عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
نبی پاک ﷺکی بعثت سے قبل انسانیت فکری، عملی اور اخلاقی اعتبار سے خوف ناک تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی اورزندگی کے ہرموڑپر گھٹاٹوپ اندھیروں میں کھوئی ہوئی تھی،نہ اس کے پاس آسمانی ہدایت کی روشنی تھی، نہ ہی علم و شعورسے کسی قسم کی آگہی۔کفروشرک کی دبیز چادروں نے ذہن انسانی کوبری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، چار سونفسانیت و شیطنت رقص کناں تھی، دجل، فریب، جھوٹ اور منافقت پر مبنی انفرادی طرز عمل اور اجتماعی رویوں نے انسانی وقار کی بحالی کی ہر خواہش کو نسیاًمنسیاً کردیا تھا،جہالت و بے دینی نے خودساختہ توہمات و رسومات کے دروازے کچھ اس طرح وا کیے تھے کہ اب ان کے بند ہونے کی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی۔خود کو عرب کہنے والی مضبوط قوم اس درجہ ضعیف الاعتقادی کا شکار تھی کہ نظر بد سے بچنے،بيماريوں سے محفوظ رہنےاورسحر آسيب کی روک تھام کرنے كے ليےمختلف قسم كے تعويذات (مثلاً ہڈيوں،جانوروں كے كھُروں اور كاغذ وغيره پر لكھ منتر لکھ كر) گھر كے دروازوں كی پيشانيوں ،ديواروں اورجسم كے مختلف حصوں پر لٹكاتی اور باندھتی تھی۔نیز ان كا يہ بھی نظریہ تھا کہ جس اونٹنی کے پانچ بچے ہو چکے ہوں اور پانچواں نر ہو ،وہ بحیرہ ہے،جس کا کان چھید کر چھوڑ دیاجاتا ، وہ جہاں چاہے چرتا پھرے کوئی اس سے تعرض نہیں کرتا تھا۔ اگر بھیڑ کے نر بچہ پیدا ہوتا اس کو بتوں پر چڑھا دیتے‘ مادہ ہوتا تو اپنے لیے رکھ لیتے‘ اگر دو بچے نر و مادہ پیدا ہوتے تو اس کی قربانی نہیں کرتے اس کا نام وصیلہ ہوتا تھا۔ جس نر اونٹ کی جفتی سے دس بچے پیدا ہو چکے ہوتے اس کی بڑی عزت کرتے‘ نہ اس پر بوجھ لادتے نہ خود سوار ہوتے اور سانڈ کی طرح آزاد چھوڑ دیتے تھے اور اس کا نام حام ہوتاتھا۔بتوں کے سامنے یا بت خانوں کی ڈیوڑھی پر تین تیر رکھے رہتے تھے‘ ایک پر ’’لا‘‘ دوسرے پر ’’نعم‘‘ لکھا ہوتا‘ اور تیسرا خالی ہوتا‘یہ تیر ایک ترکش میں ہوتے‘ جب کوئی خاص اور اہم کام درپیش ہوتا تو جاتے اور ترکش میں سے ایک تیر نکالتے اگر ’’لا‘‘ والا تیر نکل آتا تو اس کام سے باز رہتے۔ ’’نعم‘‘ والا نکلتا تو اجازت سمجھتے‘ خالی تیر نکلتا تو پھر وہ دوبارہ تیر نکالتے یہاں تک کہ ’’لا‘‘ اور ’’نعم‘‘ میں سے کوئی ایک نکل آتا۔
رتم ایک خاص قسم کا درخت تھا جب کہیں سفر میں جاتے تو جاتے وقت رتم کی کسی باریک شاخ میں گرہ لگا جاتے،سفر سے واپس آ کر دیکھتے کہ اس شاخ میں گرہ لگی ہوئی ہے یا کھل گئی، اگر گرہ لگی ہوئی دیکھتے تو سمجھتے کہ ہماری بیوی پاک دامن رہی ہے،اگر گرہ کھلی ہوئی پاتے تو یقین کر لیتے کہ عورت نے ہماری غیر موجودگی میں ضروربدکاری کی ہے۔
جاہلانہ توہمات و رسومات اور من گھڑت اوہام وخیالات کی اس دنیا میں سرکار دوعالمﷺایمان کامل اور یقین صادق کی روشنی لے کر آئے اور جہنم کے دہانے پر کھڑی جاہلیت زدہ انسانیت کو عقل و شعور کی گراں مایہ دولت سے نوازا۔آپ نے ان کے سامنے اس حقیقت کو واشگاف فرمایا کہ دین حق میں بدفالی کی کوئی حقیقت نہیں،توہم پرستی کا کوئی اعتبار نہیں ،نحوست کی کوئی گنجائش نہیں ۔ہاں نیک فالی اور اچھاشگون لینا جائز ؛بل کہ مستحسن و مطلوب ہے۔بزرگان دین فرماتے ہیں کہ فالِ نیک اللہ رب العزت کی ذات سے حسن ظن کا سبب ہے؛جب کہ فال بد اللہ سے بدگمان کردیتا ہے ۔حضرت حکیم الامت ؒ فرماتے ہیں : بدفالی سے اثر نہ لینا چاہیے اس لیے کہ وہ یاس (مایوسی)ہے اور یاس کی ممانعت ہے، برخلاف نیک فالی کے کہ وہ رجا (امید)ہے اور رجا کا حکم ہے، یہ فرق ہے فال نیک میں کہ جائز ہے اور طیرہ یعنی فال بد میں کہ ناجائز ہے، ورنہ تاثیر کا اعتقاد دونوں جگہ ناجائز ہے۔
بدشگونی کی ممانعت اور اس کا علاج:
بدشگونی حرام ہے ، نبی کریم ﷺ نے بدشگونی کو واضح طورپر ناجائز قرار دیا ہے ، چنانچہ کئی روایات میں آپﷺسے اِس کی قطعی ممانعت منقول ہے ۔ علماء کرام نے اِس کے حکم کی تفصیل میں لکھا ہے کہ بدشکونی کفرہے؛جب کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ فلاں چیزنحوست کو سببِ مؤثر کے طور پر پیدا کرتی ہے ۔اور مکروہ ہے؛جب کہ یہ عقیدہ ہو کہ نحوست تو اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتے ہیں ؛لیکن عادۃ ً وہ نحوست اُس شیئ میں ہوتی ہے ۔یعنی اگرکسی چیز کو بدشگونی کے پیدا ہونے میں مؤثر بالذات سمجھا جائے بایں معنی کہ وہ چیز نحوست کے پیدا کرنے کا حقیقی اور اصلی سببِ مؤثر ہے تو یہ کفر ہے ؛ کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی صفتِ تدبیر میں دوسروں کو شریک کرنا ہے ۔اور اگر سببِ مؤثر نہ سمجھاجائے؛ بلکہ کرنے والی ذات تو اللہ تعالیٰ ہی کو تسلیم کیا جائے ،لیکن تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر صرف یہ گمان قائم کیا جائے کہ فلاں چیز میں نحوست عام طور پر ہوتی ہے تو یہ کفر تو نہیں،البتہ مکروہ ہے۔(الموسوعة الفقهيہ الكويتيہ:4/81 بحوالہ کتاب الطب)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کوئی بیماری متعدی نہیں ، بد فالی اور بد شگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔ نہ الو کا بولنا (کوئی برا اثر رکھتا)ہے اور نہ ہی ماہ صفر (منحوس)ہے۔‘‘ (صحیح البخاری:5757)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بد فالی شرک ہے، بد شگونی شرک ہے، اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے (بتقاضائے بشریت)ایسا وہم نہ ہوتا ہو؛ مگر اللہ رب العزت توکل کی وجہ سے اس کو ہم سے رفع فرمادیتا ہے۔‘‘ (سنن ابی داود:3910)
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخض اپنے کسی کام سے بد فالی کی بنا پر رکا اس نے شرک کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا اس کا کفارہ کیا ہے ؟آپﷺ نے فرمایا:اس کا کفارہ یہ دعا ہے :اَللَّهُمَّ لاَخَيْرَ إِلاَّ خَيْرُكَ، وَلاَطَيْرَ إِلاَّ طَيْرُكَ، وَلاَ إِلهَ غَيْرُكَ یعنی ’’یا اللہ ! تیری بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں۔ اور تیرے شگون کے علاوہ کوئی شگون نہیں۔ اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘۔(مسند احمد :2/ 220)
نبی کریمﷺکا ارشاد ہے کہ بدشگونی،حسد اور بد گمانی ، یہ تین چیز یں میری امت کے لئے لازم ہیں ،یعنی ضرور پائی جائیں گی ۔ ایک شخص نے کہا جس شخص میں یہ چیزیں ہوں وہ ان کو کیسے دور کرسکتا ہے ؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا :جب تمہیں حسد ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو، اور جب تمہیں کسی کے بارے میں بد گمانی لاحق ہو تو اُس کی تحقیق مت کرو اور جب کسی چیز میں تمہیں نحوست اور بدشگونی کا عقیدہ ہونے لگے تو تم اُس کام کو کر گزرو ، اُس کے کرنے سے مت رکو ۔(طبرانی کبیر: 3227)
کیا تین چیزوں میں نحوست ہے؟
حضرت ابوہریرہؓ،حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت سہل بن سعدساعدیؓ وغیرہم سے الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ مختلف کتب حدیث میں یہ روایت منقول ہے کہ حضوراکرم ﷺ نےارشاد فرمایا: ”تین چیزیں منحوس ہیں: گھوڑا، عورت اور مکان۔”
اس روایت سےملحدین یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام بھی عورت کو حقیر سمجھتا ہے اور اسے منحوس و قابل ترک شے گردانتا ہے۔حالانکہ یہ سراسر بہتان و الزام ہے،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔
حدیث پاک پر ہونے والےاس اشکال کے متعدد جوابات دیے گئے ہیں۔ ایک جواب تو یہ ہے کہ یہاں نحوست سے مراد ان چیزوں کا انسان کے لئے فتنہ ہونا ہے۔ اور اس بات میں کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ عورت فتنہ ہے، سواری یا گھر (مال و دولت) فتنہ ہیں، اور ان کے فتنہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ یہ دل لبھانے والی، زیب و زینت اور آرائش سے بھرپور چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں انسانوں کے لئے خوب کشش رکھی ہے۔ اور یہی کشش ان کے فتنہ ہونے کا باعث ہے۔یا نحوست سے ان کا ناموافق ہونا مراد ہے کہ اگر یہ تین چیزیں موافق نہ آئیں تو پھر مختلف مسائل و حالات پیدا ہوں گے جن کی تکلیف لمبے عرصے تک چلتی رہے گی۔ چنانچہ عورت کی نحوست اس کا بد زبان، بد اخلاق،شوہر کی ناپسندیدہ اور بانجھ ہونا وغیرہ ہے۔گھوڑے کی نحوست(اس میں آج کی تمام سواریاں شامل ہیں) اس کا شوخی کرنا،سواری کا دشوار ہونا،مالک کا ناپسندیدہ ہونا وغیرہ ہے۔اور گھر کی نحوست اس کا تنگ اور چھوٹاہونا، اس میں تازہ ہوا اورروشنی کا نہ ہونا وغیرہ ہے۔خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہاں نحوست سے حقیقی نحوست مراد نہیں ؛بلکہ ان کا فتنہ ہونا یا نا موافق ہونا مراد ہے۔
دوسرا جواب یہ کہ آپﷺ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ بالفرض اگر کسی چیز میں کوئی نحوست ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی؛ لیکن جب ان چیزوں میں نحوست نہیں ہے تو ان کے علاوہ کسی بھی چیز کو منحوس سمجھنا درست نہیں ہے۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس دو شخص آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے، عورت ،سواری(گھوڑے) اور گھر میں(یہ سن کر وہ) کبھی آسمان کی طرف دیکھتیں اور کبھی زمین کی طرف، ( یعنی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ناراضگی ظاہر فرمائی)اور فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے ابو القاسم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن نازل کیا ہے، آپ اس طرح نہیں فرماتے تھے؛بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو یہ فرمایا کرتے تھے کہ( اہل جاہلیت یہ کہتے تھے کہ نحوست عورت،گھر اور گھوڑے میں ہے)پھر عائشہ صدیقہؓ نے یہ آیت تلاوت کی،ترجمہ :کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔(الحدید)(مسند احمد، حدیث نمبر:26088)
اس روایت کی مزید وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت ذکر کی گئی توحضرت عائشہؓ نے فرمایا ابوہریرہ کے آنے سے قبل آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا : اللہ یہودیوں کو ان کے اس قول پر غارت کرے کہ(وہ کہتے ہیں) نحوست تین چیزوں میں ہے عورت ،گھر اور گھوڑا ۔ اس طرح انھوں نے آپؐ کے ارشاد کا آخری حصہ سنا اور پہلا نہ سنا۔(مسند ابو داؤد طیالسی 3ج/124 حدیث:1630)
نیک فالی کی ترغیب:
نیک فال لینا جائز و مستحسن ہے،مثلاً جب کوئی مریض کسی سے سنے ”یا سالِم “یا کوئی تلاش کرنے والا کسی کو ”یا واجِدُ“ کہتا ہو دیکھے تو اُس سے نیک فال لے سکتا ہے کہ میں صحت یاب ہوجاؤں گا یا مجھے گم شدہ چیز مل جائے گی ۔قافلہ کو بھی اِسی لئے ”قافلہ“ کہا جاتا ہے کیونکہ قافلہ کا مطلب ہے ”لوٹنے والا“ گویا کہ اِ س لفظ میں قافلہ والوں کے بہ خیریت واپس لوٹ کر آنے کا نیک فال لیا گیا ہے ۔(رد المحتار :2/166)نبی کریم ﷺ سے قولی اور عملی طور پر نیک فال لینا ثابت ہے ، ذیل میں چند روایات ملاحظہ ہوں :
نبی کریمﷺکا ارشاد ہےکہ :مجھے نیک فال پسند ہے ،صحابہ کرام نے سوال کیا کہ یارسول اللہ ! نیک فال کیا ہوتا ہے ؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا:اچھی بات ۔ یعنی کسی بات کو سن کر اُس سے اچھا مطلب مرادلیا جائے ۔ (بخاری: 5756)
نبی کریمﷺجب کسی حاجت کے لئے نکلتے تو آپ کو یہ سننا اچھا لگتا تھا کہ ”اے راشد! اے نجیح!“یعنی اے ہدایت پانے والے اور اےکامیاب ۔(ترمذی:1616)
ایک دفعہ نبی کریمﷺ نے کوئی اچھا کلمہ سنا ، آپ کو پسند آیا ، آپﷺنے ارشاد فرمایاکہ ہم نے تمہارے منہ سے نیک فال لے لیا۔(ابوداؤد: 3917)
نبی کریمﷺکا ارشاد ہے کہ نحوست کی کوئی حیثیت نہیں ، ہاں! فال لینا اچھی چیز ہے اور فال لینے کا یہ مطلب ہے کہ کوئی اچھی بات جو تم میں سے کوئی سنے (اور اُس کا اچھا مطلب مراد لے)۔(بخاری:5755)
حضرت بُریدہ اَسلمی ستر سواروں کے ساتھ رات کو نبی کریمﷺکے ساتھ ملاقات کے لئے آئے، آپﷺنے پوچھا : کون؟ اُنہوں نے جواب دیا :”بُریدہ“۔ نبی کریمﷺنے حضرت ابوبکر صدیق کی جانب متوجہ ہوکر فرمایا: ہماری جنگ کا معاملہ ٹھنڈا ہوگیا اور صلح ہوگئی ،(عربی میں برد کے معنی ٹھنڈک کے ہیں) پھر آپﷺنے سوال کیا کہ کِس قبیلہ سے تعلّق رکھتے ہو؟ اُنہوں نے فرمایا: قبیلۂ اسلم سے۔آپﷺنے حضرت ابوبکر صدیق سے فرمایا: ہم محفوظ ہوگئے ، پھر آپﷺ نے سوال کیا کہ بنو اسلم میں سے کِس شاخ سے تعلْق رکھتے ہو ؟ اُنہوں نے کہا :میں بنو سہم سے تعلّق رکھتا ہوں ، آپﷺنے حضرت ابوبکر صدیق سے فرمایا: تمہارا حصہ نکل آیا(عربی میں سہم کے معنی حصے کے ہیں)۔(الاستذکارلابن عبدالبر:8/514)
خلاصۂ کلام :
آج کل ہمارے معاشرہ میں بہت سے ایسے توہّمات عام ہیں جو شرعاً ممنوع ہیں، مثلاً کالی بلی سامنے سے گذر جائے تو راستہ بدل لینا چاہیے، چھُری گرے یا خالی قینچی چلائی جائے تو لڑائی ہوجاتی ہے، کوا بولے تو مہمان آجاتا ہے، دائیں آنکھ پھڑکے تو اچھی اور بائیں آنکھ پھڑکے تو بری خبر ملتی ہے، ہتھیلی میں کھجلی ہو تو دولت آجاتی ہے، جوتی پر جوتی چڑھ جائے تو سفر پیش آتا ہے، وغیرہ۔اس طرح کی تمام بد شگونیوں اور بدفالیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔نیز ماہ صفر کو منحوس سمجھنا بھی انہی اوہام و خیالات کا حصہ ہے؛جس کی احادیث میں تردید کی گئی ہے۔
مختصر یہ کہ بَدشگونی سے بلاوجہ رَنج و تردُّد پیدا ہوتا ہے،اور انسان توہمات کے سایہ تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتاہے، بَدشگونی سے مایوسی ، سُستی اور کاہلی پیدا ہوتی ہے جوتَنَزُّلی کی طرف لے جاتی ہے؛جب کہ نیک فالی انسان کو کامیابی ، حرکت اور ترقی کی طرف گامزن رکھتی ہے۔
مضمون نگا رکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں