اُوم اور گائے کا نام لینے سے بجلی کا جھٹکا نہیں لگتا

وزیر اعظم نریندر مودی سے صاف صاف باتیں 

عبدالعزیز

    مودی جی اکثر جو باتیں کہتے ہیں اور کام کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے کرتے ہیں۔ اس کے نتائج سے بے پر وا ہو کر کرتے ہیں۔ اس کے دور رس نتائج کیا ہوں گے کبھی نہیں سوچتے۔ اپنے بارے میں کبھی کبھی ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جو انہیں کے خلاف ہو جاتی ہیں۔ مثلاً انہوں نے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ”میں پینتیس سال تک بھیک مانگ کر کھایا۔“ اب آپ سوچئے کہ کوئی آدمی جو سات سال کی عمر سے لے کر بیالیس سال کی عمر تک بھیک مانگتا ہو، اس کے بارے میں لوگوں کی کیا رائے ہوگی۔ یہی رائے ہوگی کہ وہ محنت و مشقت سے جی چراتا ہوگا۔ ہٹا کٹھا ہونے کے باوجود بھیک مانگتا ہوگا، کسی سے بھیک مانگنا باعثِ شرم ہے۔ مودی جی کہنے کو تو کہہ دیتے ہیں مگر اس سے ان کی اپنی توہین اور بے عزتی ہوتی ہے، اور یہی پتہ چلتا ہے کہ سچائی اس میں نہیں کے برابر ہے۔ ظاہر ہے جو ان کی سوانح حیات ہے اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ اب آپ سوچئے اگر 35سال تک انہوں نے بھیک مانگی ہے تو گودھرا اسٹیشن پر چائے بیچنے کا انہیں کب موقع ملاہوگا اور کس عمر میں چائے بیچی ہوگی۔ چائے بیچنے کا بھی معاملہ یہ ہے کہ لوگ بتاتے ہیں وہ اپنے چچا کے چائے خانے میں بیٹھ کر گپ مارتے تھے۔ انہوں نے چائے کبھی فروخت نہیں کی۔ اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں، وہ کہہ تو جاتے ہیں ان کے متوالے بغیر سوچے سمجھے مان بھی لیتے ہیں لیکن جو لوگ تجزیہ نگار ہیں وہ تجزیہ کریں گے ہی اور کچا چٹھا باہر کرنے کی کو شش کریں گے۔
     گزشتہ روز متھورا شہر کی ایک ریلی میں وزیر اعظم نے کہا جب کچھ لوگ اُوم اور گائے کے الفاظ سنتے ہیں تو ان کو بجلی کا جھٹکا(Electric Shock) سالگ جاتا ہے۔انہوں نے اس قدر فنکاری کے انداز میں کہا کہ سامعین کو لگا ہوگا کہ مودی جی صحیح کہہ رہے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ گائے ایک سیدھی سادی جانور ہے۔ ہندو مسلمان سبھی اسے پالتے پوستے ہیں۔ اس سے کسی کو تکلیف نہیں ہوتی، اگر کسی کو گائے سے الیکٹرک شاک لگ جاتا ہو تو بھلا وہ گائے کیسے پالتا۔ اُوم ہندو بھائی پوجا کے وقت یا یوگا میں جپتے ہیں۔ اگر کوئی خاموشی سے کسی کو تکلیف دیئے بغیر ادا کرتا ہے تو کیسے کسی کو پریشانی ہو سکتی ہے، لیکن مودی جی کو معلوم ہے کہ ملک میں جے شری رام کے جپنے کے بجائے غلط لوگ مسلمانوں کو زور زبر دستی جے شری رام کہنے پر مجبور کرتے ہیں اور اگر نہیں کہتا ہے تو اسے قتل بھی کر دیتے ہیں۔ مودی جی سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کیا یہ عبادت ہے، پوجا ہے، تپسیا ہے یا قتل و غارت گری ہے۔ اگر وہ ملک میں امن و امان چاہتے تو اسے بند کرانے کی ہر ممکن کو شش کرتے اور سب سے شرمناک بات تو یہ ہے کہ اسے ٹی وی چینلوں پر اور سوشل میڈیا میں دکھایا جاتا ہے تا کہ مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہو۔ متھورا میں جو انہوں نے کہا یہ ان کا جارحانہ انداز ہے اور ان کا روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کسی کے کھانے پینے کے عادات میں مداخلت غیر قانونی ہے۔ ہر ایک کو اپنی اپنی خواہش کے مطابق قانوناً ملک میں کھانے پینے، پہننے، رہنے سہنے، پوجا پوٹ یا عبادت کی آزادی ہے۔ کسی کے باورچی خانے میں جانا فریج کھول کر گائے کا گوشت یا کوئی گوشت تلاش کرنا اور اگر گوشت نہ بھی ہو تو اسے موت کے گھاٹ اتار دینا کہاں کا انصاف اور کہاں کا مذہب ہے؟ کیا ہندو دھرم اس کی اجازت دیتا ہے؟ مودی جی نے اپنی مذکورہ تقریر سے فرقہ پرستوں اور ہجومی دہشت گر دوں کو غذا اور خوراک فراہم کرنے کی کو شش کی ہے جو میرے خیال سے وزیر اعظم کو جو صرف سنگھ پریوار کا وزیر اعظم نہ ہو بلکہ ملک کے سب شہریوں کا وزیر اعظم ہو زیب نہیں دیتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک وہ صرف انہی لوگوں کے وزیر اعظم ہیں جو ان کے عقیدے اور فلسفے کو مانتے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے گزشتہ جنرل انتخابی نتائج کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ میں ان کا بھی وزیر اعظم ہوں جنہوں نے ہمیں ووٹ دیااور جنہوں نے نہیں دیا۔ مگر یہ بات بھی’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کی طرح خالی کھولی یا رسمی الفاظ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جس پر نہ مودی جی عمل کرتے ہیں اور نہ ان کا سنگھ پریوار۔ نہ مودی جی چاہتے ہیں کہ کوئی اس پر عمل کرے۔ محض دنیا کو دکھانے اور سمجھانے کے لئے ایسی سندر اور خوبصورت باتیں کرتے ہیں۔ لیکن اس کی تہہ میں فرقہ پرستی موجود ہوتی ہے، جس پر ان کے فدائی اور عاشقِ زار قانون کو ہاتھ میں لے کر عمل کرتے ہیں۔ انگریزی روزنامہ دی ٹیلی گراف نے آج (14.09.2019) کے اداریے میں مودی جی کی متھورا کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوے لکھا ہے کہ:
 "The prime minister’s emphasis on‘Om’and the‘cow’was unmistakeably a reminder of the Hindutva tone the BJP believes to be characteristic of Indian culture. No wonder the prime minister said that those who think that‘taking the name of cow’pulls back the country to the past have destroyed everything in India.
There is a minor inconvenience around still: it is called the Constitution. According to this founding text

«
»

شریعت اسلامیہ میں نماز کی قضا کا حکم

شہادت حسین ؓ ایک سبق،ایک پیغام۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے