نئی حکومت، نئی امیدیں، نئے خدشات!!!

کانگریس اور دیگر پارٹیوں کی کے لئے ایک سبق آموز عبرت بن گیا ۔ہندوستان کے نئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی شب وروز کی جد وجہد کا حسین ثمرہ پالیا۔مہنگائی، رشوت اورلاقانونیت کو فروغ دینی والی حکومت کو انہوں نے اقتدار سے اس طرح محروم کردیا کہ اب وہ اپوزیشن میں بھی نہیں بیٹھ سکتی ہے۔
گجرات میں مسلم نسل کشی کے مجرم نریندر مودی اب ہمارے وزیر اعظم ہیں۔ ان کی شاندار کامیابی پر ملک اور بیرون ملک سے مبارکبادی کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان نے پہلی فرصت میں اپنے یہاں آنے کی دعوت بھی دے دی ہے۔ہاں لالو پرساد کا یہ جملہ بھی تاریخ کا حصہ بن گیاکہ میں نریندر مودی کو مبارک بادی کیوں دوں ،فرقہ پرستی کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی۔ مفاد پرستی کی سیاست ہمارے پیشہ میں نہیں ہے۔
ہندوستان کی ایک ارب پچیس کروڑ عوام سے ان کا وعدہ ہے کہ مودی حکومت آنے کے بعد ہندوستان کا نقشہ بدل جائے گا۔ہر طرف ترقی کا دور دورہ ہوگا، جوکام گذشتہ ساٹھ برسوں میں کانگریس نے نہیں کیا مودی حکومت صرف ساٹھ مہینے ان تمام کاموں کو کرے گی۔ہندوستان کو درپیش معاشی مسائل نجات دلائے گی ۔آسمان چھوتی مہنگائی پہ کنٹرول کرے گی۔رشوت خوری اور کالابازاری کے دھندے کو بند کرے گی۔ ملک میں جاری فرقہ پرستی کی آگ کو بجھائے گی۔ اس نئے حکومت سے اس طرح کی بے شمار امیدیں وابستہ ہیں ۔اور یہی توقع ہے کہ مودی حکومت سیکولزم اور آئین ہند پہ عمل کرتے ہوئے کارہائے حکومت کو انجام دے گی۔
بی جے پی کی یہ تاریخ ساز جیت دراصل آرایس ایس کی بے پناہ جد وجہد کا نتیجہ ہے اسی کو دوسرے لفظوں میں یہ کہ سکتے ہیں یہ آرایس ایس کی جیت ہے مسلم مخالف طاقتوں کی فتح ہے۔ لہذا یہ حکومت بھی سنگھ پریوار کے کنٹرول میں ہوگی اور آرایس ایس کے مقاصد کو بروئے کار لائے گی۔ آرایس ایس کے نظریات کیا ہیں اس سے سبھی واقف ہیں ۔ لہذا اس حکومت کے آنے کے بعد بہت سی امید وابستہ ہونے کے ساتھ نئے امکانات و خدشات بھی ہیں۔
یہ کہنے کی ضررورت نہیں ہے کہ بی جے پی کی تاریخ ساز جیت سے پورا ملک سکتے میں آگیا ہے۔ہر انصاف پسند شخص تعجب کی دنیا میں غوطہ زن ہے کہ یہ کیا ہوگیا؟ ۔ملک کی عوام نے کیا فیصلہ کیا؟ ۔ایک ایسا شخص جو متنازع ہے۔ قتل و غارت گری، خواتین کی عفت و عصمت کو تار تار کرنے اور مختلف الزامات میں گھرا ہوا ہے وہ کیسے وزارت عظمی کی کرسی تک پہونچ گیا اور اب کیا ہوگا ملک کا؟ ۔یہاں کی جمہوریت کا ؟۔سیکولزم پر مبنی آئین کا ؟۔ اقلیتوں اور مسلمانوں کے ساتھ کیسا رویہ اپنائے گی یہ حکومت ؟ ۔کیا بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کردی جائے گی ؟۔ یکساں سول کوڈ کو نافذ کردیائے گا؟ کشمیر سے آرٹیکل 370کو ختم کرکے پورے طورپر اس کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کردیا جائے گا؟ ۔آسام کے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر اسے ملک بدر کردیا جائے گا؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر مسلمان اور سیکولرزم کی ذہنیت رکھنے والے ذہن و دماغ میں کھٹک رہے ہیں، انہیں سوچ کر ہر کوی پریشان ہے ۔خوف وہراس میں مبتلا ہے۔ ان امکانات و خدشات سے خوف زدہ ہے ۔ملک کا سیکولزم انہیں خطرے میں نظر ارہا ہے۔جمہوریت خون ہوتا ہوا دکھ رہاہے۔
اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی دورائے نہیں کہ بی جے پی کی یہ تاریخ ساز کامیابی ترقیاتی ایجنڈے پر نہیں بلکہ ہندتو کاکاڑد کھیلنے پر ہوئی ہے۔ آرایس ایس کی خاص جد وجہد اور شب وروز کی محنت کا یہ نتیجہ ہے ۔ اس حقیقت کا اعتراف پارٹی کے سینئرلیڈر ایل کے اڈوانی نے بھی کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تاریخ ساز کامیابی کا کریڈٹ مودی کودینے کی بجائے یہ کہا ہے کہ کانگریس کی خراب کار کردگی بی جے پی کے جیت اصل وجہ ہے۔ اس انتخابی نتائج سے خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں ۔تاریخ پہ نگاہ رکھنے والوں کو بی جے پی کا وہ جملہ یاد ہوگا جو انہوں نے اپنی پہلی حکومت کے دوران کہا تھا 249249کہ ابھی ہماری حکومت مخلوط ہے اس لئے ہندتوکے ایجنڈے کو نافذکرنا ناممکن ہے تاہم جب واضح اکثریت سے ہماری حکومت بنے گی تو ہم اپنا ایجنڈا نافذ کریں گے249249۔ حالیہ انتخابی نتائج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دو قومی نظریہ کے حامل ہندوستان میں فرقہ پرستی اور کمیونلزم پہ یقین کرنے والی جماعت سبقت لے گئی اور سیکولر جماعت بہت پیچھے رہ گئی۔ کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کو ملنے والی شکست بہت شکوک وشبہات کو جنم دیتی ہے۔اتنا تو واضح ہوگیا ہے کہ اس مرتبہ ذات پات کی بنیاد پر ووٹ نہیں پڑا ہے بلکہ مذہب کو لوگوں نے وجہ ترجیح بنایا ہے۔ اگر ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی ذات پر مبنی ووٹنگ ہوتی تو شاید ملائم سنگھ، لالو پرساد نتیش کمار اور مایا وتی کا اتنا براحال نہ ہوتا ۔ویسے اتر پردیش میں 73سیٹوں پر بی جے پی کی کامیابی اور بی ایس پی کا صفر رہنا یہ بتارہا ہے کہ بی ایس پی کا اندرونی طور پر بھاجپا کو سپورٹ تھا۔مغرپی اور مشرقی یوپی کے چند ساتھیوں نے بھی اپنے گاؤں کی سیاسی سرگرمیوں کا تذکرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں خفیہ طور پر چماڑوں میں مایا وتی کی جانب سے یہ بات پھیلائی گئی تھی کہ ا س مرتبہ بھاجپا امیدوار کو ووٹ ڈالو اور چماڑوں نے ایساہی کیا۔ اپنا ایک ایک ووٹ بی جے پی کو دیا۔مایاوتی انتخابی سرگرمیوں سے بالکل غائب تھی، نہ اس نے کہیں ریلی کی نہ کہیں روڈ شو اور نہ کوئی اشتہارکیا ۔اب بھی اسے مکمل صفایا ہوجانے کے باوجود کوئی افسوس نہیں ہے ۔مایا وتی کی گہری سازش شاید 2012 کے ریاستی انتخاب میں شکست کے انتقام پر مبنی ہے جس میں مسلمانوں نے یک طرفہ سماج وادی کوووٹ دیا تھا۔کانگریس بھی بہت پیچھے جاچکی ہے اور شکست کے اس دل دل سے نکلنے میں اسے برسوں لگیں گے۔ کانگریس کی شکت یہ کہ رہی ہے کہ کانگریس کی موجودہ قیادت سے عوام مطمئن نہیں ہیں،راہل اور سونیا کے رہتے ہوئے اس زوال سے نکلنا بہت مشکل لگ رہا ہے ۔یہ بھی امکان ہے کانگریس میں اختلاف پیداہوجائے پھوٹ پڑے اور اس کے کچھ لیڈران بھاجپا سے ہاتھ ملا لیں۔آزاد ہندوستان کا یہ وہ واحد انتخاب ہے جس میں مسلم ووٹ بینک بالکل بے اثر ثابت ہواہے۔بادشاہ گر کی حیثیت رکھنے والے غلامی کی دہلیز پہ پہونچ گئے جس کے لئے نام نہاد مسلم قیادت اور غیر ذمہ دارانہ قائدین بھی کسی حد تک ذمہ دار ہیں۔
مودی ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں وہ اس مقام تک خالص ہندتو ایجنڈے کی بنیاد پر پہونچے ہیں۔ ان کی کامیابی میں مسلمانوں کا کوئی خاص رول نہیں ہے۔ اب اگر وہ چاہیں تو اپنے ایجنڈے کی بنیاد پر حکومت کرسکتے ہیں ۔اس کا وہ اشارہ بھی دے چکے ہیں ۔گجرات ماڈل کا نفاذ ان کا اصل منصوبہ ہے جس کی حقیقت مسلمانوں کا قتل، ناموس کی آبروریزی اور فرضی انکاؤنٹر ہے۔ وہ اگر ایسا نہیں کرتے ہیں اور خدا نہ کرے بلکہ سیکولزم پر عمل کرتے ہیں،ہندوستان کے ایک ارب پچیس کروڑ عوام کے ساتھ انصاف کرتے ہیں تو پھر یہ ان کی سیکولرشخصیت اور ایک اچھے حکمرا ں کی علامت ہوگی۔ اوریہی ہونا چاہئے بصورت دیگر مسلمان اسے براداشت نہیں کریں گے اور جس طرح انگریزوں سے مسلمانوں نے اس ملک کو آزاد کرایا تھا وہ سنگھ پریوار سے بھی آزاد کرالیں گے۔
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑادئے گھوڑے ہم نے

«
»

حد قذف(احکام و شرائط)

’’بوکوحرام تنظیم ،،کاوجود :منظر پس منظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے