نکمی حکومت اورمرتے ہوئے مزدور

   از۔محمدقمرانجم قادری فیضی

روٹی نہیں کمائی تو کیا کھائے گا غریب

کس طرح قیدوبند میں جی پاۓ گا غریب

اتنا  تو   سوچ   لیتے   امیران   سلطنت

گھر میں رہا تو بھوک سے مرجائے گا غریب

ہماریملک کامزدور بھی ایک انسان ہی یے اور وہ بہت ہی زیادہ محنتی ہوتاہیاورآج بھی سب کے دلوں میں انکی عزت وعظمت باقی ہے ضروری نہیں کہ صرف افسر ہی ملک کو چلاتے ہیں. ہر انسان  اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ملک کو آگے بڑھانے میں تعاون کررہاہے.مزدوروں کو کچھ بھی کہنا آسان یے کیونکہ وہ کمزور ہیں، مجبور ومقہور ہیں، پٹری پر نہیں سونا چاہیئے تھا مگر حکومت بھی تو نکمی ہے جو آج دومہینے سے خواب غفلت میں سورہی ہے حکومت کو یوں لاک ڈاؤن کرنا ضروری تھا مگر کیا سچ میں. لاک ڈاؤن ہوا؟؟ہوا مگر صرف مزدوروں غریبوں کے لئے،ایسے لاک ڈاؤن سے اچھا تھا کہ 20 دن کے لئے پورے ملک میں سخت کرفیو نافذ کردیا جاتا۔حکومت کو شراب سے ہونے والے فائدے کادھیان شاید مزدوروں سے زیادہ تھا اسی لئے ہماریملک کے جوانوں کو اسکی گھر گھر پہنچانے کے لئے لگایا، اوردوسری طرف عدالت کہہ رہی ہے کہ ہوم ڈلیوری کی جائے-افسوس ہے ایسی نکمی حکومت پر، مہاراشٹرا کے اورنگ آباد میں کرماڈ اسٹیشن کیپاس  ریلوے پٹری پرسو رہے 16 مہاجر مزدوروں کی مال گاڑی کی چپیٹ میں آنے سے موت واقع ہوگئی، سبھی مزدور مدھیہ پردیش کے رہنیوالے تھے اورسبھی اپنے اپنیگھر جاریے تھے، لاک ڈاؤن کی وجہ سیطویل وقت سے پھنسے یہ مہاجر مزدور گھر جانے کے لئے نکلے تھے 40 کلو میٹر پیدل لمبی مسافت طئیکرنے کے بعد تھکان محسوس ہوئی اور ریلوے کی پٹری پر سوگئے اسی مابین تیز رفتار مال گاڑی نے انہیں روند کر موت کی آغوش میں پہنچا دیا، مہاراشٹر حکومت اور مدھیہ پردیس حکومت نے متوفیوں کے اہل خانہ کو 10 لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا ہے، اس حادثے میں گھائل ایک مہاجرمزدور نے بتایاکہ ہم سب لوگ جالان کی اسپات فیکٹری میں کام کرتے تھے۔اورنگ باد سے جمعرات کیدن مدھیہ پردیش کے کچھ ضلعوں کے لئے ٹرین روانہ ہوئی تھی اسی وجہ سے جالان سے یہ مزدور اورنگ آباد کے لئے روانہ ہوگئے،

ملکی سطح پر لاک ڈاؤن ہونیکی وجہ سے فیکٹریاں اور بڑی بڑی کمپنیوں پر تالے پڑگئے ہیں، جس کے سبب مزدور اپنے گھر جانے کے لئیبیتاب ہوریے ہیں اور مجبوری کی وجہ سے یہ قدم اٹھانیپرتلے ہوئیہیں، آگے دیکھئے ابھی کتنے لوگ اس لاک ڈاؤن کے ہتھے چڑھتے ہیں، اور سڑکوں پر پولیس لاٹھیاں برسا رہی ہے،نیز سڑکوں پربھی پولیس کا سخت پہرا لگا ہوا ہے اسی لئے مزدور ریلوے کی پٹریوں کے راستے گھر جانے پر مجبور تھے، اور اسی بیچ گھر جانے کی بھی جلدی ہے کیونکہ شہرمیں کام کاج نہیں ہونے کی بنیاد پر اہل خانہ کی ضروریات وگھرکے اخراجات کو پورا کرنے میں دقت پیش آرہی ہے، اب کیا کہا جائے کہ اتنا بڑا حادثہ کس کی کاہلی سے ہواہے ریلوے کی پٹریوں پر گشت کرنے والوں نے مزدوروں کو جو کہ پٹریوں کے سہارے گھر جاریے تھے کیسے انھوں نے مزدوروں کو سونے دیا؟ 

 گشتی ٹیم کو لاک ڈاؤن کے دوران ریلوے کی پٹریوں پرلوگوں کو دور رکھنے کی زمہ داری ہے، 

لیکن لاپرواہی برتی گئی، جس میں مزدوروں کو اٹھنے بھر کا موقع تک نہیں ملا اور وہ بے چارے موت کی نیند سو گئے،اس دردناک ودل دہلا دینے والے حادثے میں جس میں 16 مہاجرمزدوروں کی جان چلی گئی ہے، اسکے صبح جب سورج نکلا تو کتنا بھیانک تھا وہ سورج، جس نے ہمیشہ ہمیش کے لئے 16 لوگوں کے حیات کے سورج کو ہمیشہ کے لئے غروب کردیا، ہندوستان کی سیاسی سماجی لوگوں نے اس دکھ کی گھڑی میں تعزیت نامہ پیش کیا مگر کوئی بھی انکے خاندان والوں کو انہیں دوبارہ واپس لوٹا سکتاہے جیسے ہمارے اہل خانہ کے لوگ ہیں ویسے انکے بھی بیوی بچے اور خاندان رہے ہونگے،کوئی معاوضہ بھی انکے جان کی بھرپائی نہیں کرسکتاہے، ہاں کچھ وقت کیلئے زخم پر مرحم لگ جائیگا،مگراہل خانہ کو ان کی موت کا درد کبھی ختم نہیں ہونیوالا۔کافی لوگوں نے چرچاکیا کہ اور کہا کہ پٹری سونیکی جگہ نہیں ہوتی ہے؟ یہ بات بلکل سچ اور صحیح ہے کہ ریلوے کی پٹری سونے کی جگہ نہیں ہوتی،اور کوئی سونا بھی نہیں چاہیگا، کیونکہ وہ موت کی پٹری ہے 

مگر کسی نے سوچا کہ مہاجر مزدور پٹری پر کیوں گئے؟ ان لوگوں کے گھر جانے کا انتظام کسی بھی حکومت نے پچھلے40  دنوں میں نہیں کیا، اگر انکے لئے بھی گھر جانے کا انتظام ہو جاتا تو یہ پٹری کے اوپر سفر کیوں کرتے، اور اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھتے،اور مہاجر مزدوروں کو کئیں ساریڈر ہیں جو شاید حکومت نہیں سمجھ پاتی، 

جن بستیوں میں یہ لوگ رہتے ہیں،وہاں جگہ کی قلت ہوتی ہے اور اسی کم جگہ میں کافی لوگ رہتے ہیں جس سے کہ بیماری پھیلنے کا خطرہ زیادہ لاحق رہتاہے امیر ہویا غریب، کوئی بھی اپنے اہل خانہ کا تحفظ چاہتا ہیاس لئے یہ لوگ اپنے گاؤں جانا چاہتے تھے مزدور روز کنواں کھودتاہے اور پانی پیتاہے مگر آج مزدور کیپاس کوئی کام نہیں ہے تو لازم یے کہ وہ اپنے مستقبل کو لے کر فکر میں  مبتلا ہے، 

پندرہ لاکھ کی آبادی والا علاقہ دھاراوی (ممبئی) جہاں بہت سارے مزدور ابھی بھی پھنسیہوئے ہیں مگر حکومت انہیں جانینہیں دے رہی یے اور نہ ہی گھر بھجوانیکیلئے کوئی انتظام کر رہی یے، اور اوپر سے بیماری کا ڈر بھی خوف میں مبتلا کر رکھاہے، کچھ جگہوں پر مہاجر مزدوروں کو تنخواہ نہ ملنا بھی ایک بڑی وجہ ہیہمارے ملک کی حکومت بہت ناکارہ اور نکمی ہوچکی ہے اسکو ہندومسلمان سے جب فرصت ملیگی تب اس طرف توجہ دیگی

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروی نہیں ہے 

16مئی2020(فکروخبر) 

«
»

قوم کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کی ضرورت

کورونا وائرس کی وبا اور ماہِ رمضان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے