مسلمان سڑکوں پر احتجاج اور مظاہرے کیلئے مجبور ہوئے ۔مگر ہماری حکومت اور پولس کو پر امن احتجاج بھی اچھا نہیں لگا ۔سلمان رشدی کے خلاف پرامن احتجاج کررہے مظاہرین پر پولس نے گولیاں برسائیں اور 12 مسلمان شہید کردیے گئے ۔ایسے میں کمیونسٹون ،سوشلسٹوں اور لبرسٹوں نے پولس اور حکومت کی رسمی مذمت کی اور بعد میں مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا اور اخبارات میں مختلف عنوانات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستانی مسلمان انتہا پسندی کی طرف راغب ہے اور وہ آزادی نسواں اور آزادی اظہار رائے کا مخالف ہے ۔یہ طالبانائز یشن ہے جسے کسی طور برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔آر ایس ایس کا اپنا مقصد بھی پورا ہوتا ہوا نظر آیا کیوں کہ اس نے ہندوستان کی ایک بہت بڑی آبادی کو اگر اپنی حمایت میں نہیں تو کم سے کم مسلمانوں کے خلاف ضرور کرلیا تھا اور ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آر ایس ایس کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے انہیں حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب تک جتنے ووٹ اپنی جھولی میں بٹور لئے تھے اس سے بھی کہیں زیادہ ووٹوں سے وہ کامیاب ہو کر آسکتی تھی کیوں کہ ملک کی ایک بہت بڑی آبادی کانگریس کی بھی اپنی طرز حکمرانی سے نالاں اور متنفر تھی اور اس نے ماضی میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کوجتنے شاندار طریقے سے اقتدار تک پہنچایا تھا اتنی ذلت اور رسوائی سے انہیں نیچے دھکیل بھی دیا ۔مگر کوئی ٹھوس سیاسی متبادل نہیں ہونے کی وجہ سے یا بعد میں جنتا پارٹی اور جنتا دل کے سیکولر محاذ نے بھی عوام کی تمناؤں پر کھرے نہیں اترنے کی وجہ سے دوبارہ کانگریس کینام نہاد سیکولر ذہنیت کو قبول کرنا مناسب سمجھا ۔
نرسمہا راؤ اس بات کو سمجھ رہے تھے کہ راجیو گاندھی کی قتل کی صورت میں ہمدردی کی جو لہر دوبارہ کانگریس کی طرف آئی ہے ایک بار پھر کانگریس کے خلاف ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اور عوام جس نے کہ کانگریس جنتا پارٹی اور جنتا دل کی صورت میں تیسرے محاذ کا بھی امتحان لے لیا ہے ۔بھاتیہ جنتا پارٹی کی طرف جھکنے کی کوشش کریگی اور اتر پردیش میں اس نے اپنی حکومت بنا بھی لی تھی ۔اس ماحول میں شدت پیدا کرنے کیلئے ہندوتو تنظیموں نے بابری مسجد کے خلاف تحریک میں اور بھی شدت پیدا کردی اور 1993 کے الیکشن سے پہلے جبکہ کارسیوا کا یہ وقت نہیں تھا اور مرکزی حکومت کو الیکشن کے مد نظر اس کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی مگر اس نے ایسا ہونے دیا ۔جہاں تک ہمارا خیال ہے آر ایس ایس کے لیڈران خود بھی نہیں چاہتے تھے کہ مسجد کو شہید کیا جائے جیسا کہ حال میں مودی کے بیان سے بھی ظاہر ہو تا ہے کہ ہندوتو تحریکیں مندر سے زیادہ شوچالیہ کو اہمیت دیتی ہیں۔مندر اور مسجد کا مسئلہ تو انہوں نے مسلمانوں کو ہٹ دھرم اور ضدی ثابت کرنے کیلئے اٹھایا ہے اور ہندوؤں کا ایک سیکولرطبقہ جو مسلمانوں کی درگاہوں اور مسجدوں کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کی ذہنیت کو اس پروپگنڈے کے ذریعے مسلمانوں سے دور کردیا جائے کہ جو مسلمان تمہارے رام کو تمہارا دیوتا تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور ان کے نام پر ایک مسجد کی قربانی نہیں دے سکتا وہ تمہارا خیر خواہ اور محسن کیسے ہو سکتا ہے؟آر ایس ایس اور دیگر ہندو تنظیمیں اپنے اس مقصد میں پوری طرح کامیاب ہو جاتے اگر بابری مسجد شہید نہ کی جاتی ۔مگر مسجد کے شہید ہو جانے کے بعد ہندوؤں کا ایک بڑا سیکولر طبقہ جو کانگریسی سرکاروں سے بدظن تھا اوردوبارہ بی جے پی کو لانے کیلئے مجبور تھا بدظن ہو گیا اور بی جے پی نے جو بازی جیت لی تھی وہ دوبارہ ہار گئی ۔ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ خود آر ایس ایس کے اعلیٰ لیڈران بھی نہیں چاہتے تھے کہ مسجد شہید ہو مگر انہوں نے اپنی دیگر ذیلی تنظیموں اور لیڈران کو مسجد شہید کرنے کیلئے اکسایا تو اس لئے کہ مرکزی سرکار ایسا نہیں ہونے دے گی اور اگر ملائم سنگھ کی طرح گولی چلوانے کا حکم د ے دیا اور کار سیوکوں کی ہلاکت ہوتی ہے تو انہیں لاشوں پر سیاست کرنے کا موقع فراہم ہوجائے گا۔اور پورے ملک کے ہندوؤں کی ہمدردی ان کے ساتھ ہو جائے گی اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے تئیں عوام کی ہمدردی کو ختم کرنے کیلئے نرسمہا راؤ نے مسجد کو شہید ہوجانے دیا جبکہ اگر مرکزی حکومت چاہتی تو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فوج بھیج کر حالات پر قابو پاسکتی تھی۔ مگر حکومت نے عام کارسیوکوں کو عارضی مندر بنانے تک کا پورا وقت دے دیا اور پھر سب کچھ ہوجانے کے بعد کانگریس کے تمام سیاست داں مگر مچھ کے آنسو بہانے لگے۔
عام مسلمان یہ سمجھتا رہا کہ بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی جبکہ آر ایس ایس کے تمام لیڈر ان اس حادثے کے بعد سکتے میں آگئے کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہو گیا ۔ ان کا مقصد مسجد کو سلامت رکھ کر اقتدار حاصل کرنا تھا جیسا کہ ہم پچھلے مضامین میں ذکر کرتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودگی مختلف طبقات اور برادریوں میں بٹے ہوئے ہندوؤں کی سالمیت کے حق میں ہے تاکہ ان کا خوف دلاکر ہندوؤں اور ہندوستان کو متحد رکھا جاسکے۔انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر شیکھر گپتا نے ایک بار آر ایس ایس کے آنجہانی رہنما کے پی سدرشن سے ایک انٹر ویو کے دوران بابری مسجد کی شہادت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے برجستہ اس کاالزام نرسمہا راؤ پر لگایا تھا اور کہا کہ آر ایس ایس مسجد کی شہادت کے حق میں نہیں تھی مگر کانگریس نے پہلے سے منصوبہ بنالیا تھا ۔اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے گاندھی جی کے قتل کا الزام بھی کانگریس پر عائد کیا اور کہا کہ جس گولی سے گاندھی جی کا قتل ہوا وہ ناتھو رام گوڈسے کے ریوالور سے نہیں چلی تھی ۔ بلکہ انہیں تھوڑی دور کے فاصلے سے گولی ماری گئی تھی۔سدرشن کی بات کہاں تک سچ ہے اور کہاں تک غلط ۔لیکن ارباب اقتدار کی طرف سے جو سازشیں کی جارہی ہیں اور جس طرح پارلیمنٹ حملے میں افضل گرو کو پھانسی دی گئی اور 26/11 کی دہشت گردی میں ہیمنت کرکرے کو مسلمانوں کے حق میں انصاف کرنے کی سزا دی گئی مشہور ومعروف مصنف ارون دھتی رائے اور ایس ایم مشرف نے اس پورے واقعے کو ڈرامے بازی قرار دیا ہے اور یہ کہنے کی جرات کی ہے کہ کس طرح آر ایس ایس نے آزادی کے بعد انٹیلیجنس اور میڈیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر یہ کہنا کہ یہ ادارے پوری طرح آر ایس ایس کے زیر کنٹرول ہیں غلط ہے۔حکومتیں خود بھی اپنے مقاصد کیلئے ان اداروں کا استعمال کرتی ہیں ۔اور ایسے بہت سے واقعات اورتخریب کاری کے واقعات کا حکومت اور حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کو پتہ ہوتا ہے جس پر حکومتیں بر وقت کارروائی کرتے ہوئے قابو پاسکتی ہیں ۔مگر انہوں نے اپنے سیاسی مفاد کے تحت ایسا نہیں ہونے دیا ۔مثال کے طور پر ممبئی ٹرین بم بلاسٹ کے بعد ملک میں جتنے بھی دھماکے ہوئے ان دھماکوں سے پہلے کانپور سے لیکر مہاراشٹر کے بیشتر علاقوں میں بم بناتے ہوئے کون لوگ پکڑے گئے ۔یہ سارے لوگ ہندو تنظیموں کے لیڈران تھے مگر ممبئی ،مالیگاؤں ،اجمیر ،مکہ مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس وغیرہ کے تمام دھماکوں میں گرفتاری مسلم نوجوانوں کی ہوئی ۔آخر کیوں ؟کیا مسلمانوں کی کوئی تنظیم یا مسلم لڑکے بڑے پیمانے پر ہونے والی تخریب کاری سے پہلے کہیں بم بناتے ہوئے پکڑے گئے ؟اورنگ آباد اسلحہ ضبطی معاملے میں کچھ مسلم نوجوانوں کو ایک ماروتی کار میں اسلحہ لے جاتے ہوئے گرفتار ی دکھائی گئی مگر یہ اسلحے حقیقت میں ان مسلم لڑکوں نے کسی تخریب کی منصوبہ بندی کیلئے جمع کئے تھے یا پولس نے خود فرضی کہانی بنانے کیلئے ایسا کیا تھا جیسا کہ اکثر ہوتا ہے۔اور گذشتہ دنوں ہماری خفیہ ایجنسیوں نے کشمیری ملیٹنٹ کو نیپال کی سرحد پر کچھ ہتھیاروں کے ساتھ گرفتار کیا تھا جبکہ یہ شخص حوالگی کے قانون کے تحت اپنے بچوں کے ساتھ ہندوستانی پولس کی تحویل میں اپنے آپ کو دینے کا فیصلہ کر چکا تھا جس کی اطلاع پولس کو بھی تھی ۔بعد میں عمر عبداللہ کے سخت بیان کے بعد تحقیق کی گئی اور اسے رہائی ملی سوال یہ ہے کہ پولس نے جو اسلحے کی کہانی بنائی تھی وہ اسلحہ کہاں گیا اور ان پولس افسران کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی ؟جنہوں نے یہ جھوٹی کہانی تیار کی تھی۔کبھی کبھی کچھ کہانیاں برسر اقتدار سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھی تیار کی جاتی ہیں پھر یہی لوگ خاطی پولس افسران کو بچانے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور اکثر پولس افسران سیاستدانوں کی بھینٹ بھی چڑھ جاتے ہیں ۔گجرات میں پولس افسر ونجارا کے عبرت ناک انجام کے پیچھے یہی سیاست کار فرما تھی جو اپنے اختیارات اور لالچ کے جنون میں مودی کا آلہ کار تو بنے مگر جب مودی نے دیکھا کہ ونجارا کے ساتھ مودی کا اپنا بیڑہ بھی غرق ہونے والا ہے تو اسے ڈوبنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا ۔سوال یہ ہے کہ جب ہم یہ ساری باتیں جانتے ہیں کہ بی جے پی ہو کہ سماج وادی پارٹی یا کانگریس یا کوئی اور جب سارے مسلمانوں کے خلاف سازش اور قتل عام میں یکساں شریک ہیں تو پھر مسلمانوں کا اپنا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے اورکیا مسلمانوں کی کسی مذہبی اور سیاسی تنظیم نے کسی ٹھوس قدم اور حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ؟ یا مستقبل کے متعلق کوئی لائحہ عمل مرتب کیا ہے؟آخر کب تک ہندوستانی مسلمان ان سازشیوں کا نرم چارہ بنتے رہیں گے اور کب تک ہماری مسلم تنظیمیں خاموش رہینگی یا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر خطروں سے خودکو اور امت کو بھی محفوظ سمجھ رہی ہیں؟
جواب دیں