ذوالقرنین احمد
محترم حضرات موجودہ حالات کے پیش نظر والدین کے یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت قرآن و حدیث کی روشنی میں کریں غیر اسلامی رسم و رواج کے خاتمے کیلئے سختی سے ان تمام رسومات کی مخالفت کریں، مسلسل ایسے خبریں صبح و شام ہمیں پڑھنے سنے اور دیکھنے مل رہی ہے جو بنت حوا اور ابن آدم کے تعلق سے ہے۔ نکاح کو اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کہ ایک غریب باپ بیٹی کے نکاح کے اخراجات جمع کرتے ہوئے بڑھاپے کو پہنچ جاتا ہے اور پھر بھی وہ معاشرے کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ لڑکے والے کسی نہ کسی چیز کی فرمائش کر تے رہتے ہیں۔ اور غریب والدین قرضے کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتے ہیں۔بیٹی کے جہیز کے برتن کا رنگ اتر جاتا ہے لیکن وہ لاچار و بے بس باپ کے سر سے قرض کا بوجھ نہیں اترتا ہے۔
صرف ہندوستان ہی نہیں سرحد پار بھی یہی حالات معاشرے کے بنے ہوئے ہیں۔ شادی کے بندھن کو ایک بیزنس کی طرح ڈیل کیا جارہا ہے۔ رشتہ کا انتخاب کرنے میں اتنی چھان بین کی جاتی ہے جیسے اسمبل کرکے کوئی مشین خریدی جاری ہے۔ لڑکی لڑکے سوچ کے مطابق، والدین کو بھی پسند آنی چاہیے، دادی کو بھی خالہ کو بھی بھائی کو بھی بھابھی کو بھی، ان سب کے معیار کے مطابق ہونی چاہیے۔ اور اگر پسند آ بھی جائے تو دوسرا پڑاؤ شروع ہوتا ہے۔ لڑکے کی قیمت لگائی جاتی ہے، انجینئر ہے تو ۴ لاکھ، ڈاکٹر ہے تو بنگلہ ،گاڑی، لاکھوں روپیے، ٹیچرز رہا تو جوڑے کی رقم ٹو وہیلر، اور اس کے برعکس روز کمانے والا رہا تو ہزار منہ ہزار باتیں کے ہماری لڑکی کی خرچے کیسے پورے کرینگا۔ بات صرف یہی ختم نہیں ہوتی شادی بڑے فنکشن ہال میں ہونی چاہیے، خانے میں کم سے کم ۵ اقسام کی ڈیشز ہونی چاہیے، مہمانوں کا استقبال، اور طرح طرح کی فرمائشیں کی جاتی ہے۔ اگر والدین اچھے پیسے والے رہے تو وہ یہ سب آسانی سے افورڈ کرلیتے ہیں۔ لیکن سبھی والدین پیسے والے نہیں ہوتے۔ میڈل کلس اور غریب والدین ان تمام بےجا رسومات کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے نہیں کرپاتے۔
ہندوستان بھر میں لاکھوں لڑکیاں معیاری رشتوں کے انتظار میں اپنی شادی کی عمر سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہندوستان کے حالات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے ۔کس طرح سے آج کے نوجوان لڑکے لڑکیاں غیر مسلموں کے ساتھ بھاگ کر شادیاں کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال سے یہ بات سامنے آرہی ہے سیکڑوں مسلم لڑکیوں نے غیر مسلم لڑکوں سے کورٹ میرج کیا ہے۔ یہ ہمارے لیے بڑے افسوس و شرم کی بات ہے۔ مختلف پلیٹ فارم سے اس کی روک تھام کیلئے کام کیا جارہا ہے کچھ حد تک انہیں روکنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ لیکن حالات جو کہ تو بنے ہوئے ہیں۔ ایسے کیسز کا گراف بڑھتا ہی جارہا ہے۔ والدین اس کے سب سے بڑے مجرم ہے۔ جنہوں نے گھر میں ٹیلیویژن لاکر بچوں کے ذہنوں میں مغربی کلچر کو ٹھوس ٹھوس کر بھر دیا ہے۔ اور اب تو اینڈرائیڈ فون نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون تھما دیا گیا جس میں ساری دنیا کو سمیٹ کر خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے،
جس کی تباہ کاریاں روزانہ اخبارات ، نیوز چینل پر دیکھنے ملتی ہے۔ کس طرح سے غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اور حال میں ایک ایپ ٹیک ٹاک کے نام سے متعارف کروایا گیا ہے، جس میں ہر کوئی اپنےآپ کو ماڈل اور ایکٹر سمجھ کر فحش بے ہدا گانوں پر ڈانس اور عجیب غریب حرکات انجام دیں رہی ہیں جسمیں نوجوان لڑکے لڑکیوں سے لے کر بوڑھے تک شامل ہیں، اس ٹک ٹاک کی وجہ سے کئی شادیاں ٹوٹ چکی ہے کے یہ لڑکی ٹک ٹاک پر ڈانس کرتے ہوئے دیکھی گئیں ماں باپ اسمارٹ فونز دلاکر دیتے ہیں اور کالجز، پارکوں ، ہوٹلوں میں لڑکے لڑکیاں سوشل میڈیا پر مختلف سونگ کے ساتھ اپنے ڈانس اپلوڈ کرکے خوش ہوتے ہیں، کئی خاندان تو ایسے بھی ہے پورا گھر اس کام میں شامل ہے۔ خاندانی نظام کیسے تباہ و برباد ہو رہا ہے۔ میری نظر سے کچھ عرصہ قبل ایک مضمون گزرا تھا جسمیں ایک رانگ نمبر سے گھر کے موبائل پر کال آجانے سے کس طرح پورا خاندان تباہ ہوجاتا ہے۔گھر میں بیوی فون رسیو کرتی ہے، سامنے سے کسی مرد کی آواز آتی ہے، لڑکی رونگ نمر کہے کر فون ڈسکنیکٹ کردیتی ہے پر لڑکا سمجھتا ہے یہ کسی لڑکی کا نمبر ہے اور بار بار اسے پریشان کرتا ہے۔ اسکی آواز کی تعریف کرتا ہے میسجز کرتا ہے۔ ایک دن اس لڑکی کی ساس فون پر سنتی ہے کہ کوئی ادھر سے فحش باتیں کر رہا ہے۔ اور بغیر تصدیق کیے بہو پر بدچلن ہونے کا الزام لگا دیتی ہے۔ جب شوہر فون چیک کرتا ہے تو اسے فحش مسیجز دیکھائی دیتے ہیں۔ اسکی غیرت جوش میں آتی ہے اور بغیر تصدیق کیے وہ بیوی کو قتل کردیتا ہے، بیوی کا بھائی آتا ہے اور بہن کے شوہر کو قتل کردیتا ہے اسے جیل ہوجاتی ہے اور اسطرح پورا خاندان تباہ ہوجاتا ہے۔ معصوم بچے یتیم ہوجاتے ہیں یہ تمام تباہ کاریوں کا سد باب یہیں ہے کہ صالح معاشرے کو تشکیل دیا جائے۔ نکاح کو آسان بنایا جائے۔ فضول خرچی، رسم و رواج، اور جہیز کے نام پر لڑکی والوں پر ظلم کرنا، ان تمام چیزوں کو معاشرے سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ رشتوں کے معیار کو اور والدین کی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ بالغ ہونے پر لڑکے لڑکیوں کے نکاح میں مناسب جوڑ دیکھ کر فوراً نکاح کردینا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اگر تمہارے پاس رشتے کا پیغام آئے اور تمہیں رشتہ مناسب لگے تو پیغام قبول کرلوں اگر تم ایسا نہیں کرونگے تو دنیا میں فساد برپا ہو جائے گا۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں فساد برپا ہورہا ہے۔ مسلم نوجوانوں لڑکے لڑکیاں ،شادی کانام سنتے ہی کہتے ہی ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے۔ یہ تو انجوائے کے دن ہے، اور کالج اور اسکول یونیورسٹیوں میں غیر محرموں سے ناجائز تعلقات قائم کرلیتے ہیں۔ اور اسے فرینڈشپ ،گرل فرینڈ بوئے فرینڈ کا نام دیتے ہیں۔ آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ والدین اس جانب توجہ دیں لاکھوں لڑکیا گھروں میں اپنی قسمت پر خون کے آنسوں بہا رہی ہے، رشتوں کے معیار کو بدلے اپنی سوچ اسٹیٹس،کو شریعت کے قانون پر ترجیح نہ دے۔ نکاح تو ایجاب وقبول کا نام ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نکاح آسان کروں یہاں تک کہ زنا مشکل ہوجائے۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو۔ لیکن ہمارے حالات تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ جو قوم خود کو بدلنا نہیں چاہتی اللہ تعالیٰ ان کے حالات کو تبدیل نہیں کرتا۔ آپ خود بدل جائے معاشرہ خود ہی تبدیل ہونا شروع ہوجائیگا۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے
15اپریل2019(فکروخبر/ذرائع)
جواب دیں