نوجوان حیاء سے عاری ایکٹرس اور فیشن پرست کھلاڑیوں کو نمونہ نہ نائیں

مسلمانوں کیلئے رسولِ رحمت ا بہترین نمونہ ہیں۔ مولانا غیاث احمد رشادی صدر صفا بیت المال انڈیا

یہ بات قابلِ حیرت اور باعثِ ملال ہے کہ آج کل مسلم نوجوان ننگے ناچنے والوں اور بے حیائی کے ساتھ کھیلنے والے کھلاڑیوں کی نقالی میں مست و مگن ہیں۔ انہیں اس گھٹیا اور بیہودگی پر مبنی فیشن کو اختیار کرتے ہوئے کوئی جھجک ہی محسوس نہیں ہوتی۔ بہت سارے ایسے نوجوان جن کا تعلق حسب و نسب کے اعتبار سے اعلیٰ خاندانوں سے ہے اور برسوں سے جن کے باپ دادا تہذیب و تمدن کے دائرہ میں زندگی بسر کرتے رہے ، آج ان کی اولاد انتہائی گھٹیا اور تہذیب و تمدن سے عاری فیشنوں میں ڈوب چکی ہے اور انہیں اتنا سونچنے کا بھی وقت نہیں ہے کہ وہ ایک انسان کی اداکاری نہیں بلکہ جانوروں اور اوباشوں کی اداکاری کررہے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی بے داغ کامیاب اور مہذب زندگی گزارنے کے لئے رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونہ بنائیں، اس لئے کہ قرآنِ مجید نے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک اور پاکیزہ زندگی کو قرار دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا غیاث احمد رشادی صدر صفا بیت المال انڈیا نے اپنے صحافتی بیان میں کیا ۔ مولانا غیاث احمد رشادی نے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ پھٹے پرانے کپڑے مسکین و محتاج قسم کے فقیر پہنتے تھے، اب اسی فقیری نہج کو نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے اختیار کرلیا۔ نوجوان لڑکوں کے پتلون کے دونوں گھٹنوں کے حصے پھٹے ہوئے نظر آتے ہیں، پوچھنے پر کہا جاتا ہے کہ یہ بھی ایک فیشن ہے۔ پہلے لوگ پھٹے ہوئے کپڑوں کو سی لیتے تھے اور پھٹا ہوا کپڑا پہننا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اب لوگ اپنے گھٹنوں کے حصوں کو پھاڑ کر پہننے کو مستحسن اور فیشن کا درجہ دے چکے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کے مونڈھوں کے حصے کھلے ہوئے نظر آرہے ہیں اور ایسے حصہ کو جس کا چھپانا مہذب سمجھا جاتا تھا، اب اس کو دکھانا مہذب ہوگیا۔ بعض منچلے قسم کے نوجوانوں کو بکثرت دیکھا جارہا ہے کہ مینڈھوں کی طرح وہ اپنے سر کے بالوں کا حشر کرچکے ہیں۔ سرکے اوپر کے لمبے بال آسمان کی جانب اور سر کی دائیں اور بائیں جانب کے بال پوری طرح غائب۔ افسوس کہ ہمارے وہ نوجوان جن کو مذہب اسلام نے معیاری اور مہذب زندگی گزارنے کا پیارا اور پسندیدہ طریقہ دیا تھا، ان محروم القسمت نوجوانوں نے اس پیاری اور پسندیدہ تہذیب کو اپنی زندگی سے نکال دیا۔ مساجد کے ائمۂ کرام و خطباء عظام جمعہ کے موقع پر نوجوانوںکو اس بے راہ روی اور بے حیائی کی زندگی گزارنے سے حکمت بھرے انداز میں روکنے کی کوشش اور فکر کریں۔ مشائخین عظام اپنے حلقہ کے نوجوانوں کو سیرت رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے آگاہ کریں اور ماں باپ اپنے نوجوان بچوں کو پیار و محبت سے سمجھائیں کہ جس روش پر وہ زندگی گزار رہے ہیں وہ جانوروں سے بدتر زندگی ہے۔ اس گھٹیا زندگی کا اثر خود ان کی زندگی پر پڑے گا اور ان کی اولاد پر بھی اس کے بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ مولانا نے نوجوانوں کی اس طرزِ زندگی پر ملال اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کی اس بے لگام زندگی سے دیگراقوام تک اسلام اور مسلمانوں کی جانب سے غلط پیغام پہنچے گا۔

«
»

فلسطین، مسلم ممالک اور مسجد الاقصیٰ کا میزبان ہے

رام،رامائن، دسہرہ اور ہند۔اسلامی تہذیب کے نقوش

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے