نیوزی لینڈ کے سکھ بھائیوں کی بے مثال ہمدردی اور دلیری کو سلام

عبدالعزیز

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈن نے جو مثال اپنے ملک میں ہمدردی، محبت، بھائی چارہ، دلیری اور فراخ دلی کی پیش کی ہے اس کیلئے ان کی جس قدر ستائش کی جائے کم ہے۔ سکھ بھائیوں نے بھی اس آفت ناگہانی کے موقع پر جو کچھ نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کے ساتھ کیا اس کی مثال بھی اس اندھیری دنیا میں بہت کم ملتی ہے۔ سکھوں نے مظلوم اور مغموم مسلمانوں کے ساتھ دلیرانہ ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔ کرسٹ چرچ میں سانحہ کے دن اور اس کے بعد غیر معمولی پیمانے پر اپنا لنگر (گرونانک کا فری باورچی خانہ) مصیبت زدہ مسلمانوں کیلئے جاری کردیا۔ باہر سے جو لوگ آئے سب کیلئے دعوت عام کردی۔ سب کا انتظام کیا۔ میت کو نہلانے اور تجہیز و تکفین میں بھرپور حصہ لیا۔ میت کو قبرستان لے جانے میں ہر طرح سے ہاتھ بٹایا اور ہر طرح معاونت کی۔ بالکل رشتہ داروں اور اچھے ہمسایوں کی طرح سے مظلومین اور مصیبت زدگان کا ساتھ دیا اور نہایت ہمدردانہ سلوک کیا۔ 
سکھوں کے ترجمان دلجیت سنگھ نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ’’سکھ فرقہ نہایت مضبوطی اور استقلال کے ساتھ مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے کیونکہ عبادت گاہ میں نمازیوں پر دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ ہم مظلوموں کی مدد میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے۔ تمام گرودواروں کو سکھ فرقہ کے لیڈر نے سرکلر جاری کیا کہ ہر جگہ جہاں سکھ ہیں مسلمان بھائیوں کو ساتھ دیں۔ ان کی تکلیف اور مصیبت میں کام آئیں۔ سکھوں نے بھی نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم کے طرز پر بیان جاری کیا کہ جو دہشت گرد ہے وہ ہمارا نہیں ہے اور جو مسلمان اور پناہ گزیں ہیں وہ ہمارے ہیں۔ دہشت گردی کیلئے کسی ملک میں بھی کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ نفرت پھیلانے کی کوئی گنجائش ہے۔ ہم لوگ اجتماعی طور پر دہشت گردی اور نفرت کے خلاف کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے اور ہر ممکن اس کا مقابلہ کریں گے‘‘۔ 
سکھوں ے نماز کیلئے اپنے گرودواروں کے دروازے کھول دیئے۔ بہت سے گرودواروں میں مسلمانوں نے نمازیں ادا کیں۔ ایسا بھائی چارہ کا انداز آج کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک روشن چراغ کے مانند ہے جس کی روشنی دور دور تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ آج جو لوگ ایک عبادت گاہ کو مسمار کرکے اپنی عبادت گاہ قائم کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ان کیلئے یہ بہت بڑا سبق اور نصیحت ہے۔ کاش ہمارے ملک کے لوگ سکھ بھائیوں اور وزیر اعظم نیوزی لینڈ کے مثالی کردار سے سبق حاصل کرتے اور اپنے ملک میں بھی روشنی کا یہ مینار بناتے۔ ؂
آ غیرت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں ۔۔۔ بچھڑوں کو پھر ملادیں نقش دوئی مٹادیں 
شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے ۔۔۔ دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے 
سوشل میڈیا میں سکھوں کی اس ادا اور انداز پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ایک سکھ خاتون نے کہا ’’سکھوں کے اس اچھے اور نیک کام کو سن کر میری آنکھوں میں آنسو رواں ہوگئے‘‘۔ ایک سکھ بھائی نے فرمایا ’’سکھ اسی کو کہتے ہیں جو دوسروں کی مصیبت اور تکلیف میں کام آئے‘‘۔ مہاراشٹر کے ایک شریف آدمی نے اپنے خیال کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے ’’ایسے تمام سکھ جو نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی مصیبت اور تکلیف میں کام آئے ان کو سلام کرتا ہوں‘‘۔ 
گاندھی جی کے نواسے اور مغربی بنگال کے سابق گورنر گوپال کرشن گاندھی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: 
"Sikhs

«
»

شرکا دامن تھام کر نکلے تھے حکومت کرنے

اسلامو فوبیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے