از: سفیان سیفی ایک سخن طراز جسمانی اعتبار سے تو گھر کے محدود دائرے، یا چہار دیواری میں محصور و مقید رہ سکتا ہے، مگر اس کا مرغِ خیال سدا تصورات کی وادیوں میں پرواز کناں، چار دانگ عالم کے گلی کوچے میں سرگرداں، مصاف زندگی میں وقوع پذیر حوادث کی ان کے جزئیات کے […]
ایک سخن طراز جسمانی اعتبار سے تو گھر کے محدود دائرے، یا چہار دیواری میں محصور و مقید رہ سکتا ہے، مگر اس کا مرغِ خیال سدا تصورات کی وادیوں میں پرواز کناں، چار دانگ عالم کے گلی کوچے میں سرگرداں، مصاف زندگی میں وقوع پذیر حوادث کی ان کے جزئیات کے ساتھ تصویر کشی کرنے پر آمادۂ کار رہتا ہے لیکن وہ فی زمانہ اسی تخیلانہ جہاں گردی کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آج سنسار کے کس کس باب کو میں زیر بحث لاؤں؟ ناسازگار حالات کے کن کن پہلوؤں کو موضوع سخن بناؤں؟
ایک طرف مصائب و آلام سے جوجھتے ہوئے عوام، تو دوسری طرف سسکتے بلکتے بچے، بوڑھے اور جوان
ایک طرف نادیدہ دشمن کا خوف و ہراس، تو دوسری طرف بھوک اور پیاس، تنگدستی و افلاس
ایک طرف اس مہلک مرض کی زد میں آئے افراد جنہیں ہر دم لگا ہے اپنی جان کا روگ، تو دوسری طرف رب ذوالجلال سے عافیت اور سلامتی کی بھیک مانگتے ہوئے لوگ۔
ایک طرف کسی کو ماضی میں کی گئی محنت کے ضائع ہوجانے کا ڈر کھائے جارہا ہے، تو دوسری طرف کسی کو مستقبل کی روشن زندگی کا خواب خطرے میں نظر آریا ہے
لب کشائی کی جرأت ہو، تو کیسے ہو؟ عقل حیران و پریشاں، دل بد حواس و ہراساں، قلم لرزاں و ترساں۔ ایسے میں جب تار نفس کو چھیڑتا ہوں تو جہاں سے طوطی کے زمزمے اور بلبل کے چہچہے نکلنے چاہئے تھے وہاں سے دلگیر و اندوہ ناک تنتناتی ہوئی ایک آہ نکلتی ہے، جسے اگر رقم کرنے کو جی للچائے تو سیاہی نوک قلم سے خون بن کر بہنے لگے، خانۂ دل کا وہ حصہ جس میں خوبصورت مناظر کی دلکشی کا اندازہ اب تک ہوتا رہا اب وہاں سے صرف اور صرف خونچکاں الفاظ کی ندیاں بہتی ہیں۔
اسی بد حواسی کے عالم میں ایک حساس سخن ساز دن گزار کر رات جب بستر پر دراز ہوتا ہے تو سنّاٹے میں سائیں سائیں کے علاوہ ایک دھیمی آواز، اسے کانوں سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، کان دھرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ سید احمد شاہ عرف احمد فراز ہیں، جو شاید خلد بریں سے جہان فانی کی طرف دزدیدہ نگاہی سے جھانک کر حالات حاضرہ کے تناظر میں فرما رہے ہوتے ہیں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں
کچھ دیر سکوت فرما کر پھر گویا ہوتے ہیں
اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
آہ! دن کاٹے نہیں کٹتے، رات اپنی آغوش میں لیتی بھی ہے اور اپنے نرم و نازک ہاتھوں سے تھپتھپاتی بھی ہے مگر کیا کہوں، نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں