نتیش جی! آپ کو معلوم ہوگا کہ اکثر گھرکے بھیدی ہی لنکا ڈھاتے ہیں اور بڑی سے بڑی لڑائیوں میں غیروں کے مقابلے اپنوں سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ ابھی زیادہ دن کی بات نہیں ہے جب آپ ہی کے ایک مانجھی نے آپ کی ناؤ ڈبونے کی ہرممکن کوشش کی تھی مگر خوش قسمتی سے آپ بچ گئے اور بہار میں جو کھیل کھیلا جارہا تھا وہ ناکام ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد سے آپ کالی بھیڑوں سے ضرور خبردار ہوگئے ہونگے، مگر یہاں گھر کے بھیدیوں کی کمی نہیں اور ایسے مانجھیوں کی بھی کمی نہیں جو آپ کی ناؤ ڈبونے کی پردے کے پیچھے سے کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم آپ کی توجہ ایک واقعے کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ 6اپریل کو وزیر اعظم نریندر مودی سے کچھ مبینہ ’’مسلمان مولوی‘‘ ملے تھے اور بعض ایسی باتیں کہہ آئے تھے جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔وہ وزیر اعظم جو مسلمانوں کی دی ہوئی ٹوپی تک سے نفرت کرتے ہیں،انھیں اچانک کچھ مولویوں کی ضرورت اس وقت پڑی جب وہ فرانس،جرمنی اور کناڈا کے دورے پر جارہے تھے جہاں سیکولرزم ایک اہم ایشو ہوتا ہے اور ان حکومتوں کی قومی پالیسی میں یہ بات شامل ہے کہ کسی فرقہ پرست لیڈر کا استقبال نہ کیا جائے۔ شاید وزیر اعظم کو غیرملکی دورے سے قبل کچھ داڑھی اور ٹوپی والوں کے ساتھ فوٹو کھنچواکر یہ پیغام دینا تھا کہ وہ سبھی فرقوں کے ساتھ ہیں اور ’’راج دھرم‘‘نبھا رہے ہیں۔خیر یہ سب تو سیاست میں چلتا ہی رہتا ہے مگر اس واقعے کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ان مولویوں کا انتظام آپ ہی کی پارٹی کے ایک ’’مولوی نیتا‘‘نے کیا تھا۔ جنھیں آپ نے پارلیمنٹ تک پہنچا دیا ہے۔ان لوگوں نے وزیر اعظم کے پاس جانے سے پہلے ان ’’مولوی نیتا‘‘ سے ملاقات کی تھی اور ان میں سے دولوگوں کے بارے میں یہ پتہ چلا ہے کہ ان کے گھر پر ٹھہرے بھی تھے۔ وزیر اعظم سے ملنے والے مولویوں سے آپ کے ’’مولوی نیتا‘‘کے پرانے رشتے ہیں اور ان کے پروگراموں میں شریک بھی ہوتے رہے ہیں۔میرے اس دعوے کا اگر آپ کو ثبوت چاہئے تو آپ ان سبھوں کی کال ڈیٹیل نکال سکتے ہیں کہ یہ لوگ وزیر اعظم سے ملاقات سے پہلے آپ کی پارٹی کے کس راجیہ سبھا ممبر سے رابطے میں رہے ہیں۔ان ’’مولوی نیتا‘‘کی رہائش گاہ کے قریب لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں کی رکاڈنگ بھی بہت کچھ بیان کرسکتی ہے اور اس ممبرپارلیمنٹ کا مودی کے وزیر مختار عباس نقوی سے فون پر بات چیت کا بیورا بھی نکالاجاسکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کئی سیاسی پارٹیوں کا دورہ کرچکے اس ’’مولوی نیتا‘‘کی شکل میں آپ آستین میں سانپ پال رہے ہیں،جو آپ ہی کو نہیں بلکہ ان مسلمانوں کو بھی ڈس سکتا ہے جنھوں نے زکوٰۃ ،خیرات اور چندے کی رقم پر اسے پال پوس کر بڑا کیا ہے۔
دیکھا جو تیر کھاکے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
نتیش کمار جی! ہم آپ کو ایک اور بھی ثبوت دینا چاہتے ہیں جو بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ جو چور ہے، اس کی داڑھی میں ایک تنکا پھنسا ہے اور چور کا ہاتھ خود بخود اپنی داڑھی کی طرف چلا جائے۔ اردو کے مشہور ویکلی اخبار ’’نئی دنیا ‘‘کے شمارہ 20-26اپریل 2015میں صفحہ 8پرمیرا ایک آرٹیکل چھپا تھا جس کا عنوان تھا ’’وزیر اعظم سے ’مسلم قائدین ‘کی ملاقات۔ آخرپردے کے پیچھے کا راز کیا ہے؟‘‘ اس آرٹیکل میں ہم نے لکھا تھا کہ وزیراعظم سے ملاقات کے لئے مولویوں کا انتظام کرانے میں وزیرمملکت برائے ا قلیتی امورمختار عباس نقوی کے علاوہ جنتا دل (یو) کے ایک مسلمان ایم پی بھی پیش پیش تھے۔ اس مضمون کے شائع ہونے کے کچھ دن بعد 27اپریل کو 2.05بجے دوپہر کو میرے موبائل پرایک کال آئی۔ جس نمبر سے کال آئی تھی وہ یہ ہے 09431023864۔کال کرنے والے نے اپنا نام غلام رسول بلیاوی بتایا اور لڑکھڑاتی آواز میں گالیاں دیتے ہوئے کہا کہ ’’سالے پٹک پٹک کر ماروں گا۔‘‘ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ غلام رسول بلیاوی نشے میں اول فول بک رہے ہیں۔پتہ نہیں یہ نشہ شراب کا تھا یا سیاسی پاور کا۔حالانکہ کسی مولوی سے شراب پینے کی توقع نہیں کرسکتا تھا۔مدرسوں میں جن باتوں کی تربیت دی جاتی ہے اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شراب پینا گناہ ہے،مگر سیاسی مولوی پر بھروسہ کرنا بھی مشکل ہے۔ جو لوگ دین دھرم کو بیچ کر سیاست کے حمام میں کپڑے اتار دیتے ہیں وہ کسی بھی سطح پر جاسکتے ہیں اور جن کا سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے ہی سے ’’قرآن فروشی‘‘مشغلہ رہاہو وہ اور بھی قابل اعتبار نہیں ہوسکتے۔بہرحال میں اس بکواس کو زیادہ دیر نہیں سن پایا اور فون کاٹ دیا۔ چند لمحے بعد ہی دوبارہ کال آئی مگر میں نے ریسیو نہیں کیا۔ شام 4.53پر ان کے کسی نمائندے نے فون کیا اور مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جوہوا سو ہوا،اسے رفع دفع کیا جائے۔میری اس بات کی سچائی کا ثبوت میرے موبائل کی کال ڈیٹیل میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا خوف نہیں کہ کون کیا دھمکی دیتا ہے۔ کم ہمت لوگوں کے لئے جرنلزم کا میدان نہیں ہے اورہم پریس والے ایسی دھمکیوں کے عادی ہوتے ہیں۔کرائے کے ’’غازیان ملت‘‘ہمیں قدم قدم پر ملتے ہیں جواپنے چھوٹے منہ سے بڑی بڑی باتیں کہہ کر رعب گانٹھنے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ وہ جلسوں میں یہی سب کرتے رہے ہوتے ہیں۔یہاں ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں جس طرح سے آپ کی اپنی ٹیم کے لوگ نریندر مودی کی ٹیم کے لئے بیٹنگ کر رہے ہیں،اس سے جو نقصان ہوگا، وہ صرف میرا یا آپ کا نہیں ہوگا بلکہ پورے بہار کا ہوگا۔ اِس ملک کا ہوگا، سیکولرزم کا ہوگا اور مسلمانوں کا ہوگا، جو فرقہ پرستی سے جنگ میں آپ کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔
ابھی کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوے
کہ ہم کو راہ میں اک رہنما نے لوٹ لیا
بہار کا ودھان سبھا الیکشن اس لئے بھی اہم ہونے والا ہے کہ 2014کے لوک سبھا الیکشن کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں فرقہ پرست قوتوں کو جیت ملی ہے اور اس سے پہلے بھی کچھ انتخابات میں انھیں کامیابی ملی تھی۔ دلی کے ودھان سبھا الیکشن میں بی جے پی کو کرارای ہار کا منہ دیکھنا پڑا اور اس کے بعد بہار اسمبلی الیکشن پہلا چناؤ ہونے جارہا ہے۔ اگر یہاں بی جے پی کو شکست ہوئی تو پورے ملک میں یہ پیغام جائے گا کہ اب فرقہ پرستی کے دن لد گئے ہیں اور پھر اترپردیش، مغربی بنگال ،آسام وغیرہ کے انتخابات میں اس کے خلاف عوامی رائے تیار ہوگی۔ آج ملک کی سیاست کے لئے بہت نازک وقت ہے اور فرقہ پرست قوتوں کی شکست ضروری ہے جو ملک کے آئینی ڈھانچے، سیکولرزم اور قومی یکجہتی کے لئے خطرہ بن گئی ہیں۔ اس نازک وقت میں اگر ہماری صفوں میں میرجعفر پرورش پاتے رہے تو کہیں بھی فریب کھاسکتے ہیں،اس لئے کالی بھیڑوں کی شناخت ضروری ہے تاکہ ان سے بچا جاسکے۔ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ایسے لوگوں سے خبردار رہیں گے جو بظاہر آپ کے ہمدرد بنے بیٹھے ہیں مگر اندر سے ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو ملک کے اتحاد، سالمیت اور سیکولر سماجی تانے بانے کو توڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
غنچوں کا فریب حسن توبہ،کانٹوں سے نباہ چاہتا ہوں
دھوکے دیئے ہیں دوستوں نے، دشمن سے نباہ چاہتا ہوں
جواب دیں