جبکہ اکثر ہم نے دو سگے بھائیوں کو جہاں کوئی تیسرا دشمن نہیں ہوتا صرف زر زمین اور جائیداد کیلئے آپس میں خون خرابہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور کبھی وقت کے قابیل ہابیل کا قتل بھی کرد یتے ہیں۔یعنی اگر دولوگوں کے بیچ کوئی روکنے والا ہاتھ نہ ہو تو طاقتور ہمیشہ کمزوروں پر ظلم کرتا ہے اور ایسے میں جبکہ ایک فریق غیب پر ایمان لائے اور دوسرے فریق کا مذہب ہی زر زمین کی پوجا کرنا ہو تو پھر دنیا کا کوئی بھی اصول جو مادیت کی بنیاد پر قائم ہو دونوں کے بیچ میں زیادہ دنوں تک اتحاد کا ماحول قائم نہیں رکھ سکتا ۔ہندوستان میں اکثریت بہر حال ہندوؤں کی تھی مگر ہندو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔اپنے لبرل خیال کی وجہ سے تحریک کے لبرل خیال لیڈروں کے ساتھ نظر آئے اس لئے آزادی کے بعد جو بھی دستور عمل میں آتا اس مخلوط کثیر آبادی کے جذبات اور حقوق کو نظر انداز کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔کانگریس چونکہ ان دونوں نظریات کی نمائندہ تنظیم تھی اس لئے اکثر کانگریسی لیڈروں کے انداز گفتگو میں فرق آنے لگا ۔اسی لئے مسلمانوں کا ایک کثیر طبقہ جو اپنے مذہب اور عقیدے کے تئیں سنجیدہ تھا اور مستقبل کے حالات پر اس کی نظر بھی تھی وہ بدلے ہوئے ان حالات سے متنفر نظر آنے لگا ۔اس کے باوجود کہ کانگریسی لیڈروں نے اپنی عیاری اور مکاری سے اتحاد بنائے رکھنے کی کوشش کی اور اپنے زبانی عہد وپیمان سے کانگریس تحریک کے مسلم لیڈران کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہے ۔مگر مسلمانوں کا ایک دوسرا طبقہ اس اتحاد کے زبانی وعدوں پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔شاید اس کی وجہ کانگریس میں شامل شدت پسند ہندو ذہنیت کی شمولیت بھی رہی جو کانگریس میں بھی ہندتو نظر یے کی بالادستی کے خواہاں رہے ہیں ۔مسلم لیگ کا قیام اسی ذہنی تضاد کی وجہ سے ہواتھا۔اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کی لڑائی کیلئے ہندوؤں اور مسلمانوں کا اتحاد صرف وقتی اور مصلحت کی بنیاد پر قائم تھا۔اور پھر وہ یہ کیسے بھول سکتے تھے کہ جنہوں نے کسی نہ کسی طرح انگریزوں کے دور تک عام ہندوؤں پر اپنا دبدبہ بنائے رکھا تھا ۔انہیں صرف انگریزوں سے آزادی نہیں مل رہی ہے بلکہ وہ ایک ہزار سال بعد عالمی سیاست میں قدم رکھنے میں کامیاب ہو رہے ہیں جسے وہ دوبارہ کھونا نہیں چاہتے تھے ۔شک وشبہات اور کچھ ہندو لیڈروں کے اسی عزم و اظہار کی کی اس کشمکش میں دونوں نظریے کا وجود جو آزادی کے دوران دبا ہوا تھا آزادی کے قریب آتے ہی تحریک کی شکل میں تبدیل ہو گیا۔مسلم لیگ جس کا وجود مسلمانوں کے حقوق ومطالبات کیلئے عمل میں آیا تھا اس نے کچھ ہندو لیڈروں کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے نظریہ پاکستان کی تجویز سامنے رکھ دی ۔جس کا ایک تفصیلی جائزہ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ’’ہندوستان نے آزادی حاصل کرلی ‘‘ میں پیش کیا ہے۔حالات اتنے کبیدہ ہوئے کہ اگر یہ تجویز نہ قبول کی جاتی تو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خون خرابے کا ماحول قائم ہو جاتا ۔اب سوال ہندوستان کے بٹوارے کا تھا کہ اسے کیسے عملی شکل دی جائے ۔اگر یہ بٹوارہ مسلمانوں کی پوری آبادی کے انتقال کی شکل میں مان لیا جاتا جیسا کہ مسلم لیگ کے لیڈران چاہتے تھے تو ہندودو طرح سے خسارے میں رہتے ۔ایک تو یہ کہ ایک بہت بڑا رقبہ پاکستان کے حصے میں شامل ہو جاتا اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کی غیر موجودگی میں خود ہندوؤں کے دیگر طبقات میں لسانی ثقافتی اور علاقائی تنازعے اور بھی شدت اختیار کر جاتے جیسا کہ ماؤوادی ،بوڈولینڈ ،گورکھا لینڈاور جنوب اور شمال کا جھگڑا ابھی بھی موجود ہے ،مگر ملک کے کچھ ذہن سیاستدانوں نے یا یوں کہہ لیجئے کہ برہمنوں نے جو بڑی تعداد میں سرکار کے اندر شامل ہیں دہشت گردی اور مسلمانوں کا خوف دلا کر ہندوؤں کی دیگر برادریوں کو متحد رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب ’’کرکرے کو کس نے مارا‘‘میں اسی نظریے کی نشاندہی ایک دوسرے انداز میں یوں کی ہے کہ ہندوستان میں برہمن قدیم زمانے سے عام ہندوؤں پر اپنی مرضی کا مذہب اور قانون تھوپتے رہے ہیں اور جب کچھ لوگوں کی طرف سے سوال اٹھایا جاتا تو کہتے یہ ایشور کی طرف سے ہے اور انہوں نے پورے ہندو سماج کو برہمن ،چھتری ،ویش اور شدرکے نام سے چار حصوں میں بانٹ رکھا تھا اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں مغل اور انگریزی حکومت کے دور میں بھی جاری رہا ہے ۔مگر انیسویں صدی کے درمیان جیوتی راؤ پھولے نے برہمنوں کی اس سازش کو بے نقاب کرنے کی تحریک چھیڑدی اور اپنی بات عام کرنے کیلئے عام ہندوؤں کیلئے اسکول کھولے کہانیاں لکھیں ،گیت لکھے تاکہ مختلف انداز میں عام ہندوؤں کو بتایا جائے کہ برہمنوں نے کس طرح عورتوں کو سماج میں بندی بناکر رکھا ۔عام ہندوؤں کو تعلیم روزگار ،تجارت سے دور رکھا اور برسہا برس تک ان میں کوئی دانشور پیدا نہیں ہونے دیا ۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کی اس تحریک سے کولہا پور کے مہاراجہ ساہوجی اور بڑودہ کے مہاراجہ سیاجی راؤ گائیکواڑ بھی متاثر ہونے لگے ۔اس طرح عام ہندوؤں کی بہت بڑی آبادی برہمنوں کو اپنی پسماندگی کا سبب ماننے لگی ۔جیوتی راؤ پھولے کی اس تحریک کے اثر انداز ہونے کے بعد برہمنوں کو یہ خطرہ لاحق ہونے لگا کہ کہیں ہندوؤں کی اس بیداری کی وجہ سے عام ہندو سماج میں ان کا اقتدار اور وقار خطرے میں نہ پڑ جائے ۔ان کے کچھ دانشوروں نے پونے میں ایک اجلاس منعقد کیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ عام ہندوؤں کے ذہن کو کسی طرح اس تحریک کی طرف سے موڑ دیا جائے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ عام ہندوؤں کو مسلمانوں سے لڑادیا جائے ۔اور پھر انہوں نے پونے میں 1893 میں پہلا فساد کرواکر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی اور اسی سال حادثاتی طور پر ممبئی میں بھی فساد پھوٹ پڑا ۔ اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔اپنی اسی حکمت عملی کو منصوبہ بند طریقے سے انجام دینے کیلئے برہمنوں نے 1925 میں آر ایس ایس کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں ذرائع ابلاغ اور خفیہ تنظیم کی طاقت کو اپنے قبضے میں لینا ہوگا جو عوام کی رائے میں تبدیلی لانے میں بہت موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی درمیان ہندوستان نے آزادی حاصل کرلی اور آر ایس ایس ان دونوں اداروں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب بھی ہو گئی۔آر ایس ایس کی اپنی تحریک بہر حال اس لئے بھی جائز تھی کہ ہر قوم اپنی بقا اور بالادستی کیلئے مواقع کی تلاش میں ہوتی ہے ۔اور اس نے حالات کی نزاکت اور چیلنج کو قبول کرتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کی اور وہ کامیاب بھی رہے ۔اس کے علاوہ ایسے نازک حالات اور موقع پر جواہر لال نہرو اور گاندھی جی کی ذہانت نے وہ کارنامہ انجام دیا جو ایک طاقتور فوج بھی انجام نہیں دے سکتی تھی ۔یعنی جس طرح مسلم لیگ کے رہنماؤں نے یا اقبال اور مودودی نے محمد علی جناح جیسے انتہائی سیکولر اور قوم پرست شخصیت کی ذہنیت کا رخ موڑکر مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت یایوں کہہ لیجئے کہ دانشور طبقے کو اپنی حمایت کیلئے آمادہ کرلیا ۔جواہر لال نہرو اور گاندھی جی نے مولانا ابوالکلام آزاد اور جمعیتہ العلماء کو اپنے اعتماد میں لیکر مسلمانوں کی تقریباًدس کروڑ آبادی کو نظریہ پاکستان سے الگ کردیا ۔یعنی سب سے پہلا حملہ مسلمانوں کے اتحاد پر کیا گیا جو اگر پاکستان کا حصہ بن جاتا تو ہندوستان کیلئے اس لئے خطرناک نہ ہوتا کہ پاکستان کی آبادی اور رقبے میں اضافہ ہو جاتا ۔1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی شکل میں ہم نے اس اتحاد کا حشر بھی دیکھ لیا اور موجودہ پاکستان میں نظریاتی تصادم کا مستقبل کیاہوگا اس کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے ۔بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے نہ رہنے سے آر ایس ایس کے سامنے ہندوؤں کو ڈرانے کیلئے کوئی چیلنج نہ ہوتا اور ہندوستان میں بھی وہی ہوتا جو پاکستان میں ہو رہا ہے اور وہ تحریکیں جس کا ذکر ہم اس مضمون میں کر چکے ہیں پوری طرح کھل کر سامنے آجاتیں اور پھر آر ایس ایس اور اس کے زر خرید میڈیا کیلئے اس کا مقابلہ کرنا بہت آسان نہ ہوتا ۔مگر آر ایس ایس نے آزادی کے بعد کھل کر مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کو لیکر ہندوؤں کو ورغلایا ہے کہ اگر انہوں نے تھوڑا بھی اپنی ذمہ داری سے غفلت برتا تو ہندوستان میں تیسرا پاکستان قائم ہوجائے گا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سمندر کے اندر چھوٹی مچھلیاں بڑی مچھلیوں سے ڈر کر ادھر ادھر ہاتھ پیر مار تیں اور طاقتور ہوتیں مگر ہو یہ رہا ہے کہ آر ایس ایس اور اس کا میڈیا اور اب خفیہ تنظیموں نے بھی مسلمانوں کے تعلق سے پورے ہندوستان میں یہ ماحول بنادیا ہے کہ مسلمان ایک بہت بڑی مچھلی ہے اور وہ تمام چھوٹی چھوٹی ہندو مچھلیوں کو نگلنا چاہتا ہے ۔اس طرح ہندوؤں کی حفاظت اور قیادت کیلئے آر ایس ایس نے سینکڑوں چھوٹی بڑی تحریکیں قائم کردی ہیں جو ہر موقع پر ہندوؤں کے ساتھ ہوتی ہیں یا ان کی قیادت اور رہنمائی کیلئے تیار ہیں ۔جبکہ مسلمانوں کی دس کروڑ کی آبادی جو کہ اب تیس کروڑ میں تبدیل ہو چکی ہے ،اب اسے نام نہاد ابولکلام بھی نصیب نہیں یا یوں کہا جائے کہ آزادی کے بعد ایسا ماحول تیار کیا گیا کہ مسلمان خود اپنے مسلمان رہنماؤں سے بد ظن نظر آئے اور اب تو مسلمان قائد اعظم کا سبق بھی نہیں پڑھنا چاہتا جبکہ اسلام اور مسلمانوں کا سب سے پہلا اور اول کلمہ ہی یہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کلمے کی حقیقت اور غرض و غایت کو سمجھنے کیلئے تیار بھی تو ہو اور پھر جب کسی قوم کا کوئی قومی تصور کوئی رخ ،نصب العین اور نظریہ ہی نہ ہو تو اسے قائد اور رہبر کی ضرورت ہی کیا ہے ؟جبکہ وقت کے رسول نے جہالت کے جس ماحول سے مشرکین مکہ کو باہر لانے کیلئے آواز دی تھی تب ان قبائیلیوں کے بھی اپنے سردار تھے اور وہ اپنے سردار کے حکم کے پابند تھے ۔مگر آج بھی مسلمانوں میں گجرات کی چیلیا برادری ،بوہری اسمٰعیلیہ خاندان ،خوجہ اور بھٹکل کے نوائطی کسی حد تک اس اصول پر قائم ہیں تو ان کی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔مگر عام مسلمان پانچ وقت کی نماز ادا کرکے بھی مومن کے گمشدہ خزانے سے محروم ہے۔
جواب دیں