اور جو غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کررہے ہیں اس سے نہ صرف ان کی امیج خراب ہورہی ہے بلکہ نیتیاجی کی روح کو بھی تکلیف پہنچ رہی ہوگی کیونکہ وہ کسی بھی قیمت پر خود کو یا اپنے اہل خاندان کو سنگھ پریوار کے ساتھ کھڑا دیکھنا پسند نہیں کر سکتے تھے۔
جہاں تک وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی جانب سے نیتاجی کے رشتہ داروں کی جاسوسی کا تحریری احکام جاری کرنے کا تعلق ہے تو اگر نہرو جی کا کوئی غلط مقصد ہوتا تو وہ اتنے بیوقوف تو نہیں تھے کہ وہ اس کے لئے تحریری ہدایت جاری کرتے تاکہ ان کی موت کے تقریباً پچاس برس بعد ان کے سیاسی دشمنوں کو ان کو بد نام کرنے اور ان کی کر دار کشی کرنے کا کوئی ٹھوس ثبوت مل جائے وہ جاپان میں تعینات ہندوستانی عملہ یا دہلی میں موجود انٹلی جنس بیورو کے افسران کو زبادنی ہدایات جاری کر کے تمام معلومات حاصل کر سکتے تھے جس کا کبھی کوئی ثبوت کسی کے پاس نہ ہوتا اگر انہوں نے تحری ہدایات جاری کیں اورجو فائل میں محفوظ ہیں تو یقیناًاس کا کوئی مقصد رہا ہو جو تمام فائلوں کے مطالعہ کے بعد ہی سمجھا جاسکتا ہے لیکن مودی حکومت تمام فائلیں منظر عام پر لانے کے سلسلہ میں وہی باتیں دو ہرارہی ہے جو کانگریس حکومتیں کہتی رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک صاحب ہیں انوج دھر جو ریسرچ اسکالر ہونے کا دعوا کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جو اہر لال نہرو نیتاجی کی مقبولیت سے خوفزدہ تھے اور جانتے تھے کہ ان کے واپس آنے پر وزیر اعظم کی کرسی پر عوام نیتاجی کو ہی بیٹھائیں گے جواہر لال نہرو کو اس سے زیادہ مضحکہ خیز اور حقیقت سے دور دعوا کچھ اور ہوہی نہیں سکتا ایسا نہیں کہ نیتاجی کی مقبولیت میں کوئی کمی تھی بلکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس سے الگ ہوکر اور چوری چھپے ہٹلر اور جاپانی وزیر اعظم تو جو کی حمایت لے کر آزاد ہند فوج کی تشکیل کرکے اس نیم تربیت یافتہ اور معمولی اسلحہ سے لیس فوج کو برما کے محاذپر برٹش انڈین فوج پر حملہ کرانے کی وجہ سے نیتاجی دوسری جنگ عظیم کے جنگی مجرموں کی صف میں شامل ہوگئے تھے اور وہ جب بھی سامنے آتے انہیں گرفتار کرکے نیو رمبرگ یاٹوکیو میں جاری جنگی جرائم کے ٹریبونل پیش کرنا پڑتا اسی خطرہ کے پیش نظر نیتاجی خود ہی گوشہ گمنامی میں چلے گئے تھے اور آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان کیونکہ تائیوان میں ہوائی حادثہ میں ان کی موت کی تھیوری کسی کے حلق سے نہیں اتر تی فیض آباد میں ایک گمنانی بابا کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہی نیتاجی سبھاش چندر بوس تھے کیونکہ ان کی تاریخ پیدائش سمیت ان کی صورت شکل وغیرہ اور ان کا کسی سے بھی نہ ملنا اس تھیوری کو تقویت دیتا تھا لیکن ان کی زندگی کے دوران اور ان کی موت کے بعد بھی یہ راز راز ہی رہا ۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی ہمارے دلوں میں چاہے جو عزت اور اہمیت ہو تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہٹلر اور تو جو کا ساتھ لینے کی وجہ سے وہ عالمی برادری کی نظر میں مجرم تھے اور دوسری جنگ عظیم خصوصاً یہودیوں کے قتل عام (Holocaust) کی وجہ سے ہٹلر مسولینی اور تو جو عالمی ولن بن گئے تھے ہائڈل برگ یونیورسٹی جرمنی کے پروفیسر بنجامن زکریا نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں نیتاجی اور ہٹلر کی سانتھ گانٹھ کا پردہ فاش کیاہے۔ جو ش میں آکر ہوش کھونا اور غلط قدم اٹھانا نیتاجی کی شخصیت کے لئے بیحد نقصاندہ ثابت ہوا۔
نیتاجی اور گاندھی جی میں نظر یاتی اختلاف بھی انہیں باتوں کو لے کر تھا گاندھی جی آزادی کی تحریک کو صداقت عدم تشدد اور اخلاقی اقدار کے دائرہ میں رہ کر چلانا چاہتے تھے حتی یہ کہ ہندوستان چھوڑو کر تحریک کے دوران چوری چورا ضلع گورکھپور میں ہوئے تشدد کے واقعہ سے ناراض ہوکر انہوں نے یہ تحریک ہی روک دی تھی پھر وہ نیتاجی سبھاش چندر بوس کو ہٹلرمسولینی اور توجوکی مدد لے کر اپنی فوج کھڑی کرنے اور ہندوستان پر حملہ کرنے کی اجازت کیسے دے سکتے تھے کہا جاتاہے کہ نیتاجی کی آزاد ہند فوج نے جب برما کے محاذ پر حملہ کیا اور جو جنگ کچھ عرصہ تک چلی اس میں تقریباً25 ہزار فوجی بلاک ہوئے تھے ان میں دونوں طرف سے تقریباً99 فیصدی ہندوستانی تھے پھر ایسی جنگ کا کیا فائدہ ہوا ۔ یہ کہنا کہ اس جنگ کی وجہ سے ہی انگریزوں نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا نہ صرف تاریخی حقائق کو جھٹلا نا ہے بلکہ بال گنگا دھر تلک گوپال کرشن گو کھلے، لالہ لاجپت رائے ،بپن چندر یال موتی لال نہرو سے لے کر گاندھی جی جواہر لال نہرو سر دار پٹیل مولانا آزاد اور لاکھوں نا معلوم ہندوستانیوں کی قربانیوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔ ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کی سب سے پہلی لڑائی پلاسی کے میدان میں لڑی گئی تھی اس کے بعد سے1947تک یعنی تقریباً200سال تک یہ جنگ کبھی ٹیپو سلطان ، بہادر شاہ ظفر ، رانی لکشمی بائی، تانتیا ٹوپے اور بیگم حضرت محل سے لے کر گاندھی نہرو کے دور تک جاری رہی نیتاجی کی طرح ہی راجہ مہندر پر تاپ سنگھ کی صدارت اور مولانا عبیداللہ سندھی کی وزارت عظمی والی ایک عبوری حکومت افغانستان میں قائم ہوئی تھی جس نے پہلی جنگ عظیم کے زمانہ میں سلطنت عثمانیہ سے مدد لے کر ہندوستان کو آزاد کرانے کا خواب دیکھا تھا وہ بھی ہمارے جنگ آزادی کا ایک درخشاں باب ہے اور اس کے قائد مولانا محمود الحسن اسیر مالٹا کی قربانیاں نیتاجی سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں ۔ ایمانداری اور حب الوطنی کا تقاضہ ہے کہ تمام مجاہدین آزادی کی قربانیوں کا اعتراف کیا جائے سب کی عزت اور احترام کیا جائے اور کسی کو کسی پر نہ برتری دی جائے اور نہ ہی کسی کو کسی سے کمتر سمجھا جائے سب سے اپنی اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق مادر وطن کو آزاد کرانے کی جدو جہد کی اور قربانیاں دی تھیں ۔
در اصل ہندوستان کی آزادی کا سارا کریڈٹ گاندھی جی کی قیادت میں کانگرس اور دیگر تمام مجاہدین آزادی کو نہ دے کر صرف سبھاش بابو اور ان کی آزاد ہند فوج کو دینا سنگھ پریوار کی وہ کمزوری اور شرمندگی ہے جو جنگ آزادی میں اس کا کوئی حصہ کوئی تعاون نہ ہونے کی وجہ سے اسے بار بار اٹھانی پڑتی ہے وہ اپنی اس کمزوری اور شرمندگی کو چھپانے کے لئے گاندھی نہرو اور کانگریس کے کارناموں اور قربانیوں کو دبانے کے لئے سبھاش بابو اور ان کی آزاد ہند فوج کا استعمال کررہی ہے نہرو کو سبھاش بابو کا دشمن بتانا اور ان پر اوچھے اور رکیک الزام لگانا سنگھ پریوار کی اسی حکمت عملی اور سازش کا حصہ ہے وہ گاندھی اور پٹیل کو اپنا کر اور نہرو کو ولن بناکر پیش کرکے تاریخی حقائق کو مسخ کرکے اپنے دامن کے داغوں کو چھپانا چاہتی ہے سنگھ پریوار اور اس کی ڈھولک بر دار الکٹرانک مییا سبھاش بابو کی نام نہاد جاسوسی کو تو خوب اچھالتی ہے مگر کبھی ایک بار بھی یہ نہیں بتایا کہ جب آزاد ہند فوج کے گرفتار افسروں پر لال قلعہ میں مقدمہ چلا تھا تو کئی برسوں کے بعد جواہر لال نہرو بار ایٹ لا نے کا لا گاون پہنا اور اس مقدمہ کی پیروی کرکے آزاد ہند فوج کے تمام فوجیوں کو با عزت رہا کرالائے تھے ان میں ایک جنرل شاہنواز خان تو عمر کی آخری منزل تک مرکزی کابینہ میں شامل رہے
نیتاجی کے اہل خاندان سے بھی وزیر اعظم نہرو اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کی نزدیکیاں رہیں بلکہ کہا جاتاہے کہ جب بھی نہرو کلکتہ گئے نیتاجی کے اہل خاندان سے ضرور ملتے تھے آج وہ سب کچھ بھول کر نہرو جی اور کانگریس کو ان کے اہل خاندان پانی پی پی کر گالیاں دے رہے ہیں اور نریندر مودی کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں حالانکہ ابھی تک مودی حکومت نیتاجی سے متعلق فائلوں کے سلسلہ میں وہی موقف اختیار کئے ہوئے تھی جو سابقہ حکومتوں بشمول کانگریس این ڈی اے اور دیگر مرکزی حکومتوں کا رہاہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ جرمنی کے دوران سبھاش بابو کے ایک بھتیجے نے ان سے ملاقات کرکے ان سے متعلق تمام فائلوں کو منظر عام پر لانے کی اپیل کی ادھر ان کے دیگر رشتہ داروں اور بھتیجوں نے کولکاتا میں اس کے لئے ایک ریلی بھی نکالی اس کے بعد کابینہ سکریٹری اور دیگر افسروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل کردی ہے جو فائلوں کو منظر عام پر لانے سے متعلق لائحہ عمل اور اس کے مضمرات کا جائزہ لے گی ۔ نیتاجی کی گمشدگی یقیناً ایک معمہ ہے جب تک اس راز پر سے پردہ نہیں ہٹے کا نہ صرف اٹکل بازیوں بلکہ افواہ بازی کر دار کشی اور مکر و فریب کا سلسلہ بھی چلتا رہے گا نہ صرف نیتاجی کے اہل خاندان بلکہ ہر ہندوستانی کو اس راز پر سے پردہ اٹھانے کا مطالبہ کرنا چاہئے لیکن نیتاجی کے اہل خاندان سے یہ اپیل ضرور ہے کہ وہ سنگھ پریوار کے ہاتھوں کا کھلونہ بن کر نیتاجی کی روح کو شر مندہ نہ کریں جہاں تک جواہر لال نہرو کی بات ہے تو تاریخ میں ان کا مقام محفوظ ہے ان کی کر دار کشی اور انہیں بونا ثابت کرنے کی کوشش چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے اس کا کیا نتیجہ ہوتاہے سبھی جانتے ہیں۔
جواب دیں