۔ اویسی نے ستر سالوں سے ووٹ بینک کی حیثیت سے زندگی گزار رہے مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کی وکالت کی اور ان کی آواز بن کر میدان عمل میں آئے تو خود ساختہ سیکولر پارٹیوں کو محسوس ہو گیا کہ اب ان کے ایام گنے جا چکے ہیں، اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کیلئے نام نہاد لیڈروں نے اویسی صاحب پر الزام تراشی کا بازار گرم کر دیا۔۔۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب لالو پرساد کے قریبی لیڈر نے اویسی کو عظیم سیکولر اتحاد میں شامل کرنے کی بات کہی تو کچھ ہی دیر بعد لالو کی تردید اس طور پر آئی کہ اویسی شدت پسند لیڈر ہے اسلئے ہم انہیں اتحاد میں شامل نہیں کرسکتے ہیں۔۔۔ کیوں کہ ہمارے پاس کٹر واد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔ افسوس ہوتا ہے کہ خود کو سیکولر کا امام سمجھنے والے لالو جی نے ملائم سنگھ کی بیوفائی کے باوجود بھی یہ بیان دیا کہ ملائم اب بھی ہمارے نیتا ہیں اور آئندہ بھی ہمارے نیتا رہیں گے ان کے عظیم اتحاد سے الگ ہونے پر سیکولر ووٹ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔۔۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ سماجوادی پارٹی کی بہار میں کیا حیثیت ہے ۔۔۔ اس سے خود ملائم سنگھ بھی واقف ہیں انہیں معلوم ہے کہ بہار کے عوام ان کی پارٹی کو گھاس بھی نہیں ڈالیں گے ۔۔۔ پھر بھی بڑے صاحب کے اشارے پر ملائم نے سیکولر اتحاد سے رشتہ توڑ لیا مگر پھر بھی وہ لالو پرساد یادو کی کی نظر میں سیکولر کے امام اور مولانا ملائم سنگھ ہی رہے ۔۔۔ لیکن وہیں دوسری طرف جو فرقہ پرستی کے خلاف جنگ کرنے کیلئے میدان آیا اور بی جے پی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔۔۔دبے کچلے عوام کیلئے ایک امید کی کرن بن کر ابھرا تو سیکولرازم کے ٹھیکیداروں کیلئے وہ شدت پسند بن گیا۔۔۔ آر ایس ایس کا ایجنٹ اور مودی کا ہم نوا کہا جانے لگا اسے یہ کہاں کا انصاف ہے۔۔۔ اگر خدا نخواستہ بی جے پی بہار میں حکومت بناتی ہے تو کیا اس کا ذمہ دار اویسی ہے یا وہ تین محاذ جس کے علم بردار خود کو سیکولر ازم کا امام تصور کرتے ہیں۔ کشمیر میں تو اویسی نہیں گئے تو پھر کیسے بی جے پی کی حکومت بنی۔۔۔ اور جھارکھنڈ میں بھی تو حکومت آئی کیا وہاں بھی اویسی کی طاقت کار فرما تھی۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کامیاب صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جن میں ہواؤں کے رخ کو بدلنے کی طاقت ہوتی ہے اور جو تیز و تند طوفان میں بھی شمع روشن کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔۔۔پرتکلف اور آرام دہ منقش حجرے میں بیٹھ کر چند مشورے دئے جاسکتے ہیں لیکن میدان میں آکر ان کو عملی جامہ پہنانا ہر کس و نا کس کے بس کا کھیل نہیں ہے۔۔۔ اسد الدین اویسی نے بہار الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو غیر تو غیر اپنے بھی نالاں ہو گئے، مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کی بات کی تو فرقہ پرستی کے زمرے میں کھڑے کردیئے گئے، مہاراشٹر الیکشن میں بی جے پی کی فتح کا اصل ذمہ دار بھی اویسی صاحب کو قرار دیدیا اور اب بہار میں بھی عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جا رہی ہے کہ اویسی صاحب کی آمد سے بی جے پی کا فائدہ ہوگا مسلمان بالخصوص سیمانچل کا علاقہ جو مسلم اکثریتی علاقہ ہمیشہ سے ہی پسماندگی کا شکار رہا ہے آزادی کے بعد سے آج تک کبھی بھی اس علاقہ کے عوام کو ایسا قائد نہیں مل سکا جو ان کے ساتھ ساتھ قدم ملا کر چلے، ایسی صورت میں اگر اویسی کی آمد سے بالفرض بی جے پی کو ووٹوں کی تقسیم کی بنا پر فائدہ ہو جاتا ہے تو اس کے علاوہ اور کیا ہوگا کہ ان عوام کا مزید پانچ سال گزشتہ ستر سالوں کی طرح بے ثمر رہے گا لیکن اگر مسلمان متحد ہوگئے اور اپنے اس مسیحا کو پہچان لیا تو ان کے اگر گزشتہ کے ستر سال لوٹائے نہیں جا سکے تو ان کا مداوا تو ضرور کیا جائے گا۔
آج لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ مسلمان صرف ووٹ بینک کی حیثیت سے استعمال کی جانے والی چیز ہے انہیں اپنے حقوق مانگنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔۔۔ سیکولر جو چاہے بن جائے لیکن سیکولرازم کے حفاظت کی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر ہے۔۔۔ مسلمانوں سے قربانی لی جاسکتی ہے ، انہیں قربان کیا جاسکتا ہے ، لیکن ان کی خاطر قربانی نہیں دی جا سکتی ہے۔۔۔ سیکولر اتحاد صرف اس لئے وجود میں آیا کہ انہیں بی جے پی کو روکنا ہے ۔۔۔ اور اسی کام کیلئے اویسی بھی میدان میں آئے ہیں اور وہ صرف 24 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں تو کیا یہ ممکنات میں سے نہیں ہے کہ جس طرح اویسی صاحب نے 24 سیٹ کے علاوہ سب بی جے پی اور سیکولر اتحاد کو ٹکرانے کیلئے چھوڑ دیا ہے۔۔۔ سیکولر اتحاد بھی ان 24 سیٹوں کو صرف اویسی اور بی جے پی کیلئے چھوڑ دے بصورت دیگر سیکولرازم کا نقصان ہو گا۔۔۔ لیکن یہ ممکنات میں سے نہیں ہے۔۔۔ اور اس صورت میں مسلمانوں کو ان کا حقیقی قائد مل جائے گا جسے یہ نام نہاد سیکولرازم کے ٹھیکیدار کسی بھی صورت برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ سیمانچل کے عوام کو چاہئے کہ وہ اپنی یکجہتی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کو ووٹ دیں جو ان کے لیے ایوان اسمبلی میں حقیقی رہنمائی کرسکیں اور وہ اسد الدین اویسی کی مجلس اتحاد المسلمین میں بدرجہ اتم موجود ہے جس طرح اویسی پارلیمنٹ میں دھاڑتے ہیں اور مسلمانان ہند کی ترجمانی کرتے ہیں اسی طرح ان کی پارٹی بہار کے ایوان میں مسلمانوں اور پچھڑوں کے حقوق کے لیے لڑے گی۔۔۔ بصورت دیگر اگر وہاں سے بی جے پی یا دیگر کا امیدوار کامیاب ہوتا ہے تو نتیجہ مہاراشٹر اسمبلی الیکشن اور کشمیر اسمبلی الیکشن سے سبق حاصل کیاجاسکتا ہے۔
جواب دیں