یہاں ایک غلط فہمی کو دور کرتے چلیں توبہتر ہوگا ‘عیسائیوں اور یہودیوں سے مراد وہ عیسائی اور یہودی ہیں جو ’صہیونی‘نظریات پر عمل پیراہیں اورجن کا’مقتدرہ‘یا’تھنک ٹینک‘ان دنو ں رات دن سرجوڑے اسی ادھیڑبن میں لگا ہوا ہے کہ کیسے عالمِ اسلام پر غلبہ حاصل کیا جائے ۔
بات اوبامہ کی چل رہی تھی۔
اوبامہ نے عراق پر پھر سے امریکی حملے شروع کرادئیے ہیں۔’داعش‘یا دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں یا جہا دیوں کے ٹھکانوں پر امریکی بمبار طیارے نشانے باندھ کر بمباری کر رہے ہیں۔اگر یہ بمباری صرف اس وجہ سے کی جاتی کہ ’داعش‘کی وجہ سے عرا ق اور اطراف کے مسلم ممالک میں امن وامان کو خطرہ لاحق تھا اور اس جہادی تنظیم کے حملوں میں بڑی تعداد میں بے قصور شہریوں کی جانیں جانے کااندیشہ تھا تب بھی بات سمجھ میں آتی اور امریکہ اور صدرامریکہ اوبامہ کی نیت پرشک وشبہ کے باوجود کسی حد تک بھروسہ کیاجاسکتا لیکن جب یہ حملے صرف عیسائیوں کو بچانے کے لیے کیے جا رہے ہوں توپھر نہ امریکہ کی نیت قابل بھروسہ رہ جاتی ہے اور نہ ہی صدرامریکہ اوبامہ کی نیت۔
صدرامریکہ نے ’داعش‘کے ہاتھوں عیسائیوں او ریزدیوں پر حملوں کو’نسل کشی‘(Genocide)قرا ردیا ہے۔اگر وہ صرف لفظ ’نسل کشی‘ہی استعمال کرتے تب بھی غنیمت تھا‘حالانکہ ’داعش‘کے حملے ابھی ’نسل کشی ‘کے زمرے میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔لیکن موت چاہے ایک شخص کی ہویا ہزاروں اور لاکھوں افراد کی‘اگر یہ موت یا اموات بے قصوروں کی ہیں تویہ انسانی نکتہ نظر سے بھی اوراسلامی نکتہ نظر سے بھی ’گناہ ‘اور’ظلم ‘کہلائیں گی۔اور سچ تویہی ہے کہ اسلامی ممالک نے عراق کے اقلیتی فرقوں مثلاً عیسائیوں اور یزدیوں پر ’داعش‘کے حملوں کی حمایت نہیں کی ہے۔اس لیے اگر امریکہ اور یوروپی ممالک’داعش‘کے حملوں کو مذہب اسلام اورمسلمانوں سے جوڑ کر دیکھتے ہیں تو یہ ان کی اپنی نظر کا قصور ہے مسلمانوں اور مذہب اسلام کانہیں۔
بات پھر اوبامہ کی کرتے ہیں۔
اوبامہ نے عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کے احکامات دیتے ہوئے جو الفاظ ادا کیے ذرا ان پر ایک نظرڈال لیں۔صدرامریکہ نے کہا:’’امریکہ داعش کے ہاتھوں اقلیتی فرقے عیسائیوں اوریزدیوں کے قتلِ عام پرآنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھ سکتا۔‘‘گویا یہ کہ صدرامریکہ نے حملوں کامقصد واضح طور پر ظاہر کردیا ہے کہ ’داعش‘کے جنگجو چونکہ عیسائیوں پرحملے کر رہے ہیں اوران کی بستیوں پرقبضے کر رہے ہیں اس لیے امریکہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا۔آسان لفظوں میں یہ کہاجا سکتا ہے کہ صدرامریکہ بارک حسین اوبامہ نے ’داعش‘کے ٹھکانوں پر امریکی حملوں کو’مذہب ‘سے جوڑدیاہے اوراس طرح درپردہ انہوں نے وہی بات کہی ہے جو9/11کے بعد جارج بش جونیر نے کہی تھی یعنی ’صلیبی جنگ‘کی بات۔
عیسائیوں کے ساتھ جن یزدیوں کا ذکر کیاجا رہا ہے وہ ایک عجیب وغریب عقیدہ رکھنے والا فرقہ ہے۔اس فرقے کو یزیدی بھی کہا جاتاہے۔ایک پروپیگنڈہ یہ بھی ہے کہ اس فرقے کی بنیاد بنوامیہ بالخصوص یزیدسے ہے مگر یہ پروپیگنڈہ بے بنیادہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بنیادی طورپر ایران کے مجوسیوں سے تعلق رکھتے ہیں اوران کے پروردگار یعنی ایزد(بامعنی خدا)کے نام پریزدی کہلاتے ہیں مگر اس کی کوئی حتمی شہادت موجود نہیں ہے سوائے اس کے کہ یزدیوں کے عبادت خانے مشرق اورمغرب کے رخ ہوتے ہیں اور عبادت خانوں میں سورج کی تصویریں آویزاں ہوتی ہیں۔اس فرقے کو قرآن اور بائبل دونوں ہی سے عقیدت ہے مگر ان کے عبادت خانے بالکل عیسائی گر جا گھروں کی طرح ہوتے ہیں صرف یہی نہیں ان کی پوشاک بھی عیسائی راہبوں اور راہباؤں جیسی ہوتی ہے اور عبادت کی چندرسمیں بھی عیسائیوں ہی جیسی ہیں جیسے کہ اپنے مذہبی رہنماکے ہاتھوں روٹی کو دو ٹکڑے کروانے کے بعد چبانا اور سرخ شراب پینا۔۔۔ یہ رسم کیتھلک عیسائیوں میں پائی جاتی ہے۔گویا یہ کہ یزدی اسلام سے دور مگرعیسائیت کے بڑی حد تک قریب ہیں اور عیسائی مشنری مسلسل ان کے درمیان سرگرم ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ عراق کے عیسائیوں اور یزدیوں یعنی متوقع عیسائیوں کو بچانے کے لیے ’داعش‘پر حملے کر رہا ہے توبہت غلط نہیں ہوگا‘لیکن یہ کہنا کہ یہ حملے صرف عراقی اقلیتوں کے مفادات اورحفاظت کے لیے کیے جا رہے ہیں سراسر غلط ہے۔
ماضی میں امریکہ ایسے ہی کئی حملے ان ملکوں پر کر چکا ہے جہاں اس کے بقول عیسائی آبادی خطرے میں تھی۔مثال سوڈان کی لے لیں،جب دار فرکا بحران سنگین صورتحال اختیار کرگیاتھاتب امریکہ نے جنونی سوڈان کے عیسائیوں کی حفاظت کے نام پر حملے کیے تھے اور ان حملوں کے نتیجے میں سوڈان پہلے نظریاتی طور پر پھر زمینی طورپر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔سوڈان دنیائے اسلام کا سب سے بڑا ملک تھا جوآج دوٹکڑے ہے۔انڈونیشیا میں تمورکے عیسائیوں کی ’حفاظت‘کے نام پر امریکہ نے جو کھیل کھیلا اسے بھی یہ دنیاخوب جانتی ہے۔آج تمورایک علیحدہ ملک ہے۔امریکی حملوں کو بھی مذکورہ تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
امریکہ یوروپی حلیفوں کی مدد سے ان دونوں ساری دنیامیں مختلف مذہبی شناختوں کے تصادم کو ہوا دے رہا ہے اوراس کامطلب جہاں اقوام سفید یا عالم عیسائیت کو مضبوط کرنا ہے وہیں دوسرا مقصد عالم اسلام پر غلبہ حاصل کرناہے۔عالم اسلام پر غلبہ اکیلے امریکہ کے بس کی بات نہیں ہے اس لیے اس نے ان ممالک کو بھی اپناہمنوا بنالیا ہے جو اس کے نظریات کے حامی ہیں‘ان میں یوروپی ممالک بالخصوص برطانیہ اور فرانس توخیرآگے آگے ہیں ہی مشرقِ وسطیٰ میں ان ممالک کی ناجائزاولاد اسرائیل بھی اس میں شامل ہے۔صہیونی مقتدرہ یہ چاہتا ہے کہ جزیرہ نماعرب اورمسلم افریقہ پر اسرائیل کی چودھراہٹ قائم کردے اوراس طرح صہیونی نظریات کے حامی عیسائیوں اور یہودیوں کے مشترکہ مفادات کا تحفظ بھی کرے‘انہیں تقویت بھی پہنچائے اوران کی تکمیل کابدکام بھی انجام دے۔مشرق وسطیٰ میں عربوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کرکے اسرائیل کا ناجائز وجوداسی لیے قائم کیا گیاتھا اوراب کوشش ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیہ کوبھی درہم برہم کردیاجائے۔عراق کے ٹکڑے کرنے کی سمت اس نے قدم بڑھا دیاہے۔ترکی کے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ بھی اس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔سعودی عربیہ ،افغانستان اور پاکستان کے ٹکڑے بھی اس کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
عراق پر حملے کے لیے’انسانیت‘کی جودہائی دی جارہی ہے اس پرغور کرنا ضروری توہے مگرعراقی اقلیتوں کے وجود اوربقاکے لیے یہ جو ہنگامہ جاری ہے اس سے امریکہ بلکہ سارے یوروپ کاجو دوغلا چہرہ عیاں ہوکر سامنے آجاتاہے اس کو دیکھنا بھی ضروری ہے ۔عراق میں شیعہ اور سنی فرقے میں تصادم کا ذمے دارکون ہے؟امریکہ۔۔۔یہ امریکہ اوراس کے حلیف ممالک برطانیہ اورفرانس ہی تھے جنہوں نے صدام حسین کی حکومت کونیست ونابود کرکے وہاں انارکی پھیلائی اور مسلمانوں کے دو بڑے فرقوں شیعوں اور سنیوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیا۔نوری المالکی کو سنیوں پر جبر کی مکمل چھوٹ دی۔سعودی عربیہ اورایران کو شیعہ اورسنی کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراکیا۔شام میں مسلکی تنازعے کو پرتشدد ہوا دی ۔یہ سب امریکہ ہی نے کیا۔اس نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ عراق میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان پرامن ماحول پیدا کرے اورانہیں بھائی چارہ کا درس دے کرایک جمہوری اور پرامن عراق کی تعمیر کے لیے کھڑا کرے۔امریکہ کو نہ عراق کے ’سنی اقلیت‘کی تکلیفیں نظرآئیں اور نہ’داعش‘کے شیعہ اکثریت پرجارحانہ حملے خراب لگے !امریکہ کا دوغلا چہرہ مزید دیکھیں۔
غزہ میں فلسطینیوں کی ’نسل کشی‘اس کی نظروں میں کبھی بھی ’نسل کشی‘نہیں رہی کیونکہ یہ صہیونیوں کے ہاتھوں بے بس مسلمانوں کا قتل عام ہے اس لیے اسرائیل کومکمل چھوٹ ہے۔اسرائیل ظالم ہے یہ ساری دنیاجانتی ہے مگرامریکہ نے اس کے ٹھکانوں پر کبھی بھی ’داعش‘کے ٹھکانوں پرکیے گئے حملوں کی طرح کے حملے کرنے کا تصور نہیں کیا!
افسوس کہ امریکہ اور یوروپ کا دوغلاچہرہ خوب عیاں ہے مگر کچھ اسلامی ممالک۔۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی بھی باری آنے والی ہے۔۔۔امریکہ او ریوروپ کی پیٹھ ٹھونکے جا رہے ہیں۔یہ غزہ کے اپنے مسلمانوں بھائیوں کی مدد کرنے سے قاصرہیں بلکہ آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس(اوآئی سی)کے سکریٹری جنرل ایادامین المدنی بڑی ڈھٹائی سے بزدلانہ بیان دیتے ہیں کہ’عرب ممالک فلسطینیوں کی مددنہیں کر سکتے۔‘جوازمیں وہ اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی ماضی کی شکستوں کا حوالہ دیتے ہیں!عالمِ اسلام کا ایک طبقہ جو حرص کامارا ،مفادات کااسیر،مذہب بیزار،اپنی تاریخ سے نابلد،مغرب کی طاقت سے خوفزدہ اوراس کے کلچرسے مرعوب ہے امریکہ اور یوروپ کا کھل کر ساتھ دے رہا ہے بلکہ غزہ اورعراق پرحملوں کو درست قرار دے رہا ہے۔
افسوس ہے اس ذہنیت پر!
اپنی بات میں ایک عرب کالم نگار خالد المعیناکے ایک کالم کی ان سطروں پر کرتا ہوں جو صرف عربوں کو ہی نہیں سارے عالمِ اسلام کو غور وفکر کی دعوت دیتی ہیں:
’’آپ امریکہ کی کسی دوسرے عرب ملک پر حملے اور چڑھائی کے لیے مدد لے سکتے ہیں لیکن آپ اقوام متحدہ میں اس سے سیاسی یا سفارتی ہمدردی کاایک اونس بھی نہیں لے سکتے۔اس وقت جب کہ بہت سے دیانت دار اورمحب وطن عرب یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم اکیلے ہیںآئیے ہم اپنے لیے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھیں۔‘‘
جواب دیں