٹی کے حق میں برآمد ہوئے ہیں ، ان نتائج کو عمران خاں کی پارٹی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا ہے کیونکہ ان کا الزام ہے الیکشن میں کھلی دھاندلی کا مظاہرہ ہوا خاص طور پر الیکشن نتائج کے اعلان میں منصوبہ بند طریقے سے تاخیر کی گئی ہے جس سے مذکورہ الزام کو تقویت ملتی ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے ہمسایہ ملک ہندوستان کے لئے بھی تشویشناک ہے کیونکہ عمران خاں فوج کی ہدایت پر ہی کام کرینگے جبکہ نواز شریف پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ فوج مخالف اور ہندوستان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان پر ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی سے تعلقات رکھنے کا بھی الزام ہے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
29جولائی(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں