عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
تاریخ شاہد ہے کہ صفحۂ گیتی پرتخلیقِ نوع انسانی کے بعدسے آج تک بے شمار علمی ،سیاسی،سماجی اور مذہبی شخصیات رونق افروز ہوئیں،جن میں سرفہرست انبیاء کرامؑ تشریف لائے،حکماء وفلاسفہ پیدا ہوئے،فصاحت وبلاغت کے امام آئے،قانون وطب کےماہرین قدم رنجہ ہوئے؛مگر ان تمام شخصیات میں جوقدر ومنزلت نبی پاکﷺ کے حصے میں آئی اورجو فدائیت وجانثاری آپ کے اصحاب و نام لیواؤں نے دکھائی،کسی اور کو یہ اعزاز حاصل نہ ہوسکا۔آپ کی ذات اقدس کےاس پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہوئےعلامہ اقبال مرحوم نے کہا ؎
دشت میں، دامنِ کُہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رَفَعْنَا لَکَ ذِکرَْک‘ دیکھے
یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ آپ کی عظمت و رفعت کے ترانے صرف اپنوں نے نہیں گائے؛بل کہ بیگانے بھی آپ کی تعریف میں رطب اللساں رہےاور آج تک ہیں۔ آپ ؐکی عظیم شخصیت،آپؐ کےاخلاق حمیدہ ،آپ کی آفاقی تعلیمات اور آپؐ کی سیاسی اور تاریخی عظمت۔۔۔۔ ایسے روشن حقائق ہیں جن کے ادراک کے بعد کوئی غیر مسلم بھی تعصب وعناد کےخول میں زیادہ دیر تک بند نہیں رہ سکتا۔ آپ کی سچائی اور صداقت کااقرار،آپ کی دیانت و پاک دامنی کا اعتراف صرف عربوں تک محدود نہیں رہا؛ بلکہ ساری دنیا کےدانشور ومفکرین جوتعلیمات اسلام کےمنکرہیں، وہ بھی آپ کےمقام ومرتبےکےقائل اور آپ کی تعریف وتوصیف پر مجبور ہیں، کارلائل ، نپولین ، ٹالسائی ، گوئٹے، لینن پول اور دیگر بےشمار ہندوپنڈت و دانشور آپ کی مدح سرائی کرتےنظر آتےہیں۔ اغیار، ایسی شہادتیں آپﷺ کی حیات طیبہ میں بھی دیتے رہے اورآپ کے وصال کے بعد آج تک دیتے چلے آرہے ہیں۔
سردار قریش اور قیصرِ روم کے درمیان دل چسپ مکالمہ:
اس حوالے سے آپ کی حیات طیبہ ہی میں قیصرروم اورحضرت ابو سفیان (جو ابھی مشرف بہ اسلام نہیں ہوئےتھے)کے مابین جو مکالمہ ہواوہ کافی دل چسپ،ایمان افروز اور چشم کشا ہے۔ اس پر غور کریں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ ہرقل نے ابوسفیان سے بالکل اسی انداز میں جرح کی جیسے وکلاء بحث وجرح کرتے ہوئے حقائق کو واضح کرنے کی غرض سےسوالات کرتے ہیں اور بات اس انداز سے کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ غیرجانب دارافرادکے لئے حق کو پہچان لینا آسان وسہل ہو جاتاہے۔ابو سفیان سے ہرقل نے جس گہرائی کے ساتھ سوالات کیے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے پایہ کا عالم تھا اور حضوراکرمﷺ کو نبی آخر الزمان کی حیثیت سے پہچان چکا تھا۔بعد از قبول اسلام حضرت ابو سفیان(رضی اللہ عنہ)کا ایک قول ملتا ہےکہ خدا کی قسم اس مکالمہ کے دوران کئی بار میرا جی چاہا کہ میں جھوٹ بول دوں، اس لئے کہ قیصر کے سوالات مجھے گھیرتے چلے جا رہے تھے او ر میں محسوس کر رہا تھا کہ میرے پاؤں تلے سے زمین کھسک رہی ہے؛لیکن میں نے سوچا کہ میرے ساتھی کیا کہیں گے کہ قریش کا اتنا بڑا سردار جھوٹ بول رہا ہے۔چنانچہ میں جھوٹ نہیں بول سکا۔ دونوں سرداروں کے مابین ہونے والےمکالمے کی تفصیل درج ذیل ہے:
قیصر: مدّعی ٔ نبوت کا خاندان کیسا ہے؟
ابوسفیان: شریف ہے۔
قیصر: اس خاندان میں کسی اور نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا؟
ابوسفیان: نہیں۔
قیصر: اس خاندان میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟
ابوسفیان: نہیں!
قیصر: جن لوگوں نے یہ مذہب قبول کیا ہے، وہ کمزور لوگ ہیں یا صاحبِ اثر؟
ابوسفیان: کمزور لوگ ہیں۔
قیصر: اس کے پیرو کاربڑھ رہے ہیں یا گھٹتے جا رہے ہیں؟
ابوسفیان: بڑھتے جا رہے ہیں۔
قیصر: کبھی تم لوگوں کو اس کی نسبت جھوٹ کا بھی تجربہ ہوا ہے؟
ابوسفیان: نہیں!
قیصر: وہ کبھی عہد واقرار کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے؟
ابوسفیان: ابھی تک تو نہیں کی؛ لیکن اب جو نیا معاہدۂ صلح ہے اس میں دیکھیں کہ وہ عہد پر قائم رہتا ہے یا نہیں؟
قیصر: تم لوگوں نے اس سے کبھی جنگ کی؟
ابوسفیان: ہاں!
قیصر: نتیجۂ جنگ کیا رہا؟
ابوسفیان :کبھی ہم غالب آئے اور کبھی وہ۔
قیصر: وہ کیا سکھاتا ہے؟
ابوسفیان:کہتا ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو، کسی اور کو خدا کا شریک نہ بناؤ، نماز پڑھو، پاکدامنی اختیار کرو، سچ بولو، صلہ رحمی کرو!
علامہ شبلیؒ لکھتے ہیں کہ اس مکالمہ کے بعد قیصر نے مترجم کے ذریعہ یہ تبصرہ کیا:
’’تم نے اس کو شریف النسب بتایا، پیغمبر اچھے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ تم نے کہا کہ اس کے خاندان سے کسی اور نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا، اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ خاندانی خیال کا اثر ہے۔ تم تسلیم کرتے ہو کہ اس کے خاندان میں کوئی بادشاہ نہ تھا، اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھتا کہ اس کو بادشاہت کی ہوس ہے۔ تم مانتے ہو کہ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، جو شخص آدمیوں سے جھوٹ نہیں بولتا، وہ خدا پر کیوں کر جھوٹ باندھ سکتا ہے۔ تم کہتے ہو کہ کمزوروں نے اس کی پیروی کی ہے تو پیغمبر کے ابتدائی پیرو ہمیشہ غریب لوگ ہی ہوتے ہیں۔ تم نے تسلیم کیا کہ اس کا مذہب ترقی کرتا جاتا ہے، سچے مذہب کا یہی حال ہے کہ بڑھتا جاتا ہے۔تم تسلیم کرتے ہو کہ اس نے کبھی فریب نہیں کیا، پیغمبر کبھی فریب نہیں کرتے۔ تم کہتے ہو کہ وہ نماز اور تقویٰ وعفاف کی ہدایت کرتا ہے، اگر یہ سچ ہے تو میری قدم گاہ تک اس کا قبضہ ہو جائے گا۔مجھے یہ ضرور خیال تھا کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے؛ لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ عرب میں پیدا ہو گا۔ اگر میں وہاں جا سکتا تو خود اس کے پاؤں دھوتا‘‘۔(سیرت النبیﷺ)
ایک مسلمان کےنزدیک قرآنِ پاک اور احادیث نبویہ کی موجودگی میں اغیار کےاقوال و آراء کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی سیرتِ رسول مقبول ﷺ ان تائیدات واقتباسات کی چنداں محتاج ہے؛ لیکن تبلیغی نقطہ نظر سےدیکھا جائے تو ان آراء کی افادیت کسی نہ کسی درجہ میں قابل تسلیم ہے۔ وہ لوگ جو اسلام پر ایمان نہیں رکھتے، قرآنِ کریم پر جن کا یقین نہیں، احادیث مبارکہ کو وقعت کی نگاہ سےنہیں دیکھتے، ان لوگوں کو ان ہی کے ہم مذہب، ہم قوم اور ہم عقیدہ دانشوروں کےبعض اقوال و تحریرات کے ذریعہ قائل کیا جا سکتا ہےیا کم از کم ان کی منافقت و تضاد بیانی کو منظر عام پر لایاجاسکتاہے۔ذیل میں صرف اسی مقصد سے چند غیر مسلم دانشوروں اور ہندو پنڈتوں کےاقوال درج کیے جارہے ہیں ۔
بعض غیر مسلم دانشوروں کی آراء:
