سنو! سالِ نو کی آمد؛ ہم سے بہت کچھ کہتا ہے

     تحریر :وزیر احمد مصباحی 

  ریسرچ اسکالر: جامعہ اشرفیہ مبارک پور

 

      یہ دنیا اپنی وجود سے ہی انقلاب کے دامن میں سکونت پذیر ہے. جی ہاں! یہاں ہر چیز تغیر پذیر ہیں. آج حالات کچھ اور ہیں تو کل و پرسوں نرسوں کچھ اور ہوں گے. ساری چیزیں انتقال کی لچک سے ہم آہنگ ہیں. انسان سے لے کر چرند و پرند تک. حتی کہ عیسوی اور ہجری کلینڈر کے مطابق دن، مہینے اور سال بھی بدلتے رہتے ہیں. گھڑی کی سوئیاں ہر روز مکمل چوبیس گھنٹے تک چکر کاٹنے کے بعد ہمیں ایک نئے دن سے ملاقات کراتی ہیں اور پھر ہم اس دن کے دامن میں پناہ لے کر کارہائے حیات کی تکمیل میں جٹ جاتے ہیں. یہ وہ نظام ہے جو ابتدائے آفرینش سے چلتا چلا آ رہا ہے. آج تک نہ اس میں تبدیلی ہوئی ہے اور نہ کبھی ہوگی. ہاں!….. مگر جب پروردگار حقیقی چاہے تو قیامت آئے گی اور سوائے ذات باری تعالیٰ کے ہر چیز نست و نابود ہو جائیں گی. ہم اس دنیاوی زندگی میں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہاں ہر بارہ مہینے پر سال بھی بدلتا رہتا ہے،اگرچہ وہ ہجری کے اعتبار سے ہو یا عیسوی کے اعتبار سے، پر بدلتا ضرور ہے. ایسے موقعوں پر ہماری تہذیب اور پرانی ریت بھی یہی رہی ہے کہ ہم ایک نئے سال کی آمد کی خوشی میں ایک دوسرے کو مبارکبادیاں پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ دعا بھی دیتے ہیں کہ:" آپ کی زندگی میں آنے والا یہ نیا سال خیر سے گزرے، آپ امسال سالِ گزشتہ کی تمام تر تلخیاں بھلا کر کسبِ حسنات کی کوشش کریں گے اور مجموعی اعتبار سے یہ سال آپ کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوگا "۔ (انشاءاللہ)

      صاحبو !!! اگر شرعی حدود میں رہ کر خوشیوں کے سوغات بانٹے جائیں اور" حاسبوا أنفسكم قبل ان تحاسبوا". جیسے قیمتی فارمولا پر ہمارا عمل در آمد ہو جائے تو پھر کیا کہنے! اجڑی ہوئی زندگی میں بہار ہی آ جائے. رضائے الٰہی کے سبب ہم سعادت دارین سے بھی مالا مال ہو جائیں گے. مگر افسوس کہ آج ہمارے سماج و معاشرے کی حالت اکثر بدل چکی ہے، ایسی ہے ہی نہیں. آج ایک نیے سال کی آمد پر اظہارِ فرحت و مسرت نہ تو ہم شرعی حدود میں رہ کر کر پاتے ہیں اور نہ ہی دیوارِ حیات کی ایک اینٹ گر جانے کے غم میں زندگی کے صبح و شام کا کچھ محاسبہ کر پاتے ہیں کہ ہم نے اس گزرے ہوئے پورے ایک سال میں کیا اچھا کیا اور کیا برا؟ اپنی مصروفیات کن کن لغو و بےفائدہ چیزوں کے نذر کر دیں اور وہ کون سے قیمتی اشیا ہیں جن کے حصول میں اسے گزار دیں. پتہ نہیں راقم کا ضمیر یہ کیوں کہتا ہے کہ نہیں…. ہم اس باب میں مکمل طور پر تہی دامنی کے شکار ہیں. جب کہ تدبر و تفکر کی دولت انسانی زندگی کو کندن بنا کر ساری مخلوقات سے  ممتاز کر دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے. سچ پوچھیں تو یہ دن، مہینے اور سال کا آنا جانا بھی ہماری عمروں کے اس صحیفے کی مانند ہیں کہ اگر ہم اس معاملے میں تساہلی کے بجائے activity دکھا لیں تو گزرتے ایام کے ساتھ کارِ خیر کے ذریعہ اسے دوام بخشنے میں ہم کامیاب و کامران ہو جائیں. ہر سال نئے سال کی آمد پر دسمبر مہینے کی آخری شب میں اظہارِ خوشی کے نام پر جو اودھم مچائی جاتی ہیں وہ کسی بھی ڈھب سے اسلامی روش سے میل نہیں کھاتا. اس شب میں ایک بڑا طبقہ، خصوصاً نئی نسل کے نوجوان تو برائیوں و فحاشیوں کے بیچ سمندر میں غرق ہو جایا کرتے ہیں. Picnic کے نام پر شب دیجور کے سناٹے کو تار تار کر کے اسے رنگین بنا دیے جاتے ہیں. رقص و سرور کی محفلیں گرم ہوتی ہیں اور نائٹ کلب کی صورت میں ایک اسٹیج کا سہارا لے کر موسیقی و سر کے تال پر ناچنے والیوں و مغنیہ کے تھرکتے ہوئے جسموں کی خوب خوب نمائش کی جاتی ہیں۔

     مغربی تہذیب، جس نے آج اپنی چالاکی و فریبی کی بدولت ہماری تہذیب کے تہائی حصوں پر شب خوں مار لیا ہے، جھوٹ، فریب کاری، دھوکہ دھڑی، نفرت انگیزی اور چغل خوری جیسے قبیح و شنیع اوصاف کے فروغ میں نہلے پہ دہلے کا کام کیا ہے. یہ بالکل عین حقیقت ہے کہ مغربی کلچر اور اس کے رنگ برنگ ترقیاتی وسائل کو فروغ دینے میں جھوٹ، افترا، شر و فساد اور فحاشی و بے حیائی جیسے اوصاف سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں. آج کی Generation ایسی ہیں کہ وہ مغربی تہذیب کے کسی بھی شاخ کو اپنانے سے قبل اس بارے (نفع و نقصان) میں غور و فکر نہیں کرتی ہیں کہ آخر ہم جس چیز کو اپنا رہے ہیں اس کی بنیاد کس چیز پہ رکھی گئی ہے اور اس کی خمیر کس نوعیت کی بنائی گئی ہے؟ اگر ہم اسے اپنی زندگی میں بجا لاتے ہیں تو کیا ہم کامیاب و سرخرو ہو بھی پائیں گے یا نہیں؟ بلا شبہ سال کی آمد ہمیں خوشیوں کا احساس دلاتی ہے اور ایک نیے امنگ و حوصلے سے روشناس کراتی ہے. مگر ___مگر اس وقت جلد بازی میں ہم اس قدر اتاولے اور جذباتی ہو جاتے ہیں کہ پائجامے سے بالکل باہر نظر آنے لگتے ہیں، شرعی حدود کی بات تو درکنار…. جی ہاں! دل و دماغ پر اگر آپ زور دے کر پوچھیں تو یہ احساس ہوگا کہ نہیں… یہ موقع تو اپنے اندر جھانک کر دیکھنے کا ہوتا ہے کہ اس گزشتہ ایک سال کی طویل مدت میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا؟ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس قیمتی و بامعنی قول کو اگر اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہوتا تو آج ہم ضرور سرخرو ہوتے! آپ فرماتے ہیں : " اے ابن آدم !!! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزر گیا تو یوں سمجھ کہ تیرا ایک حصہ بھی گزر گیا"۔ اب بھلا بتائیں تو سہی! کہ کیا ہم نے سن / ۲۰۲۰ ء کو اپنے لیے اتنی اہمیت کے حامل جانا بھی یا نہیں…اور اگر جانا و مانا بھی تو اس مدت میں ہم نے کیا کیا بہتر اقدامات کیے؟ آج ہم پر غیر قوموں کی تقلید کا بھوت اس قدر سوار ہے کہ ہم اس کے علاوہ کچھ اور دوسری چیز دیکھنا اور سننا تک پسند نہیں کرتے ہیں. حالانکہ مذہب اسلام اپنے متبعین کو ایک خاص خدائی رنگ میں پورے طور پر کامیاب و ظفریاب دیکھنا چاہتا ہے، اور اسی کو قرآن کریم میں "صبغۃ اللہ" یعنی اللہ کے رنگ سے تعبیر کیا گیا ہے. مگر اس وقت حالت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں غیر قوموں سے مشابہت اختیار کرنے کا عمل زوروں پر ہے.

      یقیناً، آپ دیکھیں گے کہ امسال بھی سن ۲۰۲۱ء کی آمد پر کچھ اسی طرح کی محفلیں گرم ہوں گی، جیسا کہ ایک طویل مدت سے ہونے والے اعمال کی نشان دہی متذکرہ بالا سطور میں ہوئیں ہیں. جی ہاں! اس سوشل میڈیائی دور میں نازیبا و منفی افکار و خیالات پر مبنی پوسٹیں بھی لوگ ایک جنوری کو فیسبک، انسٹاگرام، ٹیوٹر اور واٹش ایپ وغیرہ پر بڑی شان سے شئیر کریں گے اور خام خیالی میں دنیا کو اپنی دانش مندی کا ثبوت دیں گے. مگر حساس طبقہ اور اسلامی اصول و ضوابط کا پاس و لحاظ کرنے والا شخص اس بات کو بہتر طور پر جانتا ہے کہ یہ ہرگز ہرگز روشن خیالی نہیں ہے، بلکہ یہ تو وہ سراسر اندھ بھکتی ہے، جو انسانی وجود کو ڈبو کر ہی دم لیتی ہے. میرے خیال سے ایسے موقع پر، امتحان میں ناکام ہو جانے یا امید بھر سے کم نمبر پانے والا ایک طالب علم جس طرح آئیندہ جم کر سچی محنت و لگن سے پڑھنے لکھنے اور بےکار وقت گزاری سے بچنے کے لیے حلف اٹھاتا ہے، اگر اسی طرح آج کا غافل انسان اپنے اندر بھی یہ حوصلہ پیدا لیں کہ ہم اس سال کو یوں ہی گزشتہ کی طرح بےکار ضائع ہونے نہیں دیں گے اور پوری بیدار مغزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شریعت کی روشنی میں ہر فعل انجام دیں گے تو وہ ضرور اپنی اجڑی زندگی میں بہار دیکھ لے گا. لیکن اگر کوئی اس کے برخلاف یہ چاہے کہ "چلو! امسال نہیں ہوا تو کیا ہوا؟ آئندہ کر لیں گے" تو ایسی سوچ رکھنے والوں کو یہ ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ گیا وقت پھر کبھی بھی ہاتھ نہیں آتا  ہے اور نہ ہی اس وقت کف افسوس ملنے سے کچھ فائدہ ہوتا ہے جب چڑیا پوری کھیت چُگ جاتی ہے. جی ہاں! وقت تو تلوار کی مانند ہے (الوقت کالسیف) اگر تم اسے نہیں کاٹو گے تو وہ تمھیں کاٹ کر نکل جائے گی.

      موجودہ دور میں جو ہر چہار جانب سے امت مسلمہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، یہ اسی بےحسی و تغافلی کا ثمرہ ہے جس کا ہم اور آپ دونوں شکار ہیں. اس وقت وطن عزیز میں وہ کون سے طریقے نہیں ہیں جو شرپسند عناصر ہمارے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہتے؟ یہ آر ایس ایس کے ایجنڈے ہماری تو شناخت نوچ لینے کے درپے ہیں، بس انھیں کہیں سے تھوڑی دیر ہی کے لیے سہی، کوئی سنہرا موقع فراہم ہو جائے. حالیہ سیاہ قانون جیسے : این آر سی، سی اے بی، سی اے اے اور این پی آر بھی ہماری اسی بے حسی ہی کا نتیجہ ہیں. میرے بھائیوں! ایسے پر آشوب دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سن ۲۰۲۰ ء کے حوالے سے غور و فکر کریں، اس کے گزرے صبح و شام میں اپنی ناکامیوں کے اسباب ڈھونڈیں، آئندہ اس کا مناسب حل تلاش کرنے کے لیے بہتر اقدامات کریں اور اللہ و اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ مکمل بھروسہ رکھیں کہ اللہ کریم کی ذات ہی کارساز حقیقی ہے…. یقین مانیے اگر یہ ہو گیا تو پھر ہم تمام تر مصائب و آلام سے نجات پا جائیں گے اور چین و سکون کی زندگی گزار سکیں گے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

30 دسمبر2020

«
»

ملک میں مسلمانوں کو اپنے وجود کا احساس دلانا ضروری ہے۔

سیاست سے حمایت تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے