نیتن یاہو کے زوال کے مثبت پہلو

حسن کمال
ان کالموں کے قارئین کو یاد ہوگا کہ ’ایک بد زبان، بد دماغ اور بدتمیز لیڈر کازوال‘ کے عنوان سے لکھے جانے والے مضمون میں کہا گیا تھا کہ ہر چند اسرائیلی آئین قوانین کے مطابق بنجامین نیتن یاہو کو اکثریت ثابت کرنے کے لئے دو تین ہفتوں کی مہلت ضرور دی گئی ہے، لیکن اس کے امکانات بہت کم ہیں کہ ان کے حریف بلیو اینڈ وہائٹ پارٹی کے لیڈراور ایک سابق فوجی جنرل بنی گانز انہیں دوبارہ وزیر اعظم بننے دیں گے۔بالکل ویسا ہی ہو رہا ہے۔بنجامین نیتن یاہو نے تھک ہار کر ہتھیار ڈل دئے ہیں۔ انہوں نے صدر اسرائیل کو تحریری طور پر ا طلاع دی ہے کہ وہ اکثریت ثابت کرنے سے عاجز اور قاصر ہیں، چناچہ اب نیتن یاہو کے حریف بنی گانز کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی ہے۔ یوں تو بنی  گانزکی بلیو اینڈ وہائٹ پارٹی نے بھی نیتن یاہو کی لکوڈ پارٹی سے صرف ایک ہی زیادہ سیٹ پائی ہے، لیکن انتخابات سے پہلے ہی دیکھا جا رہا تھا کہ بنجامین نیتن یاہو کی عوامی مقبولیت میں بتدریج کمی ہورہی تھی اور بنی گانزکی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔بنی گانز ایک سابق فوجی جنرل ہیں علاوہ ازیں انہیں ان اسرائیلی مسلمان ممبروں کی حمایت بھی حاصل ہے، جنہوں نے ۱۳ سیٹیں جیت کر پہلی بار اپنی سیاسی ناگزیریت کا پتہ دیا ہے۔ بنی گانز کی بلیو اینڈ وہائٹ پارٹی کو لکوڈ پارٹی کے مقابلہ میں نسبتاً لبرل یا اعتدال پسند پارٹی مانا جاتا ہے لیکن ان کالموں میں یہ بھی واضح کر دیا گیا تھاکہ اس تبدیلی کی وجہ سے اسرائیل کی بنیادی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کا بہت زیادہ امکان نہیں ہے، لیکن شخصیات کی تبدیلیوں سے رویّوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آتی ہے۔ کبھی کبھی نظریات ایپروچ میں بھی کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑتا ہے۔ 
جیسا کہ بتایا گیا،بنی گانز سابق فوجی جنرل ہیں۔ وہ اسرائیلی فوج کے چیف بھی رہ چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ فلسطین کی حماس اور لبنان کی حزب اللہ سے ٹکراتے بھی رہے ہوں گے۔ کسی عام سیاست داں کے مقابلہ میں ایک فوجی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ مسائل جنگ کے میدان میں نہیں، مذاکرات کی میز پر ہی طے ہوتے ہیں۔ جنگ میں ہار یا جیت کے بعد بھی انجام کار میز ہی پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ دنیا کی ہر جنگ کی یہی تاریخ رہی ہے۔ فلسطین ایک ایسا مسئلہ ہے جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ اقوام متحدہ نے1948میں یہ طے کیا تھا کہ سر زمین عرب کا وہ خطہ، جسے تاریخ فلسطین کہتی تھی، دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ایک حصہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو دیا جائے گا۔ اس حصہ کو اسرائیل کہا جائے گا، کیونکہ یہودی اسے ارض موعودہ کہتے ہیں، یعنی وہ زمین جس کا خدا نے انہیں دینے کا وعددہ کیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل فی الحقیقت زمین کے کسی ٹکڑے کا نام نہیں ہے۔ توریت مقدس کے مطابق یہ حضرت یعقوب کا لقب ہے۔ اسی لئے حضرت یعقوب کی اولاد کو بنی اسرائیل کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی مذکورہ قرارداد کی رو سے اس خطہ کا دوسرا نصف ان عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کو دیا جانا تھا، جو صدیوں سے یہاں بسے ہوئے تھے۔یہودیوں کا ان کا نصف مل گیا، لیکن باقی فریق ابھی تک اپنے حصہ کی زمین سے محروم ہیں۔ اسرائیل کے وجود میں آنے کے وقت سے خطہ کے باقی نصف کے لئے جدو جہد آج بھی جاری ہے۔قرار داد کے مطابق تاریخی شہر یروشلم کو بین الاقوامی شہر کا درجہ دیا جانا تھا، جس پر سرزمین عرب میں موجود تمام مذاہب کے ماننے والوں کا حق ہوگا۔ اسرئیل کی صیہونی لیڈر شپ مسلسل ان قراردادوں کی خلاف ورزیاں کرتی رہی ہے۔ 
یہ پس منظر ہم نے اس لئے بتایا کہ فوجی ہونے کے ناطہ بنی گانز جانتے ہیں کہ فلسطینی جد و جہد کوئی غیر قانونی، غیر اخلاقی یا غیر انسانی جد وجہد نہیں ہے، جسے فوجی طاقت سے مغلوب کیا جا سکتا ہے، نہ کیا جا سکے گا، کم از کم امید یہی کی جاتی ہے۔ اسرائیل کے اگلے وزیر اعظم کے لئے چند اور زمینی حقائق موجود ہیں،جو اگر وہ چاہیں توان کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ نیتن یاہو نے انتخابی مہم کے بالکل آخری دورمیں ایک نیا نعرہ لگایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر اسرائیلی انہیں ایک بار اور وزیر اعظم بنا دیں تو وہ فلسطین کے غرب اردن (ویسٹ بینک) کو اسرائیل میں ضم کر دیں گے اور وہاں یہودیوں کے لئے نئی بستیاں بنا دیں گے۔ صیہونی توسیعی عزائم کا یہ کارڈ انہوں نے اس امید میں کھیلا تھا کہ یہودی جذبات میں بہہ کر انہیں ووٹ دے دیں گے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جذباتیت بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنے کا گْر انہوں نے کس سے سیکھا تھا۔ بہر حال یہ چال بھی انہیں ناکامی سے نہیں بچا سکی۔ بنی گانز چاہیں تواس سے ایک بہتر سیاسی سبق لے سکتے ہیں۔ مذہبی اور جذباتی مسائل کی بنیاد پر انتخابی حکمت عملی بنانا فوری فائدے تو پہونچا سکتا ہے، لیکن ان کے دور رس نقصانات کسی بھی قوم کے لئے بہت خوفناک ثابت ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی عوام زیادہ با شعور نکلے۔ انہوں نے اس جذباتی جھانسے میں آنے سے انکار کر دیا۔ دیکھنا ہے کہ بنی گانز اس تجربہ سے سبق لے کر فلسطینی مسئلہ کوحل کرنے کے لئے اپنی سوچ میں کوئی تبدیلی لاتے ہی یانہیں۔
یوں بھی مشرق وسطیٰ میں حالات جس تیز رفتاری سے بدل رہے ہیں، وہ اسرائیل کے لئے بہت سازگار نہیں ہیں۔ اسرائیل کچھ عرصہ قبل تک قانون کی فکر نہ کرنے والے ڈان کی طرح دندناتا پھر رہا تھا، وہ کیفیت اب باقی نہیں بچی ہے۔ شام سے امریکی فوجوں کے نکلنے کے ساتھ ہی اسرائیل کے لئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ جب تک امریکی فوجیں شام میں موجود تھیں، اسرائیل کو شامی فوجوں پر حملے کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ اب نہ صرف امریکی فوجیں جا چکی ہیں، بلکہ ان کی جگہ روس اور ترک فوجیں لے چکی ہیں۔ چنانچہ اب شام پر کوئی اسرائیلی حملہ روس اور ترکی پر حملہ قرار دیا جائے گا۔اسرائیل کے لئے یہ صورت حال نئی بھی ہے اور نا موافق بھی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی وہ پہلا مسلم ملک تھا، جس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے تھے لیکن طیب اردوان نے حال ہی میں یہ تعلقات توڑ لئے تھے۔ ترکی امریکہ کا اتحادی تھا، اب روس کا اتحادی ہے۔ چنانچہ اب مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو للکارنے والے ترکی اور ایران بھی بالواسطہ طور پر ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔  اسرائیل کی نئی سرکار ان حالات کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ 
ان تمام باتوں سے قطع نظرکچھ اور واقعات بھی نیتن یاہو کی مشکلیں بڑھا رہے ہیں۔ ان پر اور ان کی اہلیہ پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ ان کی بیوی پر لگائے جانے والے الزامات زیادہ سنگین نہیں ہیں۔ ان پر صرف یہ الزام ہے کہ انہوں نے اپنے دوستوں کو ایک پارٹی دی اور نجی پارٹی میں مہمانوں کی خاطر مدارات پر ٹیکس دہندگان کی رقم خرچ کی گئی تھی۔ ہندوستان میں اگر کوئی ایسا الزام کسی پر لگائے یا اسے کرپشن کہے تو لوگ بے ساختہ ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو جائیں گے۔لیکن اسرائیل کے سسٹم کی داد دینی ہوگی کہ ایسا الزام وزیر اعظم کی بیوی پر بھی لگایا جا سکتا ہے اور اس کی سنجیدگی سے جانچ بھی کرائی جا سکتی ہے۔نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انہوں نے ذاتی پبلسٹی کے لئے میڈیا پر سرکاری فنڈ استعمال کیا۔ ہم اپنے یہاں توتقریباً ہر روز وزیر اعظم کی پورے صفحہ کی تصویر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں لیکن اسرائیل میں اسے کرپشن کا نام دیا جاتا ہے۔ اسرائیل  کے آئین کی رو سے اگر کسی وزیر پر بدعنوانی کا الزام عائدکیا جائے اور بادی النظر میں وہ درست معلوم ہو تو وزیر مذکور کو فوراًاستعفیٰ دینا پڑتا ہے اور انکوائری ختم ہونے اور کلین چٹ سے پہلے اسے کسی حال میں عہدے پر بحال نہیں کیا جا سکتا لیکن آئین کی یہ دفعہ وزیر اعظم پر بھی عائد ہوتی ہے، اس بارے میں اسرائیلی آئین بالکل خاموش ٓہے۔شاید وزیر اعظم پریہ دفعہ عائد نہیں ہوتی اور اسی لئے نیتن یاہو کے خلاف انکوائری نہیں شروع کی گئی لیکن اب جب کہ وہ وزیر اعظم نہیں رہے تو انکوائری بھی ہوگی اور ان کی گرفتاری بھی ممکن ہے۔ نیتن یاہو شاید اسی لئے وزیر اعظم بننے کے لئے بے قرار تھے، اب ان کی حالت بہت مخدوش ہے۔ اسرائیل میں بدعنوای کی تفتیش میں مہینے اور برس نہیں لگتے، انکوائری دنوں اور ہفتوں میں مکمل کر لی جاتی ہے۔ اگر انکوائری میں ان پر بدعنوانی کا الزام ثابت ہو گیا تو ان کا زوال مکمل اور لازوال ہوجائے گا۔

 ۳۰ اکتوبر۲۰۱۹

«
»

نبی اکرمؐ کی مکّی زندگی اور مصائب وآلام

انصاف کے مندر میں ایک تاریخی مسجد کا کیس کیا سچائی دیکھ پائے گااندھاقانون؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے