نوبل انعام یافتہ امن و امان کے پیامبر بھی مظلوم روہنگی مسلمانوں کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر کیوں۰۰۰؟

حقوق انسانی کی تنظیمیں یا جو حقوق انسانی کیلئے سرگرم کارکن و قائدین آج اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی بے سروسامانی کے لئے کام کرتے اس لئے بھی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ یہاں سے انہیں ایک کثیر رقم فراہم ہورہی ہے۔ اگر عالمِ اسلام کی جانب سے اقوام متحدہ کو انسانی حقوق کے مسائل کے حل کے لئے معاشی تعاون فراہم کرنا بند کردیا جائے تو یہ تنظمیں اور قائدین مسلمانوں کی طرف نظر کرنا بھی بند کردیں گے۔ فلسطین کے مسلمانوں کے لئے حقوق انسانی تنظیمیں اس لئے سرگرم عمل دکھائی دیتی ہیں کیونکہ عرب ممالک فلسطینی عوام کی فلاح و بہبود اور ان پر ڈھائے جانے والی اسرائیلی درندگی کے بعد انہیں راحت فراہم کرنے کیلئے کروڑوں ڈالر رقم فراہم کرتے ہیں۔ فلسطین، شام، عراق، پاکستان، افغانستان، یمن ، لبنان ،نائجریا، برما وغیرہ میں شدت پسند نام نہاد جہادی تنظیموں اور حکمراں فوج کے درمیان لڑائیوں میں عام مسلمانوں کا قتل اور انکی املاک کی تباہی و بربادی اور بے سروسامانی کے بعد حقوق انسانی کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی اپیل کے پیشِ نظر عالمِ اسلام خصوصاً سعودی عرب، عرب امارات، قطر، بحرین، کویت، عمان کی جانب سے لاکھوں ڈالرس ان مسلم متاثرین کی بازآباد کاری اور مختلف پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے والوں کیلئے غذائی اجناس و دیگر ضروریاتِ زندگی کے سامان فراہم کرنے کے لئے امداد فراہم کی جاتی ہے اور یہ امداد ان حقوق انسانی کی تنظیموں اور خصوصاً اقوام متحدہ کے خصوصی ادارہ کے حوالے کی جاتی ہے یہ تنظیمیں اور بعض ممالک کے حکمراں کتنا ان متاثیرین پر خرچ کرتے ہیں اس سلسلہ میں کوئی مصدقہ رپورٹ شاید ہی دی جاتی ہو۔فلسطینیوں کے لئے عالم اسلام کی جانب سے کثیر رقم دی جاتی ہے اس میں اسرائیل کتنا اپنا حصہ لیتا ہے اس سلسلہ میں کوئی رپورٹ نہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے شام و عراق اور دیگر ممالک کے پناہ گزینوں کو امداد فراہم کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً اعلان ہوتا ہے اور مسلم ممالک کے حکمراں اور مسلم اہل خیر حضرات دل کھول کر ان متاثرین کے لئے امداد فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ انسانیت کے ناتے مختلف مذاہب کے افراد کے لئے بھی امداد فراہم کرتے ہیں ۔ گذشتہ چند ہفتوں قبل نیپال میں آئے زلزلے کے بعد بھی کئی مسلم ممالک کی جانب سے متاثرین کی مدد کی گئی ۔ مسلمان ،انسانیت کے ناتے ہر غیراسلام کی مدد کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں لیکن جب مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں، انکی لاکھوں کروڑوں کی املاک کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے ،انکے افراد خاندان کو بے سروسامانی کا شکار بنایا جاتا ہے تو ایسے حالات میں عالمی سطح پر انسانیت کے ناتے لڑنے والے بھی اپنے مفاد کی خاطرمسلم متاثرین کے حق میں کچھ کہنے سے کتراتے ہیں، مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم انہیں انسانیت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی حیثیت سے دکھائی نہیں دیتے بلکہ وہ ان مسلمانوں کو جانور وں سے بھی بدتر سمجھتے ہوئے اپنی آنکھوں پر پردہ ڈال لیتے ہیں ، انکے کانوں کو مسلمانوں کی چیختی چلاتی درد بھری نڈھال آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ مسلم مظلموں کے کرب کو وہ جو انسانیت کے حقوق و پاسداری کی بات کرنے اور انکی خدمت کرنے کا جذبہ ظاہر کرتے ہوئے صحافت کے ذریعہ سرخیوں میں دکھائی دیتے ہیں ، انہیں عالمی سطح پر انسانیت کے سچے علمبردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو نظر انداز کردیتے ہیں، یہی نہیں بلکہ مظلوم مسلمانوں کو اس ظالمانہ کارروائیو ں کے لئے قصوروار ٹھہرانے میں ہچکچاہت محسوس نہیں کرتے۔ ان کی غیر ت و حمیت انہیں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے لئے للکارتی نہیں ہے بلکہ انکی حمیت و غیرت اس وقت انہیں جھنجوڑتی ہے جب کسی ملک کے مسلمان ترقی کرتے ہوئے خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ آج روہنگیا برما کے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں اس کے خلاف اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتیں کیوں خاموش ہیں،برما میں روہنگیامسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے والی 69سالہ آنگ سان سوچی کے وہ جرأت مند اور اصول پسند دعوے کہاں خاک میں مل گئے 90کی دہائی کے آغاز سے 2010ء میں انکی رہائی تک وہ ظالم فوجی آمر کے خلاف ثابت قدمی کی علامت سمجھی جاتی تھیں، طلبہ اپنے کمروں میں انکی تصاویر لگاکر خوشی محسوس کرتے تھے لیکن آج وہی سوچی جنہیں دنیا انسانی حقوق کی علمبردار کے طور پر جانتی ہیں روہنگیاکے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت نہیں کررہی ہے۔ کیونکہ آج اسے اپنے مفاد کے لئے مسلمانوں کی نہیں بلکہ طاقتور بدھ مت قوم پسند گروپوں کی حمایت کی ضرورت ہے وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے مظالم کونذر انداز کررہی ہے ، آنگ سان سوچی جو نوبل امن انعام یافتہ ہیں اسکی زبان خاموش ہے جبکہ دنیا بھر سے آواز اٹھانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن اسکے کان مظلوم مسلمانوں کے حق میں بات سنناگوارہ نہیں کررہے ہیں اور یہی ان دشمنانِ اسلام کی علامت ہے جو حقوق انسانی کی بات تو کرتے ہیں لیکن جب سامنے مظلوم مسلمان ہوتے ہیں تو انکی انسانیت ختم ہوجاتی ہے، ان میں انسانیت باقی نہیں رہتی بلکہ وہ انسان کے نام پر ایک ایسا حیوان بن جاتے ہیں جو انسان کی طرح زندگی تو گزارتے ہیں لیکن ان ظالم دشمنانِ اسلام اور انکے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اگر واقعی آنگ سان سوچی کا پیغام امن و آمان ہے تو وہ برما کے مسلمانوں کے لئے آواز اٹھائیں اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھکر اگر وہ مظلوم مسلمانوں کے لئے آواز اٹھاتی ہے تو اسے عالمی سطح پر شہرت ہی نہیں ملے گی بلکہ عالم اسلام کے حکمراں اور اہل ثروت و اہل خیر مسلمانوں کی جانب سے بے دریغ امداد و تعاون فراہم ہوگا جس سے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے عملی کاموں کو مزید آگے بڑھاسکتی ہے لیکن ، شائد یہ آنگ سان سوچی جیسے مفاد پرست انسانوں کی بس کی بات نہیں۔ یہ تو برما کے مظلوم مسلمانوں کی بات ہوئی لیکن آج عالم اسلام کے جن ممالک میں شدت پسند اور حکمراں فوج کے درمیان جو کارروائی ہورہی ہے ان میں بھی لاکھوں عام مسلمان مختلف پناہ گزیں کیمپوں میں فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اقوام متحدہ کی جانب سے ان مسلمانوں کی امداد کے لئے درخواست کی جاتی ہے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقوام متحدہ معاشی طور پر اتنا کمزورعالمی ادارہ ہے جو چند لاکھ مظلوم مسلمانوں کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے سے قاصر ہے؟ اگر واقعی اقوام متحدہ معاشی طور پر اتنا کمزور ادارہ ہے جو چند لاکھ مظلوم مسلمانوں کی امداد نہیں کرسکتا تو اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ اس ادارہ سے اپنے آپ کو منسلک رکھیں یا نہیں؟جس ادارہ سے مصیبت کے وقت تعاون فراہم نہ ہو اور جو صرف مسلمانوں سے ہی امداد طلب کرکے متاثرین تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ایسے اداروں کو ذمہ داری حوالے کرنے کے بجائے عالم اسلام خود کسی مسلم اداروں کو یہ ذمہ داری سونپے تاکہ یہ کروڑوں ڈالرس کی امداد مظلوم مسلم متاثرین تک صحیح انداز سے پہنچے۔عالمِ اسلام کی جانب سے دی جانے والی امداد مظلوم مسلمانوں تک برابر پہنچ پاتی ہے بھی کہ نہیں اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
سعودی عرب میں خودکش حملوں کا آغاز
سعودی عرب میں گذشتہ دو ہفتہ سے جمعہ کی نماز کے اوقات شیعہ مساجد پر حملے ہوچکے ہیں ایک حملہ تو قطیف شہر کی شیعہ مسجد میں ہوا جس میں درجنوں افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے جبکہ دوسرا حملہ دمام کی شیعہ مسجد کے سامنے پیش آیاجس میں چار افراد ہلاک اور چند زخمی ہوئے ہیں یہ دونوں خودکش حملے تھے ۔ دمام کا حملہ بھی بڑے سانحہ میں تبدیل ہوتا تھا اگر سیکوریٹی کی ذری سی بھی لاپرواہی و غفلت ہوتی توشائد یہ بھی ایک بڑے سانحہ میں تبدیل ہوجاتا۔اب تک عراق، شام، مصر، لیبیا،پاکستان، افغانستان وغیرہ میں مساجد اور دیگر مذہبی عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن اب سعودی عرب کے شہروں میں خودکش حملے شروع ہونے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ظالموں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ کسی بھی اسلامی ملک کے مسلمانوں کو چین و سکون سے رہنے دینا نہیں چاہتے۔ سعودی عرب میں اتنی سخت ترین سیکوریٹی اور سخت قوانین کے تحت سزائیں دینے کا رواج ہونے کے باوجود دہشت گرد اپنی ظالمانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ جہاد کے نام پر ناخواندہ نوجوانوں کو ورغلایا جارہا ہے انہیں اسلام کیلئے خودکش حملے کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے اور یہ معصوم ناخواندہ مسلمان اسے جہاد سمجھ کر اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ شدت پسند نام نہاد جہادی تحریکیں جو اسلام کی عظمت و صداقت سے نا اشنا ہیں یا جو صرف مسلک کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں اور صحابہ کرام اور اولیاء عظام کی قبروں کو مٹانے کی ناپاک کوششیں کررہے ہیں اور مساجد کو نشانہ بنارہے ہیں انہیں چاہیے تھا کہ وہ سب سے پہلے مظلوم مسلمانوں کے آواز اٹھاتے، فلسطین اور برما میں جس طرح مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اس کے خلاف واقعی جہاد کرتے اور اگر یہ لوگ ان مظلوم مسلمانوں کے لئے جہاد کرتے تو آج عالمِ اسلام بھی انکا ساتھ دیتا، لیکن یہ شدت پسند تنظیمیں جو مسالک کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں انہیں دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر وہ مسالک کی بنیاد پر اسی طرح مسلمانوں کا قتل عام کرتے رہے تو ایک دن انہیں بھی دشمنانِ اسلام کی سازش کا شکار ہونا پڑے گا اور آج ایسا ہوبھی رہاہے۔ ایک طرف شدت پسند معصوم مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں تو دوسری جانب مغربی و یوروپی طاقتیں ان شدت پسندوں ختم کرنے کے نام پر عام مسلمانوں کے علاقوں کو بھی نشانہ بنارہے ہیں ۔ اس طرح بے قصور مسلمان دوطرفہ کارروائی میں ہلاک ہورہے ہیں ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم حکمراں مسالک کی بنیاد پر لڑنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں اور پھر دشمنانِ اسلام کے خلاف بھی ہوشیار رہیں 

«
»

’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ یا جاہلیت کے علمبردار

مادیت اسلام اور مغرب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے