سہیل انجم
وہ پارٹی جس نے گوا میں اکثریت سے دور رہنے کے باوجود خرید و فروخت کی مدد سے اپنی حکومت بنا لی۔ وہ پارٹی جس نے منی پور میں پیسوں کی طاقت پر کانگریس کی حکومت نہیں بننے دی۔ وہ پارٹی جس نے کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی ایس کے کچھ ممبران اسمبلی کو خرید کر وہاں کی مخلوط حکومت گرا کر اپنی حکومت بنا لی۔ وہ پارٹی جس نے ہریانہ میں اپنے سیاسی حریف دشینت چوٹالہ سے ہاتھ ملا کر دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ وہ پارٹی مہاراشٹر میں بالکل بے بس نظر آئی۔ نہ تو خرید و فروخت کا حربہ کام آیا نہ ڈرانے دھمکانے کا۔
ابھی تو وہاں صدر راج نافذ ہے لیکن اس بات کے آثار و قرائن بہت قوی ہیں کہ وہاں جلد ہی شیو سینا، این سی پی اور کانگریس کی مخلوط حکومت قائم ہو جائے گی۔ حالانکہ بی جے پی نے یہ بیان دے کر کہ وہاں اس کی حکومت بنے گی، خرید فروخت کے امکانات کھول دیئے ہیں جس کی جانب شیو سینا نے اشارہ بھی کیا ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ یہ بیان مذکورہ تینوں پارٹیوں کے بعض لالچی ممبران کو توڑنے کا ایک حربہ ہو۔ ان پارٹیوں کو بہت ہی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ خرید فروخت اور جوڑ توڑ میں بی جے پی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔
بی جے پی مہاراشٹر میں کیوں بے بس نظر آئی اور چاہنے کے باوجود اپنی حکومت نہیں بنا سکی اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ شیو سینا نے ایسی شرطیں رکھ دیں جو بی ے پی کے لیے قابل قبول نہیں تھیں۔ شیو سینا کا دعویٰ ہے کہ ایسا الیکشن میں جانے سے قبل دونوں جماعتوں میں طے ہو گیا تھا۔ لیکن بی جے پی اس سے انکار کرتی رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایسے کسی فارمولے سے اتفاق نہیں کیا تھا کہ دونوں کا ڈھائی ڈھائی سال وزیر اعلیٰ ہوگا۔
شیو سینا کو اتنی طاقت کہاں سے مل گئی کہ وہ بی جے پی کے سامنے سخت شرطیں رکھنے پر آمادہ ہو گئی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ بی جے پی کو 105 اور شیو سینا کو 56 نشستیں ملی تھیں اس کے باوجود وہ اکڑ گئی۔ در اصل این سی پی تیسری پوزیشن میں آگئی۔ اس کی بڑی وجہ پرانے مراٹھا سیاست داں شرد پوار کی پرزور انتخابی مہم رہی ہے۔ انھوں نے این سی پی کو ایک نئی زندگی دے دی۔ اور تیسری طرف کانگریس کی بھی اپنی نشستوں میں اضافہ ہوا۔
شیو سینا کو شروع سے ہی یہ امید تھی کہ اگر وہ بی جے پی سے ناطہ توڑ لے تو شرد پوار اس کی حمایت کر سکتے ہیں۔ اور جب شرد پوار حمایت کریں گے تو کانگریس بھی کرے گی۔ انتخابات کے دوران حالانکہ ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا تھا کہ یہ تینوں پارٹیاں ایک ساتھ حکومت بنا سکتی ہیں۔ لیکن نتائج آنے کے بعد این سی پی کے بعض لیڈروں کی جانب سے ایسے اشارے ضرور دیئے گئے تھے۔ ادھر شیو سینا کے صدر ادھو ٹھاکرے کو یہ یقین تھا کہ سیاست کرکٹ میچ کی مانند ہے اس میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ وہ بھی اس حقیقت سے واقف تھے کہ سیاست میں کوئی نہ مستقل دوست ہو تا ہے نہ مستقل دشمن۔ اس لیے ان کو یقین تھا کہ اگر ایسا کچھ معاملہ سامنے آیا تو سیاست کا کھیل الٹ پلٹ سکتا ہے۔ ایک اور بات تھی جس نے شیو سینا کو بی جے پی کے سامنے سخت موقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ بی جے پی نے ان پانچ برسوں میں شیو سینا کو بہت ذلیل کیا۔ مرکزی کابینہ میں اس کے صرف ایک ہی ممبر کو رکھا۔ ریاست میں شیو سینا کی باتیں مانی نہیں جا رہی تھیں۔ وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس من مانی کرتے رہے ہیں۔
