نظر نہ لگے حیدرآباد کو!!

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

    حیدرآباد حالیہ عرصہ کے دوران خوف، اندیشوں، وسوسوں میں گھرا رہا۔ کشمیر کے جو حالات ہوئے‘ اس کا حیدرآباد سے اگرچہ کہ کوئی تعلق نہیں‘ تاہم ایک طبقہ کو اس بات کا اندیشہ ضرور رہا کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادی قابل لحاظ ہے وہاں وہاں حالات کو بگاڑنے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔ اور پھر جب بعض گوشوں سے یہ خبر پھیلی کہ حیدرآباد کو بھی مرکز کا زیر انتظام علاقہ بنایا جائے گا تو ان اندیشوں کو تقویت ملنے لگی۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے مسٹر جی کشن ریڈی مرکزی مملکتی وزیر داخلہ بنائے گئے اور ان کا پہلا بیان یہی تھا کہ حیدرآباد تخریب کاروں (دہشت گردوں) کی پناہ گاہ ہے تو یہ اشارہ سمجھ میں آیا تھا کہ حیدرآباد این ڈی اے کے نشانہ پر ہے۔ اگرچہ کہ مرکزی وزیر داخلہ مسٹر امیت شاہ نے اپنے ماتحت وزیر کو ان کے اس بیان پرسرزنش بھی کی۔ یہ سچ ہے کہ تلنگانہ میں بی جے پی کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے خاطر خواہ مظاہرہ نہیں کیا تھا مگر پارلیمانی انتخابات میں اس کے ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ عنبرپیٹ اسمبلی حلقہ سے ہارنے والے کشن ریڈی سکندرآباد پارلیمانی حلقہ سے کامیاب ہوگئے۔ کریم نگر اور نظام آباد میں ٹی آر ایس کو زبردست دھکا لگا جس سے یہ اندازہ ہوا کہ تلنگانہ کے عوام اسمبلی انتخابات میں علاقائی جماعتوں کو اور پا رلیمانی انتخابات میں بی جے پی  کے حق میں تھے۔ 2014ء کے مقابلے میں 2019ء میں بی جے پی نے اپنی تعداد ایک سے چار کرلی جس سے ان کے حوصلے بلند ہونا فطری ہے۔ دوسری جماعتوں کے مقابلہ میں بی جے پی‘ منظم، منصوبہ بندطریقہ سے پارٹی کے ہر رکن تک اپنی رسائی کو یقینی بناتے ہوئے اپنے ہدف کی تکمیل کرتی ہے‘ یہ اس نے گذشتہ دو انتخابات میں ثابت کیا ہے۔ 2023ء کے اسمبلی اور 2024ء کے پارلیمانی انتخابات میں حکمراں جماعت کا تختہ الٹنے کے عزائم کے ساتھ اور پورے جوش و خروش کے ساتھ کام کررہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی حالت اور ان کی کارکردگی کے پیش نظر آج کی تاریخ میں ایسا ممکن نظر آتا ہے۔ تلنگانہ کا مرکز حیدرآباد ہے۔ کشمیر کے جو حالات حالیہ عرصہ کے دوران رہے ہیں۔ 70برس پہلے حیدرآباد اِن حالات سے گذر چکا ہے۔ حیدرآبادی عوام بالخصوص مسلمانوں کو اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑے ہونے کے لئے 30-35برس کا عرصہ لگا اور گذشتہ 30-35برس کے دوران حیدرآباد نے ایک بار پھر پورے ہندوستان میں ایک ایسے شہر کے طور پر پہچان بنائی ہے جہاں کے مسلمان دوسرے شہروں کے مقابلے میں کسی قدر بہتر موقف کے حامل ہیں۔ حیدرآباد کے ہندوستان میں انضمام کے بعد شاید کسی کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ حیدرآباد اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور وقار کو دوبارہ حاصل کرسکے گا۔ تنگ نظر عناصر‘ فرقہ پرست طاقتیں ہمیشہ سے حیدرآباد کے دکنی کلچر کے رنگ کو بدلنے کے لئے کوشا رہی ہیں‘ کبھی اسے بھاگیہ نگر کا نام دینے کی کوشش کی گئی‘ حالانہ بھاگمتی محض ایک فرضی اور افسانوی کردار ہے۔
    ابھی تک تو حیدر کرار کرم اللہ وجہ و رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے موسوم اس شہر کا نام ابھی تک برقرار ہے۔ مگر اس بات کا اندیشہ ضرور ہے کہ اگر سیاسی حالات آج جیسے نہ ہوں‘ تو اس شہر کا نام بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ تعصب پرستوں نے اسلامی اور ہندو فن تعمیر کے حسین امتزاج، ہندو مسلم اتحاد، یکجہتی کے گہوارے جامعہ عثمانیہ کے کردار اور اس کے لوگو کو تک بدل دیا۔ کئی تاریخی عمارتوں کے وجود کو ختم کردیا اور بعض کو مٹادینے کی کوشش جاری ہے۔ اب اس بات کی بھی کوشش ناممکن نہیں کہ کسی بہانے سے حیدرآباد کے موجودہ موقف کو تبدیل کرکے اسے اس طرح سے تقسیم کردیا جائے کہ صدیوں سے جو علاقے اپنی منفرد شناخت کے حامل ہیں‘ ان کی شناخت ہی ختم کردی جائے۔ حالیہ عرصہ کے دوران میڈیا میں جو خبریں آئی تھیں اس کے مطابق مجلس اور ٹی آر ایس کی طاقت کو کم کرنے کے لئے تلنگانہ میں سردھڑ کی بازی لگائی جائے گی۔ حیدرآباد مجلس کی سیاسی طاقت کی بدولت بھی پورے ملک میں مسلم سیاسی طاقت کا حامل شہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور بیرسٹر اسدالدین اویسی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا ثبوت ہے کہ ملک کے دیگر شہروں سے یہ خواہش کی جارہی ہے کہ وہاں بھی مجلس کی شاخیں قائم کی جائیں۔ مسلمانوں نے حیدرآباد سے ہٹ کر تلنگانہ کے مختلف علاقوں میں تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کا ساتھ دیا۔ تاہم بعض حساس نوعیت کے بلس کی منظوری میں ٹی آر ایس کے رول سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ پہلے جیسا خوش نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں اس کا اثر ہو۔ جس طریقہ سے بی جے پی رکنیت سازی کی مہم چلارہی ہے اور جس طرح سے دوسری جماعتیں بتدریج مسلمانوں سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اس سے آثار یہی ہے کہ اگلے چند برسوں میں عوام کا مزاج بھی بدل سکتا ہے۔ اور سیاسی حالات بھی۔ بی جے پی کے پاس یقینا اپنی بات ہر فرد تک پہنچانے کے لئے سرکاری مشنری اور وسائل ہیں‘ جس کا وہ صحیح استعمال کررہی ہے۔ یہ وسائل پیشرو حکومتوں کے پاس بھی رہے مگر انہوں نے اس کا استعمال نہیں کیا۔ جس کی قیمت انہیں چکانی پڑی۔ اور اب تک جس تیزی سے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین، ارکان اپنی وفاداریاں بدل رہے ہیں اور ”جئے رام رمیش“ جیسے سینئر قائدین تک  موجودہ وزیر اعظم کی کارکردگی کے گن گانے لگے ہیں تو اس سے یہی اندازۃ ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں جس طرح سے ایک قوم‘ ایک کارڈ  کا نعرہ لگایا گیا اُسی طرح ایک ملک ایک جماعت کا نعرہ بلند ہوگا اور اپوزیشن جماعتوں کے انتشار ان کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے عوام بھی اس نعرے کے ہمنوا ہوجائیں گے۔ اور جب ایسا ہوگا تو ہمارے شہر کے نام اور کردار کو بدل بھی دیا جائے تو کوئی آواز اٹھانے والا نہ ہوگا۔ اور آواز اٹھیں گی بھی تو سنائی نہیں دیں گی۔ ایوان پارلیمان میں ہماری آواز احتجاج کے لئے بلند ہورہی ہے‘ ساری دنیا میں یہ سنائی دے رہی ہے مگر اکثریت جس کے پاس ہے اُسی کی چلتی ہے۔
    آنے والے حالات کیا ہوں گے‘ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے‘ چوں کہ خالق کائنات نے انسان کو شعور عطا کیا جس کی بدولت وہ آنے والے حالات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان جو چاہتا ہے وہی ہونا ضروری نہیں۔ منصوبے لاکھ بنائے جائیں‘ ہوتا وہی ہے جس میں اللہ کی مرضی شامل ہو۔مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ غفلت میں سوئے ہوئے بندوں کی وہ مدد نہیں کرتا۔ وہ ایسے حالات ضرور پیدا کرتا ہے جس سے قوم اپنے آپ کو سنبھال سکے۔ اگر وہ حالات کو سمجھنے سے قاصر رہے یا اسے سمجھنے کی کوشش نہ کرے تو پھر زوال‘ پستی‘ مظلومیت‘ اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اللہ رب العالمین ہے‘ جو قوم محنت کرتی ہے‘ جو اپنی منزل پالینے کی جستجو کرتی ہے‘ اس کی مدد کرتا ہے۔اب ہمارا کام ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں‘ محاسبہ کریں۔ہم اپنے اطراف و اکناف کے حالات سے لمحہ بہ لمحہ واقف ہیں‘ مگر یہ واقعات ہمیں جھنجھوڑنے یا خواب غفلت سے بیدار کرنے کے بجائے ہماری وقت گذاری کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ بدترین حالات کا مشاہدہ بھی ہم کرتے ہیں تو یہ ہمارے لئے ایک ڈاکومنٹری فلم سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ ہمارے سنبھلنے کے لئے آخری موقع ہے۔ کل حالات ہمارے موافق نہ ہوں گے‘ تو کوئی آنسو پونچھنے والا بھی نہ ہوگا۔ اس سے پہلے کہ ہمارے قدموں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگے‘ اپنے قدم کیسے مضبوط کئے جائیں اس پر غور کریں۔اور جب اس کی وجہ معلوم ہوجائے تو عمل بھی کریں۔
    حیدرآباد ہر دور میں بین مذاہب اتحاد و یکجہتی کا مرکز رہا ہے۔ حالات چاہے کتنے بھی خراب ہوجائیں‘ ہم اپنے شہر کی روایات، اپنی تہذیب کو متاثر نہ ہونے دیں۔اب تک ہم جذباتی ثابت ہوئے ہیں۔ اب تجربات کی روشنی میں پورے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے اپنے شہر، اپنی ریاست، کے کردار اور اس کی انفرادیت کو بچانے کیلئے ایک ہوجائیں۔یہ حیدرآبادی عوام کی خوش نصیبی ہے کہ حالیہ عرصہ کے دوران انہیں انجنی کمار جیسا پولیس کمشنر ملا جنہوں نے اس شہر میں امن و امان قائم کرنے کے لئے ایک پولیس آفیسر سے زیادہ ایک اچھے انسان کی حیثیت سے جو رول ادا کیا وہ ہمیشہ حیدرآباد کی تاریخ میں زریں حروف میں محفوظ رہے گا۔ انہوں نے جس طرح سے سوشیل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ہندوستان مسلم عوام کے درمیان نفرت اور دشمنی کی دیوار گرانے کی کوشش کی وہ دوسرے شہروں کے پولیس عہدیداروں کے لئے قابل تقلید ہے۔ ایسا ہی رول سیاسی اور مذہبی قائدین کو بھی ادا کرنا ہے۔کیوں کہ اس وقت آپ کو ہم کو مشتعل کرنا ہمارے دشمنوں کی سازش اور کوشش ہے۔ صبروتحمل کمزوری نہیں‘ بلکہ طاقت ہے۔ کمزور وہی ہے جو فوری مشتعل ہوجاتا ہے اور سب کچھ لٹاکر ہوش میں آتا ہے۔ عقلمند اور طاقتور وہ ہے جو تعصب فرقہ پرستی کی آگ پر اپنے صبر و تحمل سے قابو پالیتا ہے۔ حیدرآباد کو اور اس کے کردار کو دشمنوں کی سازشوں اور تعصب پرستوں کی نظربد سے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے یہ ثابت ہوجائے کہ آپ کی اپنی کوئی طاقت اور اتحاد سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

24اگست ۲۰۱۹

«
»

عاشورہ کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے