’’ فیاضی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ مقروض رہے یہاں تک 1845ء میں جائیداد محمد سعید خاں روائی رامپور کے پاس رہن رکھدی ، نہایت خوش طبع ، اور مہمان نواز تھے۔ سپاہنانہ مزاج تھا ۔ شکار کے قوقین تھے ۔بندوق کا نشانہ خوب لگاتے تھے ۔ مرزا شاہ رخ بہادر شہزادہ دہلی اور راجہ ہند راؤ بھی یہاں شکار کرتے تھے اور انگریزی حکام بھی ‘‘ ( ضمیمہ سرکشی ضلع بجنور ص 134)
1857کی جنگ آزادی کی تاریخ نواب محمود خاں کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔ سرکشی ضلع بجنور کا مرکزی کردار اصل نواب محمود خاں کی ذات گرامی ہی ہے اور اس سبب سے نواب صااحب کے کارناموں کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ اس کتاب کے مصنف بابائے نثر جدید ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بانی اور قوم و وطن کے عظیم محسن سر سید احمد خاں ہیں اور سر سید کی انگریز حکومت اور انگریز قوم سے وفا داری روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ سرسید پہلی جنگ آزادی کے دوران بجنور میں صدر امین کے عہدے پر فائز تھے ۔ ’’ سرکشی ضلع بجنور ‘‘ اس زمانے کے واقعات اور حادثات کا ایک طرح سے روز نامچہ ہے عام خیال ہے کہ سر سید کی انگریزوں سے عشق کی حد تک وفاداری سے اس کتان کی غیر جانب داری بھی متاثر ہوئی جو تاریخ نگاری کے اصول کے خلاف ہے ۔ ڈاکٹر شرافت حسین مرزا کے الفاظ میں :۔
’’۔۔۔ اس میں جا بجا قومی رہنماؤں آزادی کے جاں نثاروں ، ضلع کے مقتدر اور با اثر حضرات اورقابل احترام شخصیتوں کا ذکر جس انداز سے کیا ہے ۔۔۔ مثلا نواب محمود خاں کے لئے ہر جگہ ’’تا محمود خاں لکھا ہے پھر حرام زادہ ، بدمعاش ، بد ذات ، مفسد م نمک حرام ، کمبخت ، جیسے الفاظ ضلع کے باشندوں کے لئے استعمال کئے ہیں ۔ اور انگریز حکام اور ان کے ساتھیوں کی تعریف کی گئی ۔۔صاحب، بہادر ،آقا ، دام ظل کم وغیرہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔۔۔‘‘(مقدمہ ص 76)
ایسی صورت میں جب مندرجہ ذیل واقعات سر کشی ضلع بجنور سے برآمد ہوتے ہیں تو نواب محمود خاں اور ان کے ساتھی مجاہدین کے کارناموں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔
ضلع بجنور کی بغاوت کے اسباب میں نا خواندگی، جہالت ، افلاس وغیرہ کو بھی ڈکل ہے جس کی تمام تر ذمہ داری ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے ایجنٹو کی تھی ۔ انگریز حکام کو ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح ضلع بجنور کے عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہ تھی ، عوام کی حیثیت جانوروں ست بد تر سمجھی جاتی تھی ۔ انہیں تو قدم قدم پر اپنی
قوم اور اپنی حکومت کا مفاد تلاش کرنا تھا ۔
ادھر میرٹھ کے واقہ کا ثر پورے وطن کے سا تھ ساتھ پڑوسی ضلع بجنور پر ہونا گزیر تھا ۔19مئی 1857کی مراد آباد کا جیل خانہ ٹوٹا تو ضلع بجنور پر بغاوت کے اثرات رو نما ہونے لگے ۔ اسی دوران سف منا کی باغی کمپنی جس میں تین سو سپاہی تھے جسے رڑکی سے سہارنپور کمانڈر ان چیف نے کمیول میں شمولیت کے لئے بھیجا گیا تھا ۔ جام حریت سے سر شار ہو کر باغی ہو گئے ۔ یہ سر فروش پہلے لنڈھورا کی رانی کے پاس پہنچے اور کہا کہ اگر آپ ہمیں نوکر رکھ لیں تو ہم رڑکی کے گرد نواح کے علاقے انگریز وں سے آزاد کراکے آپ کی ریاست میں شامل کر دیں ‘‘۔۔۔ رانی کے انکار پر یہ سر فروش نواب محمود خاں کی خدمت میں آئے ( ص 105)
نواب نے اپنے رفقاء کے مشورہ کے بعد معاملات طے کرکے انہیں بجنور بھیجا لیکن نا سازئی حالات کے سبب یہ لوگ راستے سے لوڑ کر نگینہ چلے گئے اور کمال بہادری سے تحصیل نگینہ لوٹا دیگر سامان کے ساتھ 10348روپے نقد تھے (ص108 )
اسی دوران بجنور کا جیل خانہ ٹوٹا جو شری رام سروپ صوبیدار کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا بھرہم پور لٹا ۔ اسی دوران نواب محمود خاں ساٹھ ستر فوجیوں کے ساتھ کچھ خالی گاڑیاں لے کر سرکاری خزانہ لوٹنے کی غرض سے بجنور پہنچے ۔( بقول سر سید) لیکن خزانہ تو کنویں میں ڈال دیا گیا تھا ۔ یکم جون 1857کو نواب پھر بجنور گئے ۔ کلکٹر کی کوٹھی میں ڈیرہ ڈال دیا ۔ سر سید کو نواب کی باتوں سے بغاوت کا اندازہ ہوا ۔ سر سید کو علم تھا کہ اس وقت پورے ضلع میں اپنی ہر دل عزیزی اور مقبولیت کے سبب نواب محمود خاں کے علاوہ دوسری کوئی شخصیت نہیں ہے ۔ضلع کے عوام کا خیال تھا کہ انگریزی حکومت ختم ہو جائے گی اور نواب محمود خاں ان کا بادشاہ بنے گا ۔ سر سید اپنے حکام کے مشورے سے رات کو خود نواب کے پاس گئے اور مصلحت آمیز گفتگو کی ۔( بقول سر سید )اور نواب کو یقن دلایا کہ آپ فساد کا ارادہ ترک کر دیں میں کوشش کرکے افسران ضلع کی سفارش سے سرکار انگریز سے پورے ضلع کی عمل داری اور حکومت آپ کو دلادوں گا ‘‘۔ نواب صاحب نے سر سید کو مشورہ دیا کہ آپ اس تحریک میں ہمارے ساتھ آجائیں اور منھ مانگی مراعات حاصل کرلیں ۔ کوئی معاملہ طے نہ ہو سکا ۔صرف اتنا ہوا کہ نواب نے انگریزی حکام کو بعافیت ضلع چھوڑنے کی اجازت دیدی اور سر سید اپنے آقا کی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے اور نواب محمود خاں کے حوالے ضلع کی حکومت با انتظام کلکٹر کی تحریر کے ساتھ کر دیا گیا ۔ اس جاں بخشی کا صلہ انگریزی حکام نے جس طرح دیا اس کا ذکر آگے آئے گا ۔یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ضلع نواب صاحب کے سپرد کرنے سے پہلے کلکٹر نے جو ہلدور کے نز رئیس تاج پور سے مشورہ کیا تھا اور جودھرایان نے یہ ذمہ داری قبول کر نے سے انکار کر دیا تھا ۔
نواب محمود سرکاری خزانہ کنویں سے نکال کر احمد اللہ خاں کے ذریعہ نجیب آباد لے آئے نواب کے بھانجے ان کی فوج کے افسر اور با اختیار شخصیات میں سے ایک تھے ۔
اسی دوران ضلع کے چودھری صاحبان اور نواب کے درمیان صلح صفائی اور معاہدے طے ہوئے ایک طرف گنگا جل اٹھایا گیا دوسری طرف قرآن کریم پھر دستخط کئے گئے ۔ اسی دوران مرادآباد سے باغی فوجیوں کی آمد کا انتظار تھا عمرہ خاں کے ذریعہ شہنشاہ ہندوستان بہادر شاہ کی خدمت میں عرضی راونہ کی گئی تھی جواب کا انتظار تھا ۔
اور شیر کوڑ کے ماڑے خاں کا مسئلہ در پیش تھا ۔۔
یکم جولائی 1857بہادر شاہ ظفر کی جانب سے نواب محمود خاں کو ضلع بجنور کی حکومت کی سند عطا کی گئی اور امیر الدولہ ضیاء الملک محمد محمود خاں بہادر ظفر جنگ کے خطاب سے نوازہ گیا ۔ ( نقل فر مان بزبان فاسی ص 156پر درج ہے)
اس کے بعد نواب محمود نے انگریزی بانٹ تبدیل کرادےئے نئے باتوں پر’’ وللہ نور السموات ولارض ‘‘
نیت کرایا گیا ۔ اوقر پورے ضلع میں اپنی حکومت کا اعلان کردیا ۔
ماڑے خان کا مختصر حال
’’ اصل نام امام بخش تھا ماڑے عرفیت ۔۔ شیر کوٹ سے تعلق تھا ۔ ہمت و جرائت خدا داد تھی ، جماعتی نظم و نسق کا سلیقہ تھا ۔ انگریزی انتظام کے خاتمے پر شیر کوٹ کے سر براہ لوگوں نے قصبے کی حفاظت ان کے ذمہ کی ۔ موصوف نے رضا کاروں کا ایک دستہ بنا لیا جس نے بعد میں ایک با قاعدہ فوج کی شکل اختیار کر لی ۔ نواب محمود کی حکومت ہوئی تو احمد اللہ خاں مال گزاری کی غرض سے ان کے پاس پہنچے ماڑے خاں نے ہتھیار کھول کر ان کے سامنے رکھ دےئے احمد اللہ خاں نے اسلحے واپس لئے اور ماڑے خاں کو ضلع کی فوج کا کمانڈر بنادیا آخر تک پوری ہمت و جرائت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دےئے ‘‘( حالات قلمی ماڑے خاں ) حاشیہ ص 151)
ان حالات پر بھی انگریز سرکار سے عوام کی نفرت ’’ نواب محمود کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور طاقت پر انگریز حکام کی نظر تھی ان کے پاس صدیوں پرانا آزمودہ نسخہ تھا ’’ یعنی تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ اس سلسلے میں جو شرمناک سازش کی گئی ان کا علم شاید سر سید کو بھی نہ تھا اور اس سے پہلے ضلع میں ہندو مسلم اتحاد کی جو خوسگوار صورت تھی اس کا ثبوت خود سر کشی ضلع بجنور کے صفحات پر بھرا پڑا ہے ۔ اس محبت و میل جول کو نفرت میں بدلنے کے لئے جو ثبوت ملتے ہیں ان میں سے ایک مثالec j. lAWR en
کا یہ بیان ہے :۔
’’ اگر مسلمان اور ہندو لڑتے ہیں تو جتنا بھی لڑیں ہمارے لئے بہتر ہے انہیں آپس میں ایک دوسرے کو ذبح کرنے دیجےئے اور دہلی پر قبضہ کے بعد ہمارا پورے روہیکھنڈ پر دوبارہ فتح پانا زیادہ مشکل نہ ہوگا ۔‘‘( مقدمہ سر کشی ص 53)
اور لارڈ النفنٹس ، گورنر ممبئی اپنی بادانستہ میں لکھتا ہے ( مئی 1859 )
نفاق ڈال کر حکومت کرنا رومیوں کا اصول تھا ، یہی اصول ہمارا بھی ہونا چاہئے ‘‘ ص 56
یہ نسخہ آزمایا گیا اور نہایت کار گر ثابت ہوا ۔وہی مسلمان جو کل تک آپسی لڑائیوں کے بعد بھی مندروں کا8 تحفظ کرتے رہتے تھے اور وہی ہندو چودھریان جنہوں نے کئی مقامات پر مسجدوں کو شہید ہونے سے بچایا تھا انگریزوں کے جھانسے میں آگئے وہی چودھرایان ہلدور اور تاج پور جنہوں نے نواب کے مقابلہ میں ضلع کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے سے صاف انکار کردیا تھا انگریزی حکام کی ہدایتوں اور سازشوں کا شکار ہو کر نواب کے مقابلے پرآگئے یہ بات بھی ایک نا قاب؛ تردید حقیقت ہے کہ اب تک کی چھوٹی موٹی لڑائیوں میں بھی پس پردہ انگریزوں کی سازشیں کارفرماں تھیں ۔
15اگست 1857کوانگریزوں کے اشتراک سے ہلدور کے چودھری مہاراج سنگھ اور چودھری نین سنگھ اور بجنور کے چودھری جودھا سنگھ وغیرہ نے کثیر فوج کے ساتھ بجنور میں نواب سے بر سر پیکار ہوئے ۔ نواب کے پاس اس وقت چودھریان کے مقابلے میں دس پندرہ فیصد سے زیادہ فوج نہ تھی اور حملہ اچانک ہوا تھا چنانچہ نواب کو شکست ہوئی لیکن چودھری فوج کے سپاہیوں نے فتح کے بعد جہاں نواب کے ٹھکانوں کو لوٹا اور نذر آتش کیا وہاں الیگزینڈر شیکسپر کلکٹر بجنور کا ذاتی سامان اور سرکاری اسٹامپ تک لوٹے گئے اس سے ضلعن کے عوام کی انگریز سے نفرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ( ص 174)
پھر چودھریوں نے رنگ روٹوں کے ذریعہ کھاری کو آگ لگائی گئی ، سوا ہیڑی کی مسجد شہید ہوئی اور مسلمانوں مارے گئے ۔ چھتاور کی مسجد توڑی گئی ، رئیسان نگینہ کی عورتوں اور بچوں کو زخمی کیا گیا اور عورتوں کو بے عزت کیا گیا ۔ اس کا رد عمل یہ ہوا کہ 30اگست 1857کو احمد اللہ خاں نے جماعت کثیر لے کر سواہیڑی پر حملہ کیا اور سارے گاؤں کو آگ لگادی اس کے بعد احمد اللہ خاں نے نگینہ پر حملہ کیا اور وہاں کے وشنوؤیوں سے شدید انتقام لیا ۔ ہلدور کی پہلی لڑائی ہوئی اور نواب کی فوج فتح یاب ہوئی اور انگریزوں نے جو توپیں اور جدید اسلحہ جات چودھریوں کی فوج کو دےئے تھے سب نواب کے فوجی چھین لائے ۔۔ لیکن نواب کی فوج کی واپسی کے بعد ہلدور میں چن چن کر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا یہاں تک کہ سر سید اور ان کے ساتھی مسلمان افسران بھی بال بال بچے ۔
23اگست1857کو انگریزوں کے عملی تعاون سے چودھریوں نے جماعت کثیر کار گر ہتھیار لے کر نواب محمود سے پھر جنگ کی اور احمد اللہ خاں اور ماڑے خاں کی سر کردگی میں پھر نواب کو فتح نصیب ہوئی اور کثیر مال غنیمت جس میں توپیں اور اسلحہ جات بہت تھا ہاتھ آیا ۔
اس کے بعد بقول سر سید :۔
’’ تمام ضلع میں نواب کی بے کھٹک حکومت ہوئی اور جملہ مشیران نواب ضلع کے انتظام کی طرف متوجہ ہوئے ‘‘
عدالت فوجداری و کچری وغیرہ کی مہریں سے ضلع بجنور کا نام موقوف کرکے ’’ تحت حکومت نجیب آباد ‘‘ ثبٹ کرایا گیا ۔
اس کے بعد پھر ایک بار انگریزوں نے چودھریوں سے مل کر فوج کثیر اور زبردست جنگی ہتھیاروں کے ساتھ نجیب آباد پر چڑھائی کا ارادہ کیا چمڑولی میں جنگ ہوئی اور پھر نواب محمود خاں فتح یاب ہوئے ۔
بالا آخر 26سمبر کو ان میں صؒ ح صفائی ہو گئی ۔
اس طرح کے چھوٹے موٹے ان گنت معرکے ہوتے رہے اور نواب محمود خاں فتح یاب ہوتے رہے اور انگریز اور ان کے ساتھی شکستوں پر شکست کھاتے رہے ۔ اب نوابوں کا اگلا قدم ضلع سہارنپور کو فتح کرنا تھا ادھر انگریزوں نے مخبروں اور جاسوسوں کا جال بچھا دیا تھا جن سے نواب محمود خاں کو ابردست نقصان پہنچا ان مخبروں میں ایک شاعر وحید الزمان صدیقی احمق ساکن فرخ آباد عرف جلال آباد ضلع بجنور میں تھا جسے قوم فروس کے صلہ میں دو ہزارہ ملا تھا ( تہ کرہ رام پور ص 437)
نواب ک کی فوجوں نے کھنکھل کا رخ کیا جنوری کا مہینہ تھا سردیوں کے موسم میں دریا با آب تھا انگریزوں کو تو جاسوسوں کے ذریعہ پتہ چل گیاتھا جیسے ہی لشکر گنگا کے وسط میں پہنچا سرکاری فوجوں نے باندھ توڑ دیا فورا ایک سیلاب آیا اور نواب کے تقریبا نصف لشکر کو بہا کر لے گیا ۔
کیونکہ پیہم شکستوں کے بعد انگریزوں نے ادھر ادھر سے سرکاری فوجیں ، تربیت یافتہ لوگ اور جدید جنگی ہتھیار جمع کرکے اپنی طاقت مضبوط کر لی تھی اس لئے نواب کی فوجی طاقت کمزور ہوتی جا رہی تھی ۔پھر کنکھل کا کمر توڑ حادثہ پیش آگیا پھر آنبہ سوت کا معرکہ ہوا جس میں نواب کی فوج کے افسران اور فوج نے جان توڑ کر جنگ کی لیکن شکست ہوئی نواب کے بہت سے فوجی و افسران شہید ہو گئے شہر نجیب آباد خالی ہو گیا ۔ انگریزی فوج نے شہر کے اکثر حصوں میں آگ لگادی نواب کے متعلقین کے مکان منہدم کر دےئے گئے ۔ اور آتشزدگی کا الزام شہر کے ہندوؤں پر لگایا ۔ جلال الدین خاں ( نواب محبوب کے بھائی ) اور سعید اللہ خاں ( سابق منصف امروہہ ) گرفتار ہو کر قتل ہوئے ۔ 29تاریخ کو سرکاری فوج نے بگینہ پر چڑھائی کر دی اور فتح پائی ۔ نواب کے جاں نثاروں نے مقابلہ کیا اور اکثر شہید ہوئے اس بار دلیل سنگھ نے بھی زبردست بہادری کا ثبوت دیا اور نواب کے فوجیوں نے انگریز فوج کے لفٹینٹ کاسٹلنگ کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
ضلع بجنور کے حالات بھی ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے کچھ مختلف نہ تھے ۔ افلاس ، جہالت آپس کی پھوٹ ۔ مخبروں اور جاسوسوں کی غداریاں ، فوج کی عدم تربیت ، نظم کی خامیاں جدید ہتھیاروں کا فقدان دیگر مقامات کے مجاہدین سے رابطوں کی دشواریاں ایسے حالات تھے کہ نواب محمود خاں کی ہمت بھی جواب دے گئی ۔
اس مضموں کا اختتام بہتر ہوگا کہ سر کشی ضلع بجنور کے لائق مرتب ڈاکٹر شرافت حسین مرزا مرحوم کے ان الفاظ سے کیا جائے ۔
’’ انقلابیوں کی شکست کے بعد نواب اور ان کے ساتھی نجیب آباد کو خالی کر گئے ۔۔ جلال الدین خاں اور سعید الزماں کو کوٹ قادر سے گرفتار کرکے 23اپریل 1857کو ن جاں باز وطن کو گولی کا نشانہ بنا کر ان کی طرف سے بے فکری حاصل کر لی ۔ کہ مجاہدین کو شکست کے بعد جام شہادت نصیب ہوا بعض انگریزی فوج کی پھانسی اور بندوق کی ضد میں آئے ۔ نواب محمود خاں معہ اپنی بیگم چند انقلابیوں کے نیپال کی طرف چلے گئے اور بعض اطلاعات کے مطابق دھوکر کے قریب وہاں کی نا موافق آ ب و ہوا کے زثر سے انتقال کیا ۔ ( ضمیمہ شرکشی ص ۳۳۳)
جواب دیں