مائیکل ہارٹ نامی ایک یہودی مصنف نے "100 عظیم آدمی"نامی ایک کتاب لکھی ہے؛جس پر اس نے (28) سال تحقیق کی اور دنیا کی تاریخ میں اپنے دیرپا نقوش چھوڑنےوالی 100 اہم ترین ،قد آور شخصیات کے بارے میںبنیادی معلومات لکھ کر اپناتجزیہ تحریر کیاہے۔ یہودی ہونے کے باوجود اس نے ہمارے پیارے نبی ﷺ کا نام ان تمام اہم ترین شخصیات میں سر فہرست رکھا ۔اور مضمون کا آغاز ان الفاظ میں کیا :
’’ممکن ہے کہ انتہائی موثر کن شخصیات کی فہرست میں محمد(ﷺ)کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چند احباب کو حیرت ہواور کچھ معترض بھی ہوں؛لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی ۔محمد(ﷺ)نے عاجزانہ طور پراپنی مساعی کا آغاز کیا اور دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا۔وہ ایک انتہائی موثر سیاسی رہنما بھی ثابت ہوئے ۔آج تیرہ سو برس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلم اور گہرے ہیں ‘‘۔(سوعظیم آدمی:مائیکل ہارٹ۔مترجم محمد عاصم بٹ ۔ص25)
نامور فاتح یورپ نپولین بونا پارٹ کا قول ہے :
’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم امن اور سلامتی کے ایک عظیم شہزادہ تھے۔ آپ نے اپنی عظیم شخصیت سے اپنے فدائیوں کو اپنے گرد جمع کیا۔ صرف چند سالوں میں مسلمانوں نے آدھی دنیا فتح کر لی۔ جھوٹے خداؤں کے پجاریوں کو مسلمانوں نے اسلام کا حلقہ بگوش بنا لیا۔ بت پرستی کا خاتمہ کر دیا۔ کفار اور مشرکین کے بت کدوں کو پندرہ سال کے عرصے میں ختم کر کے رکھ دیا۔ موسی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کے پیروؤں کو بھی اتنی سعادت حاصل نہ ہو سکی۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑے اور عظیم انسان تھے۔ اس قدر عظیم انقلاب کے بعد اگر کوئی دوسرا ہوتا تو خدائی کا دعویٰ کر دیتا‘‘۔ (بوٹا پارٹ اور اسلام)
ولیم منٹگمری واٹ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برداشت و تحمل کے حوالےسے رقم طرازہے:
’’آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا اپنے عقائد کی خاطر ظلم و ستم اور اذیت کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا، آپ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو اپنا رہنما تسلیم کرنے والوں اور آپ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )پر ایمان رکھنے والوں کا بلند اخلاقی کردار اور انجام کار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامیابی کی عظمت کی دلیل ہے۔ (حضرت) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دغا باز (نبوت کا جھوٹا دعویدار) فرض کرلینا مسائل کو بڑھاتا ہے، حل نہیں کرتا۔‘‘(Muhammad at Mecca by W.M.Watt)
سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب ’’محمد‘‘ میں جہاد کے اسلامی تصور کا ذکرکرتے ہوئے لکھتی ہیں:’’جہاد اسلام کے پانچ ارکان میں شامل نہیں اور اہل مغرب میں پائے جانے والے عام خیال کے برخلاف یہ مذہب (اسلام)کا مرکزی نقطہ بھی نہیں لیکن مسلمانوں پر یہ فرض تھا اور رہے گا کہ وہ اخلاقی ،روحانی اور سیاسی ہرمحاذ پر ایک مسلسل جدوجہد اور کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہمیشہ مصروف عمل رکھیں۔ تاکہ انسان کے لئے خدا کی منشاء کے مطابق انصاف اور ایک شائستہ معاشرہ کاقیام ہو۔جہاں غریب اور کمزور کا استحصال نہ ہو۔ جنگ اور لڑائی بھی بعض اوقات ناگزیرہوجاتی ہے۔ لیکن یہ اس بڑے جہاد یعنی کوشش کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ایک معروف حدیث کے مطابق محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) ایک جنگ سے واپسی پر فرماتے ہیںکہ ہم ایک بڑے جہاد سے چھوٹے جہاد کی طرف لوٹ کرآتے ہیںیعنی اس مشکل اوراہم مجاہدہ یا جہاد زندگانی کی طرف جہاں ایک فردکواپنی ذات اور اپنے معاشرے میں روز مرہ زندگی کی تمام تر تفاصیل میں برائی کی قوتوں پرغالب آنا ہے۔(محمد:آرمسٹرانگ،ص168)
مسز اینی بیسنٹ، آپﷺ کی جلالت شان اور آپ کی سیرت وصفات سےاثر پذیری کایوں اعتراف کرتی ہیں:
’’جو شخص بھی حضرت محمد( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) عرب کے جلیل القدر پیغمبر کی حیاتِ مقدسہ اور آپ کے عظیم کردار اور عمل کا مطالعہ کرتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے کس طرح اپنی پاکیزہ زندگی بسر کی،اس کے لیے اس کے بغیر چارہ ہی نہیں کہ وہ اس عظیم اور جلیل پیغمبر کی عظمت اور جلالت محسوس نہ کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسولوں میں بڑی عزت والے رسول تھے۔ میں جو کچھ آپ کے سامنے پیش کر رہی ہوں۔ آپ میں سے اکثر اصحاب شاید اس سے واقف بھی ہوں؛ لیکن میری تو یہ حالت ہے کہ میں جب بھی اپ کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کرتی ہوں تو میرے دل مین عرب کے اس عظیم اور لاثانی نبی کی نئی عظمت اجاگر ہوتی ہے۔‘‘(سیرت و تعلیماتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ص:4)
سوامی لکشمن جی اپنی کتاب’’ عرب کا چاند‘‘ میں آپﷺ کے تعلق سے ان خیالات کا اظہار کرتےہیں:
’’جہالت اور ضلالت کے مرکزِ اعظم جزیرہ نمائے عرب کے کوہِ فاران کی چوٹیوں سے ایک نور چمکا، جس نے دنیا کی حالت کو یکسر بدل دیا۔ گوشہ گوشہ کو نورِ ہدایت سے جگمگا دیا اور ذرہ ذرہ کو فروغِ تابشِ حسن سے غیرتِ خورشید بنا دیا۔آج سے چودہ صدیاں پیشتر اسی گمراہ ملک کے شہر مکہ مکرمہ کی گلیوں سے ایک انقلاب آفریں صدا اٹھی؛ جس نے ظلم و ستم کی فضاؤں میں تہلکہ مچا دیا۔ یہیں سے ہدایت کا وہ چشمہ پھوٹا جس نے اقلیمِ قلوب کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں سرسبز و شاداب کر دیں۔ اسی ریگستانی چمنستان میں روحانیت کا وہ پھول کھلا جس کی روح پرور مہک نے دہریت کی دماغ سوز بُو سے گھرے ہوئے انسانوں کے مشامِ جان کو معطر و معنبر کر دیا۔اسی بے برگ و گیاہ صحرا کے تیرہ و تار افق سے ضلالت و جہالت کی شبِ دیجور میں صداقت و حقانیت کا وہ ماہتابِ درخشاں طلوع ہوا جس نے جہالت و باطل کی تاریکیوں کو دور کر کے ذرے ذرے کو اپنی ایمان پاش روشنی سے جگمگا کر رشکِ طور بنا دیا۔ گویا ایک دفعہ پھر خزان کی جگہ سعادت کی بہار آ گئی۔‘‘(عرب کا چاند ص 65-66)
المختصر:ان چند اقتباسات سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم بھی رسول اکرمﷺ کی سیرت طیبہ کا غیر جانب داری وبے تعصبی سے مطالعہ کرتا ہے تو بے ساختہ آپؐ کی عظمت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج انسان بے شمار روحانی اور سماجی مسائل کا شکار ہے ان جملہ روحانی اور معاشرتی مسائل کا حل سیرت طیبہ کے عملی پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور ان کو رہنما بنا کر ان پر عمل کرنے میں پنہاں ہے۔
جواب دیں