شیو سینا کو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر اس نے خود کو مضبوط نہیں دکھایا تو اس کا وجود ختم ہو جائے گا۔ جس طرح بی جے پی شیو سینا کے کندھے پر قدم رکھ کر ایوان اقتدار تک پہنچی ہے اس کے پیش نظر خطرہ اس بات کا تھا کہ وہ شیو سینا کو ختم کر سکتی ہے۔ اس لیے سیو سینا کے لیے اپنا وجود بچائے رکھنے کی جنگ کرنی تھی۔ سوال یہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسی صورت میں اس نے بی جے پی سے انتخابی مفاہمت کیوں کی۔ اس نے تنہا الیکشن کیوں نہیں لڑا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں جبکہ شیو سینا اور بی جے پی الگ الگ لڑتے شیو سینا کو زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اس نے اس کے ساتھ لڑنے کو ترجیح دی۔ یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ پورے پانچ برسوں میں شیو سینا نے بی جے پی کے خلاف خوب بیان بازیاں کیں لیکن بی جے پی مصلحتاً خاموش رہتی رہی۔ اس نے کبھی کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ شیو سینا کے مد مقابل آئے گی تو مہاراشٹر میں اس کے لیے مشکل پیش آسکتی ہے۔
شیو سینا سے الگ ہونے کی صورت میں ریاستی حکومت ختم ہو جاتی۔ لہٰذا اس نے ذلت برداشت کرنے کو ترجیح دی اقتدار گنوانے کو نہیں۔ بی جے پی یوں بھی اقتدار کی خاطر کچھ بھی کر سکتی ہے اور کچھ بھی سہہ سکتی ہے۔
ادھر جب موقع ملا تو این سی پی اور کانگریس نے بھی بی جے پی سے حساب کتاب برابر کرنے کی ٹھان لی۔ در اصل اب تک مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی کی واحد وجہ یہ رہی ہے کہ اپوزیشن نے خود کو سرینڈر کر دیا ہے۔ اگر وہ ہمت جٹا کر میدان میں آجائے تو بی جے پی کے پسینے چھوٹ سکتے ہیں۔ ایسا ہم نے مہاراشٹر میں دیکھ لیا۔ بی جے پی اقتدار کی خاطر ہر اصول کو توڑ سکتی ہے اور ہر نظریے سے سمجھوتہ کر سکتی ہے۔ اس کی متعدد مثالیں سامنے موجود ہیں۔
اس لیے اگر اپوزیشن اس کے مقابلے میں محض دو قدم ہی اس کے راستے پر چل پڑے تو اس کو اپنی اوقات سمجھ میں آجائے گی۔ ہمیشہ ہندو مسلم اور پاکستان اور گائے سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ مہاراشٹر کے عوام اور انتخابی نتائج نے یہ بتا دیا کہ اگر اپوزیشن تھوڑی سی ہمت دکھائے تو عوام اس کو اقتدار کے ایوان تک پہنچانے کے لیے آگے آجائیں گے۔ لیکن جب یہ تاثر عام ہو جائے کہ بی جے پی کا کسی سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے تو پھر وہی جیتے گی۔
بہر حال مہاراشٹر میں این سی پی اور کانگریس نے شیو سینا کے ساتھ مل کر بی جے پی کو اس کی اوقات بتا دی ہے۔ اب اگر وہاں بی جے پی جوڑ توڑ کرکے اپنی حکومت بنا بھی لیتی ہے جس کا دور دور تک امکان نہیں ہے تب بھی اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکے گا کہ اپوزیشن اٹھ کر کھڑی ہو جائے تو انتخابی دنگل میں بی جے پی کو چت کر سکتی ہے اور جس طرح مہاراشٹر میں اس کی نیا ڈوب گئی ہے دوسری ریاستوں میں بھی ڈوب سکتی ہے۔
مضمون نگار کی رئے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
19 ؍ نومبر 2019
بشکریہ قومی آواز
جواب دیں