اوباماکی پسپائی …….؟

دراصل شام میں ممکنہ مداخلت کے پیچھے امریکاکے مشرقِ وسطیٰ میں موجودبہت سے مفادات کارفرماہیں جس میں ایران کووارننگ،اسرائیل مخالف عسکری قوتوں کوکمزورکرنااورخطے میں امریکی اثرورسوخ بڑھاناشامل ہیں۔امریکاشام پر حملہ کرکے ایران کووارننگ دیناچاہتاہے کیونکہ بہت سے ایٹمی ماہرین مختلف اوقات میں اس بات کاانکشاف کرچکے ہیں کہ ایران ایک خاص حدتک اپنے ایٹمی پروگرام میں کامیابی حاصل کرچکاہے۔
شام پرحملے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ امریکامشرقِ وسطیٰ میں موجوداپنے سب سے مضبوط اتحادی اسرائیل کومحفوظ بناناچاہتاہے جس میں حزب اللہ سرِفہرست ہے۔یادرہے کہ شام میں خانہ جنگی شروع ہونے سے قبل حزب اللہ مختلف اوقات میں اسرائیل پرحملے کی دہمکیاں دے چکاہے مگرشام خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد حزب اللہ نے اپنارخ بشارالاسد کی حمائت میں شام میں موجودحزب اختلاف سے لڑنے کی جانب کرلیاہے اورظاہرہے جب امریکاشام پرحملہ کرے گاتوشام میں موجودحزب اللہ کی عسکری قوت کوبھی نشانہ بنائے گا جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خطے میں جس قوت سے اسرائیل کوخطرہ لاحق ہوگاامریکااس کومکمل تباہ کرنے کی پوری کوشش کرے گاتاکہ یہ خطرہ ہمیشہ کیلئے ختم کیاجاسکے۔ شام پرحملے کی تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ امریکامشرقِ وسطیٰ میں اپنے اثرورسوخ کوناقابل تسخیر بناناچاہتاہے کیونکہ عراق میں ناکامی کے بعدایک خاص حدتک مشرقِ وسطیٰ پرامریکی گرفت کمزورہوچکی ہے۔
سیاسی اوردفاعی تجزیہ نگارامریکاکے اس طرزِ عمل پربھی شکوک وشبہات کااظہارکررہے ہیں کہ جب روائتی ہتھیاروں سے ایک لاکھ کے قریب شامی شہریوں کوہلاک کیاگیاتوامریکا متحرک نہیں ہوالیکن ایک لاکھ کے مقابلے میں دوہزارافرادکومبینہ کیمیائی ہتھیاروں سے ہلاک کیاگیاتوامریکانے یہ معاملہ عالمی سطح پراٹھاکرشام پرممکنہ حملے کی دہمکی دے ڈالی جس سے یہ بات واضح طورپرظاہرہورہی ہے کہ امریکا کوڈرتھاکہ مستقبل قریب میں ان ہتھیاروں کواسرائیل کے خلاف استعمال نہ کرلیاجائے اس لئے امریکااپنے اہم اتحادی اسرائیل کومحفوظ بنانے کیلئے ان کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کیلئے اقدامات کر رہا ہے۔واضح رہے شامی خانہ جنگی شروع ہونے سے قبل شام اوراسرائیل کے تعلقات بہت کشیدہ تھے اور حزب اللہ کی طرح شامی حکومت نے بھی مختلف اوقات میں اسرائیل پرحملہ کرنے کی دہمکی دی تھی مگر ۲۰۱۱ء میں عالمی طاقتوں نے شام کوخانہ جنگی کاشکارکردیا۔شام پرحملہ کرنے کیلئے امریکاجی ۲۰ کانفرنس میں عالمی برادری کے بڑے ترقی یافتہ اورترقی پذیرممالک کوآمادہ نہ کرسکا جس میں چین اورروس سرِ فہرست ہیں۔
جی ۲۰/اجلاس رسمی طورپرتوعالمی معیشت کیلئے بلایاگیاتھامگراجلاس میں غیررسمی طورپرشام موضوع بحث بنارہا۔روس نے واضح طورپرکہاکہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیرشام پرحملہ کھلی جارحیت ہوگی ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعدشام پرممکنہ امریکی حملے کی روس نے کھل کربھرپورمخالفت کی اورماسکوسے جاری ہونے والے بیان میں کہاگیاہے کہ اگرامریکا نے شام پرحملہ کیاتووہ شام کے ساتھ مل کرلڑے گا ۔ چین نے بھی شام پرممکنہ امریکی حملے سے متعلق روس کی بھرپورحمائت کی اورواضح کیاکہ شام پرحملہ کیاگیاتواس سے عالمی معیشت پرگہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے اوراس سے عالمی سطح پرتیل کی قیمتوں میں مزیداضافہ ہوسکتاہے۔شام کے معاملے پرروس اورچین نے امریکاکی مخالفت کرکے مستقبل قریب میں دنیامیں طاقت کے توازن میں تبدیلی کاکھلااشارہ دے دیاہے ۔
جی۲۰/اجلاس سے قبل امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے شام پرحملے کی قرارداد کے مسودے کی منظوری دے دی ہے جس پررواں ہفتے امریکی کانگرس میں رائے شماری ہو گی ۔ اد ھر امریکی صدر اوباما واضح طورپرکہہ چکے ہیں کہ امریکی انٹیلی جنس کے پاس ایسے ٹھوس شواہدموجودہیں جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ بشارالاسد کی حکومت نے ۲۱/اگست۲۰۱۳ء کو اپنے شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیاہے جبکہ اس کے برعکس مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق اوباماکے اعلیٰ معاون کاکہناہے کہ ٹھوس ثبوت دستیاب نہیں ہیں ۔ دوسری جانب ڈیوڈکیمرون کاکہناہے کہ برطانیہ کودمشق میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے نئے شواہد ملے ہیں اورامریکاکی جانب سے شام پر حملہ نہ کرناغلطی ہوگی جبکہ برطانوی اخبارکے مطابق شام میں استعمال ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والاسوڈیم فلورائیڈ برطانیہ سے آیاتھااورشامی کمپنیاں مسلسل چھ سال (۲۰۰۴ء۔۲۰۱۰ء)تک برطانیہ سے مہلک کیمیکلزبرآمدکرتی رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت اورانٹیلی جنس ادارے اس بات سے اچھی طرح باخبرتھے کہ شام میں برطانیہ سے درآمد شدہ مہلک کیمیکلز کی مددسے کیمیکل ہتھیارتیارکئے جا رہے ہیں۔شام کے معاملے پرسعودی عرب نے کہاہے کہ وہ شامی حکومت کے خلاف کسی بھی عالمی اتحادکاحصہ بننے کیلئے تیارہیں۔اس سلسلے میں پچھلے ہفتے امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے انکشاف کیاتھاکہ عرب ممالک نے شام پرحملہ کرنے کیلئے مالی معاونت کی بھی پیشکش کی ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیرمسعوداحمد نے مختلف ذرائع ابلاغ سے گفتگوکرتے ہوئے شام پرممکنہ امریکی حملے کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ اس سے خطے میں شدیدانتشارپیداہوجائے گاجبکہ یورپی یونین نے اقوام متحدہ کی کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق رپورٹ آنے سے قبل شام پرفوجی کاروائی کی مخالفت کردی ہے۔یہ بات یورپی یونین کے ۲۸ رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں سامنے آئی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنربرائے انسانی حقوق ناوی پلے کاکہناہے کہ شام کے خلاف فوجی کاروائی بڑے تصادم کاپیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے ۔انہوں نے اس مسئلے کوسفارتی طریقے سے حل کرنے پرزوردیاہے۔
شام امریکاکیلئے ایسی گولی بن چکاہے جسے بآسانی نہ نگلا جاسکتاہے اورنہ ہی اگلاجاسکتاہے،اسی لئے اوبامانے امریکی ٹی وی چینل کوانٹرویودیتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی اس تجویزکومثبت اقدام قراردیا جس میں روس کی جانب سے کہاگیاتھاکہ شام میں موجودہ کیمیائی ہتھیاروں کوختم کرنے کیلئے فوجی کاروائی سے گریز کیاجائے اورشام پر حملہ کئے بغیرکیمیائی ہتھیاروں کوبین الاقوامی تحویل میں لیکرتباہ کردیا جائے ۔ چین،ایران اورشامی حکومت نے روس کی تجویزکی حمائت کااعلان کیاہے۔فرانس کی جانب سے بھی اس کی حمائت میں ایک بیان آیاہے کہ فرانس جلدسلامتی کونسل میں ایک قراردادپیش کرے گاجس میں شام سے کہاجائے گاکہ وہ اپنے کیمیائی ہتھیاربین الااقوامی تحویل میں دیدے تاکہ ان ہتھیاروں کوتلف کردیاجائے اورممکن ہے کہ اس کے بعدشام پرفوجی حملہ نہ کیا جائے ۔ امریکا اورفرانس کے مؤقف میںآنے والی لچک کی بظاہر وجہ عالمی سطح پرمکمل حمائت کا نہ ملنامعلوم ہوتی ہے کیونکہ خودبرطانیہ کی پارلیمنٹ شام پرحملے کی مخالفت کرچکی ہے۔
موجودہ صورتحال کوسامنے رکھتے ہوئے اگرامریکاشام پرحملہ کرتاہے توپھرروس اورچین کی طرف سے شدیدردعمل سے دنیاکسی عالمی جنگ کی طرف جاسکتی ہے جس کیلئے کوئی بھی تیارنہیں اوراگرامریکاحملہ نہیں کرتاتوعالمی سطح پرامریکاکی ساکھ کمزورہوجائے گی اورامریکاکادنیاپرسپرپاورہونے کابھرم خاک میں مل جائے گا۔امریکانے فی الحال پینترہ بدلتے ہوئے اپنی ساکھ کوبربادہونے سے بچانے کیلئے روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف اور ان کے امریکی ہم منصب جان کیری کے درمیان تین روز تک جنیوا میں جاری بات چیت کے بعد ایک چھ نکاتی منصوبے پر متفق ہوگئے ہیں جس کے تحت ۲۰۱۴ء کے وسط تک یہ ہتھیار شام سے منتقل یا پھر تلف کر دئیے جائیں گے۔بات چیت کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دونوں وزرائے خارجہ کا کہنا تھا کہ سمجھوتے کے مطابق شام کو لازمی طور پر کیمیائی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے سے متعلق دئیے گئے وقت کی پابندی کرنا ہو گی۔روسی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ طے شدہ سمجھوتے میں اس بات کا ذکر نہیں کہ اگر شام اس ٹائم فریم کی پابندی نہیں کرتا تو اس کے خلاف ممکنہ طور پر طاقت کا استعمال ہوگا لیکن کسی قسم کی خلاف ورزی کا جائزہ سلامتی کونسل میں لیا جائے گالیکن شام کے اس قضئے کے بعددوعالمی طاقتوں کی سردجنگ کے بعدیہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ روس نے اپنے کھوئے ہوئے مقام کی طرف بروقت پیش قدمی کرتے ہوئے کامیابی کے پہلے زینے کوعبورکرلیاہے۔

«
»

شام پر امریکہ کا حملہ اس وقت ہی کیوں۔۔۔اصول مقصود یا اپنے مفادات؟

گوپال گڑھ کی صبح امن کب آئے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے