نیدرلینڈز..(Netherlands)

نیدرلینڈزاپنے عالمی کردارمیں بہت سی عالمی تنظیموں جیسے یورپی یونین،نیٹو،تنظیم برائے معاشی تعاون وترقی(OECD)اورعالمی تنظیم صحت(WHO)کا تاسیسی رکن ملک ہے۔نیدرلینڈزکی سرزمین پر بہت ساری عالمی تنظیموں کے مرکزی دفاتربھی ہیں جن کی میزبانی کا شرف اس ملک کو حاصل ہے ،ان تنظیموں میں سرفہرست ’’تنظیم برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار‘‘(Organization for the Prohibition of Chemical Weapons)ہے،اس کے علاوہ دنیابھر کی پانچ بڑی عدالتوں کے صدردفاتر بھی نیدرلینڈزمیں واقع ہیں؛مستقل عدالت پنچائت(Permanent Court of Arbitration)،عالمی عدالت انصاف،خصوصی عالمی عدالت برائے جرائم سابقہ یوگوسلایہ (Inteational Criminal Tribunal for the Former Yugoslavia)،عالمی عدالت برائے جرائم (The Inteational Criminal Court)اور خصوصی عدالت برائے لبنان( The Special Tribunal for Lebanon)۔’’ادارہ ارض‘‘کے زیراہتمام اپریل 2012کے سروے کے مطابق نیدرلینڈ دنیاچوتھا خوشحال ترین ملک ہے۔یہاں دنیاکے تقریباََتمام مذاہب کی نمائندگی پائی جاتی ہے،یورپ کی معاشی ترقی میں اس وقت نیدرلینڈزایک حدتک کلیدی کردارکاحامل ہے،پونے دوکروڑ کے لگ بھگ یہاں کی آبادی ہے اور ’’ڈچ‘‘دفتری و قومی زبان کے طورپر رائج ہے۔
رومن ایمپائر چارلس پنجم اور اسکے بعد شاہ اسپین کے دور میں نیدرلینڈزکاعلاقہ’’سترہ صوبوں‘‘میں سے ایک تھا،علاقے کی تاریخ میں یہ سترہ صوبے اپنی جداگانہ جغرافیائی و سیاسی شناخت رکھتے ہیں۔اس وقت کے نیدرلینڈزمیں موجودہ بیلجئم،لیگژم برگ اور فرانس اور جرمنی کے کچھ سرحدی علاقے بھی شامل تھے۔1568ء میں ان ’’سترہ صوبوں‘‘اور اسپین کے درمیان اسی سالہ طویل جنگ ہوئی۔اس دوران1578ء میں’’سترہ صوبوں‘‘کے شمالی نصف نے اپنی الگ سے ’’جوٹرچ‘‘نام کی ایک ریاست بنالی۔نیدرلینڈزکاتاسیسی پتھر اسی ریاست میں رکھ دیاگیاتھاجہاں سے گویا نیدرلینڈزکی تاریخ کاباقائدہ آغاز ہوا۔1648ء میں اسپین کے بادشاہ شاہ فلپ چہارم نے اس ریاست کوباقائدہ طورپر تسلیم کرلیا۔آزادی کے بعدہالینڈاورزی لینڈسمیت سات صوبوں نے مل کر ’’ریاست ہائے متحدہ نیدرلینڈز‘‘کی بنیادرکھی۔اس وقت کے مطابق ان ساتوں صوبوں میں اگرچہ الگ الگ حکومتیں تھیں لیکن بہت سے معاملات مرکزکے پاس بھی تھے اور ساتوں صوبوں کے نمائندے مل کر مرکزکی پالیسی مرتب کرتے تھے۔ماہرین معاشیات کے مطابق سرمایادارانہ معاشی نظام کی جنم بھونی یہی مملکت تھی۔سترہویں صدی کے وسط میں اسی ’’ریاست ہائے متحدہ نیدرلینڈز‘‘سے انسانوں کا استحصال کرنے والے سرمادارانہ نظام نے اپنا سفرشروع کیااور ’’ایمسٹرڈم‘‘اس نظام کے تحت چلنے والے معاشی نظام کا پہلا بڑا شہر قرارپایااور دنیائے انسانی کا پہلا مکمل اسٹاک ایکسچینج یہیں قائم کیاگیا۔
نیدرلینڈزپر فرانسیسی غلبہ کازمانہ بھی گزرالیکن 1813ء میں نپولین کو یہاں بدترین شکست کاسامناکرناپڑااور اس نے مجبوراََ فرانسیسی افواج یہاں سے نکال لیں۔موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نیدرلینڈزکے شاہی خاندان کاایک شہزادہ ولیم اول یہاں داخل ہوااور16مارچ1815ء کواس نے نیدرلینڈزمیں اپنی آئینی بادشاہت کااعلان کردیا۔اس دوران نیدرلینڈزمیں غلامی کی تجارت عروج پر تھی اور آج کی انسانیت کے ٹھیکداراس وقت انسانوں کے شکاری اور انسانوں کے بہت بڑے تاجر تھے۔1863میں نیدرلینڈزمیں غلامی کے خاتمے کااعلان کردیاگیاجوبلآخر1873میں جاکرختم ہوئی۔اس طرح یورپی اقوام نے فرد کی غلامی کو ختم کر کے تو قوموں کو غلام بنانا شروع کر دیااور نیدرلینڈ کے ولندیزیوں نے انڈونیشیاکی گردن میں طوق غلامی ڈالا۔انیسویں صدی میں نیدرلینڈزکی معاشی ترقی پڑوسی ممالک کی نسبت بہت سست رہی۔بیسویں صدی کے نصف اول میں نیدرلینڈزمیں ایک لاکھ کے لگ بھگ یہودی موجودتھے،لیکن نازی جرمنی انہیں گرفتارکرکے توجرمنی اور پولینڈ میں لے گئے جن میں سے نیدرلینڈزکے کل 876یہودی بچ گئے اور باقی ہولوکاسٹ کی نذرہوگئے۔
آج نیدرلینڈزاپنی دوائیانہ پالیسیوں کی وجہ سے ایک شناخت رکھتاہے جہاں موت کو شکست دینے کی اور اسے آسان سے آسان ترکرنے کی قانون سازی عمل میں لائی گئی ہے۔ نیدرلینڈزدنیاپہلاملک ہے جہاں یکم اپریل2001سے ہم جنسیت کوقانونی تحفظ حاصل ہے۔یہ لادین عقلیت کی ایک اورجست ہے جس نے پہلے توانسان کے اخلاقی معیارات کو زمین بوس کیااور اب قبیلہ بنی نوع بشرکے خاندانی نظام کے درپے ہے۔2005ء میں علاقے کے کچھ اور جزائربھی عوامی ریفرنڈم کے بعد نیدرلینڈزمیں شال ہو گئے اور یوں یہ ایک مکمل اور وسیع ریاست بن گئی۔اب اس کا کل رقبہ41

«
»

خبر ہونے تک …..

آر.ایس.ایس. کی ذہنیت اورمسلم خواتین مجاہد آزادی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے