عبداللہ غازیؔ ندوی
(مدیر ماہ نامہ بچوں کا ”پھول“ بھٹکل)
حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے کسی زمانے میں بھٹکل کے بارے میں اس طرح فرمایا تھا کہ ”یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھٹکل دین کی نشرواشاعت اور اس کے فروغ کا مرکز ہوگا،یہاں سے دنیا والے فیض اٹھائیں گے اور یہ دین اسلام کا قلعہ بن جائے گا“۔
شاید اُس اللہ والے نے آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر اپنی چشم بصیرت سے دیکھی ہوگی اور اس نیک بندے نے اپنے جذبات اور محسوسات کو فرط مسرت سے بیان کیا ہوگا۔
لیکن آج ہم بھی ایک نئے دور کے آغاز کو محسوس کررہے ہیں اور مختلف نوعیتوں سے تبلیغ دین اور ترویج اسلام کا جس پیمانے پر کام ہورہا ہے اس کو اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
تفصیل کا موقع نہیں ہے اور نہ ہی بہت دور جانے کی ضرورت ہے۔نہ بھٹکل کے اکابرین اور فضلائے مدارس کے کارنامے کھنگالنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی انجمن اور جامعہ کے فیض عام سے سیراب ہونے والے بادہ کشوں کی قصیدہ خوانی مقصود ہے۔
حال کی ایک مثال کافی ہے اور قابل توجہ بھی ہے۔
لاک ڈاٶن میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے چند طلبہ نے اپنے اساتذہ کی نگرانی میں دین اسلام کی تعلیمات کو اور نبی آخر الزماں کے زندہ جاوید پیغامات کو دوتین زبانوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے عام کرنے کی ٹھانی اور کردار کے غازی بن کر اپنے اساتذہ کی رہنمائی میں اس تعمیری کام کو شروع کیا۔حوصلوں کی پرواز اس قدر بلند تھی کہ بہت جلد انجم و آفاق تک ان کی رسائی ہوئی۔
عزم جواں اور ہر دم رواں کے پیکر ان پاک باز و پاک طینت نوخیز بچوں کا خلوص ہی کہیے اور ان کے اساتذہ کی تربیت پر داد دیجیے کہ انسانیت کا درس اور اخوت کا پیغام دینے والے وہ اسباق اس قدر مقبول ہوئے کہ اب چودہ زبانوں میں اس کے ترجمے پوری دنیا میں عام ہورہے ہیں اور خصوصا ہمارے ہندوستان کی اکثریت تک بلا ناغہ پہنچ رہے ہیں،ان کی رفتار بڑھتی جارہی ہے ،جنوں کا یہ سلسلہ آئے روز دراز ہوتا ہی جارہا ہے اور ان بہادروں کی زبانیں یہی شکوہ کررہی ہیں کہ
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
واقعی قابل مبارک باد ہیں ملت اسلامیہ کے وہ نیک طینت طلبہ جنھوں نے اس بے کاری کے زمانے کو کارآمد بنا کر اپنے دعوتی جذبے کو فروغ دیا اور یک جٹ ہوکر وقت کی اس اہم ترین ضرورت کو محسوس کیا۔
ملت کا وہ طبقہ جو ان زمینی حقائق اور گراونڈ لیول کوششوں سے دور رہ کر صرف تبصرے کرتا ہے اس کو لاک ڈاٶن میں ہونے والے ایسے کئی مقابلوں اور نشاطات کو دیکھنا چاہیے جن سے اس لاک ڈاٶن کی زحمت رحمت میں بدل گئی۔
یقینا یہ مبارک اقدام ان نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے جو تعلیم اور دوسری ذہنی و جسمانی مشغولیات نہ ہونے کی وجہ سے ڈپریشن اور ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں،صلاح الدین ایوبی اور ابن قاسم کے ان وارثین کی زندگیاں قمار بازی اور حقہ نوشی میں بسر ہورہی ہیں، پھر موبائل کی اس وبائے عام نے ان کی زندگیوں کا نظام درہم برہم کردیا ہے ۔
اب ان شوخ نوجوانوں کے کمزور سرپرست ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے کے منتظر ہیں کہ ابھی ہوا کا ایک جھونکا آئے گا اور عیش و عشرت کے شبستانوں کےپروردہ ان کے بچوں کی کایا پلٹ دے گا۔گویاوہ بارگاہ ایزدی میں دست نیاز پھیلائے کہہ رہے ہیں کہ
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے تشنۂ مضراب ہے ساز
نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے
مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
مور بے مایہ کو ہم دوش سلیماں کر دے
لیکن حقیقت یہ ہے کہ
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!
اگر آج بھی ہمارے ذمہ داران اور سرپرست حضرات بچوں اور نوجوانوں کی فکری نگہداشت کی طرف متوجہ ہوں تو وہ دن دور نہیں جب اسی سرزمین سے ملت کے قائدین اور اسلاف کے صحیح وارثین پیدا ہوں!
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
جامعہ کے ان طلبہ کی خدمت میں خلوص دل سے مبارک باد اور ڈھیر ساری محبتیں۔
جواب دیں