تحریر: جاوید اختر بھارتی یہ دنیا ہے ، یہاں عجیب عجیب طرح کے لوگ ملتے ہیں کوئی کسی انداز میں خوش رہتا ہے تو کوئی کسی انداز میں ، الگ الگ مزاج بھی ہوتے ہیں، الگ فطرت بھی ہوتی ہے کام کرنے والے لوگ بھی ملیں گے اور کام میں رخنہ ڈالنے والے […]
یہ دنیا ہے ، یہاں عجیب عجیب طرح کے لوگ ملتے ہیں کوئی کسی انداز میں خوش رہتا ہے تو کوئی کسی انداز میں ، الگ الگ مزاج بھی ہوتے ہیں، الگ فطرت بھی ہوتی ہے کام کرنے والے لوگ بھی ملیں گے اور کام میں رخنہ ڈالنے والے لوگ بھی ملیں گے اور کام بگاڑنے والے لوگ بھی ملیں گے ہاں کام کو مزید بہتر بنانے والے بھی ملیں گے، دوسروں پر انگلی اٹھانے والے اور خود اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے والے بھی ملیں گے، مشورہ دینے والے تو ہزاروں کی تعداد میں ملیں گے لیکن مشوروں کو عملی جامہ پہنانے والے کم ملیں گے اسی طرح کچھ لوگوں کا مزاج ہوتا ہے کہ ہم سے ضرور مشورہ لیا جائے ، کوئی کمیٹی تشکیل دی جائے تو ہم کو سربراہ بنایا جائے اور نہ بنانے کی صورت میں وہ ناراض بھی ہوجاتے ہیں اور کمیٹی و ادارے اور مشن کو نقصان بھی پہنچا تے ہیں ظاہر بات ہے کہ ایسی ذہنیت رکھنے والے سستی شہرت کے بھوکے ہوتے ہیں وہ اپنی بڑائی اور سرخروئی چاہتے ہیں اور ایسے لوگوں سے سماج و قوم کا بھلا نہیں ہوسکتا ہر حال میں یہ بات ذہن نشین رہنا چاہئے کہ تنقید برائے تنقید ہے تو نقصان ہی نقصان ہے اور تنقید برائے تعمیر ہے تو اس سے بہتر نتائج نکلتے ہیں ، ٹھوس فیصلے سامنے آتے ہیں ، تعمیر و ترقی کا جذبہ پیدا ہوتاہے ، اس سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور عوامی مقبولیت حاصل ہوتی ہے اور جسے عوامی مقبولیت حاصل ہو وہی کامیاب شخص مانا جاتا ہے دوسری سب سے بڑی مصیبت سماج میں یہ ہے کہ اب ہر شخص کو دوسرے کا عیب نظر آتا ہے بڑی آسانی سے دوسروں پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں جبکہ انگلی اٹھانے والے کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خود میری جانب تین تین انگلیاں اشارہ کررہی ہیں کہ پہلے اپنا محاسبہ کر ، پہلے اپنا جائزہ لے تو ایک انگلی اس کی کارکردگی پر اٹھا رہا ہے اور ہم تینوں انگلیاں مشترکہ طور پر تیری غیرت کو للکار رہی ہیں اب سے تو دوسروں پر الزام لگانا بند کردے کسی انفرادی یا اجتماعی کاموں میں نکتہ چینی و بلا وجہ تنقید کرنا بند کردے ،، مگر ہائے رے انسان اپنی عادت سے مجبور اپنی فطرت سے مجبور ، خود کے محاسبے و احساس سے کوسوں دور اپنے روئیے میں تبدیلی لانے کے لئے تیار نہیں یہاں تک کہ مساجد کی تعمیر میں بھی ناک بھئوں چڑھا لے گا یہ کام ایسے ہوناچاہیے وہ کام ایسے ہوناچاہیے،، انسان کبھی کبھی اتنا ضدی ہوجاتا ہے کہ پورے سماج کے لئے وبال جان بن جانے کا اندیشہ و خطرہ لاحق ہوجاتاہے جیسے مارچ 2020 سے پہلے مساجد میں نمازیوں کی تعداد بہت کم رہتی تھی علماء کرام بار بار اپنی تقریروں میں نماز کی ادائیگی و پابندی پر زور دیا کرتے تھے لیکن کوئی اثر نہیں ہوتا تھا حکومت نے اعلان کردیا کہ کورونا وائرس کو دیکھتے ہوئے عبادت گاہوں میں بیک وقت پانچ آدمی شریک ہوسکتے ہیں خلاف ورزی کی صورت میں سخت کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا ،، اب کیا کہنا جناب بھونچال آگیا،، لگتا تھا غیرت ایمانی جوش سے بھڑک گئی،،یہ کوئی بات ہوئی کہ پانچ آدمی ہی نماز پڑھیں گے،، نہ جانے کتنی جگہوں پر لاٹھیاں برسیں ، گرفتاریاں ہوئیں، مقدمات قائم ہوئے ، جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا اور بہت سے علاقوں میں آپس میں ہی لڑنے لگے کہ اگر پانچ آدمی ہی پڑھیں گے تو روزانہ فہرست بنانا چاہئے روزانہ وہی پانچ آدمی پڑھیں گے،، دوسرا کوئی نہیں پڑھے گا،، ہمیں خواہش اور شوق نہیں ہے،، مسجد میں نماز پڑھنے کا،، ائمہ کرام بیچارے سمجھاتے رہے سلجھاتے رہے یہاں تک کہ انہیں بھی لعن و طعن کا شکار ہونا پڑا اور جیسے ہی لاک ڈاؤن کھلا تو جوش ایمانی بھی سرد ہونے لگی وہی نماز کے لیے جھگڑا کرنے والے پہلے ہی والے انداز میں مست مگن ہوگئے یہ حال ہے انسانوں کا، یہ حال ہے مسلمانوں کا ،، اور بلا وجہ ہر جگہ مداخلت کا تو یہ حال ہے کہ اکثر و بیشتر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ چندہ جمع کرنے کے بعد مسجد کی تعمیر کے لئے زمین خریدی گئی ، مسجد کی سنگ بنیاد کی تاریخ مقرر کردی گئی،، مقررہ تاریخ آگئی،، بنیاد رکھ دی گئی،، اب آہستہ آہستہ تعمیری کام ہونے لگا ،ایک دن پہنچتے ہیں جناب والا،، اور پہنچتے دیر نہیں کہ شروع ہوگئے،، مسجد کی زمین پاک و صاف ہونی چاہیے ، ایک انچ کسی جانب بڑھنی نہیں چاہئے، مسجد کی تعمیر سے کسی کا دل نہیں دکھنا چاہیے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچنا چاہئیے،، کیونکہ یہ اللہ کا گھر ہے ، اس میں اللہ کی عبادت ہو گی قیام، رکوع و سجود ہوگا اگر بڑھ کر تعمیر ہوگئی تو اس میں کی جانے والی عبادت قبول نہیں ہوگی،، جناب والا کی باتیں سنتے سنتے لوگ اکتا گئے،، ایک شخص آگے بڑھتا ہے اور دوٹوک انداز میں اپنی باتیں کہنا شروع کرتاہے کہ اے جنابِ عالی کبھی حوصلہ افزائی کیا کیجئیے ، کبھی کسی کام کی ستائش بھی کیا کیجئے حد ہوگئی آپ کی نکتہ چینی کی، حد ہوگئی ہر کام میں نقص نکالنے کی، کسی کا گھر بنا تو آپ کو اعتراض، کسی چبوترہ بنا تو آپ کو اعتراض، کوئی تنظیم تشکیل پائی تو آپ کو اعتراض، قوم کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار ہوا تو آپ کو اعتراض یہاں تک کہ آج اللہ کے گھر کی تعمیر ہونے لگی تو اس میں بھی اعتراض کہ پھر سے پیمائش کرا لینا چاہیے بڑی تشویش ہے آپ کو کہ اس میں کی جانے والی عبادت قبول نہیں ہوگی، اس میں پڑھی جانے والی نماز قبول نہیں ہوگی اور خود آپ نے ایک بسوا یعنی 28 کڑی زمین خریدی جریب کی اٹھائیسویں کڑی جہاں گری وہیں سے آپ نے دیوار تعمیر کرالی الگ سے ڈیڑھ فٹ چوڑی سیڑھی بھی بنوا لی کسی سے کوئی اجازت نہیں لی راہ چلتے مسافروں کو بھی تکلیف اور پڑوسیوں کو بھی تکلیف کیا کبھی آپ نے سوچا کہ جب پڑوسیوں کو بھوکا پیاسا پیاسا نظر انداز کرکے خود بھر پیٹ کھاکر سونے والا مومن نہیں ہوسکتاہے تو مسلسل پڑوسیوں کا دل دکھا کر گھر میں داخل ہونے والا کیسے مومن ہوسکتا ہے پھر بھی آپ کو چین نہیں ملا نیچے ایک انچ زمین نہیں چھوڑی اوپر چھت لگا لی اب بھی آپ کو سکون نہیں ملا پوری زمین پر دیوار و چھت کی تعمیر کے بعد تین چار فٹ کا بارجہ نکال دیا اب بارجے کے آخری حصے سے دوسری منزل بھی تعمیر کرالی اب آپ سینے پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں کہ ہم نے اپنی زبان سے کہا تھا کہ اللہ کا گھر مسجد کہیں بڑھ کر تعمیر ہوگئی تو اس میں پڑھی جانے والی نماز قبول نہیں ہوگی اور اس میں کی جانے والی عبادت قبول نہیں ہوگی ،، تو جب بندہ اپنا گھر بڑھا کر تعمیر کرے گا تو اس گھر کے اندر کی جانے والی عبادت کیا قبول ہوگی؟ اس میں پڑھی جانے والی نماز قبول ہوگی ؟ ایک بندہ یاربی یاربی کی صدائیں بلند کرتا ہے اور اس کے بعد بھی اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے تو اللہ فرشتوں سے اس بندے کی چار وجہ بیان کرتا ہے اور اس میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ وہ جس مکان میں رہتاہے وہ حرام ہے ومکانہو حرام ،، اب ہمیں اور آپ کو سوچنا ہوگا کہ زمین خریدی گئی ہے یا غصب کی گئی ہے، تعمیراتی اشیاء کی قیمت دی گئی ہے یا بے ایمانی کی گئی ہے، زمین کا کچھ حصہ کہیں ناجائز قبضہ تو نہیں کیا گیا ہے اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو قومی مفاد کے کاموں میں غیر مناسب دخل اندازی کرنے کا کوئی حق نہیں،، سب سے پہلے آپ اپنے ضمیر کو زندہ اور روشن کرنے کی طرف توجہ دیتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں تاکہ قوم کو آپ کی وجہ سے رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے اسی میں بھلائی ہے اور اسی میں کامیابی ہے-
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں