نٹور سنگھ کی کتاب میں غلط بیانی

سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے جو یہ مذکورہ بات کہی ہے، یہ اس پیرائے میں بالکل غلط ثابت ہوتی ہے کہ نہرو خاندان نے ملک کے لیے جس طرح قربانیاں دی ہیں کوئی نہیں دے سکتا۔ ان کے بعد مسز اندرا گاندھی نے جس طرح اپنے والد سابق وزیر اعظم جواہر نعل نہرو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کی خدمات انجام دیتے ہوئے شہید ہوگئیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اسی طرح راجیو گاندھی بھی اپنی ماں مسز اندرا گاندھی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ مسز اندرا گاندھی کو جس طرح قتل کیا گیا تھا وہ انتہائی دردناک تھا۔ اس کے پیش نظر راجیو گاندھی وزارت عظمی کے مقصد سے انکار کر دیتے لیکن انھوں نے اس منصب کو قبول کیا۔ ان کو بھی کسی بے دردی سے قتل کیا گیا یہ دنیا جانتی ہے۔ مسز اندرا گاندھی نے اپنے دور حکومت میں چند وجوہ کے باعث گولڈن ٹیمپل پر بلو اسٹار آپریشن کرایا تو سکھوں کے مارے جانے کی وجہ سے ملک میں حاسلات بہت تشویش ناک ہوگئے تھے اور بات یہاں تک ہوئی تھی کہ مسز اندرا گاندھی کے جو دو باڈی گارڈ تھے وہ سکھ تھے مسز اندرا گاندھی کے چند خاص مشیروں نے مشورہ دیا تھا کہ حالات کے پیش نظر آپ کے ان سکھ باڈی گارڈ کی جگہ دوسرے باڈی گارڈ ہونے چاہیے۔ مسز اندرا گاندھی نے فوراً کہا تھا ’’تو ہمارا سیکولرازم کہاں جائے گا۔‘‘ انھوں نے اپنے باڈی گارڈ تبدیل نہیں ہونے دئیے اور ان باڈی گارڈ نے کیا کیا دنیا جانتی ہے۔
راہل گاندھی مسز اندرا گاندھی کے پوتے ہیں۔ خون میں حب الوطنی، ملک و قوم کے تئیں خدمات اور قربانی کے جذبات ان میں فطری طور پر موجود ہیں، اس روشنی میں راہل گاندھی مسز سونیا گاندھی کو وزیر اعظم بننے سے نہیں روک سکتے تھے۔ وہ ہر لحاظ سے باشعور ہیں اور وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس طرح روکنا یعنی سکی خوف کے پیش نظر وزیر اعظم بننے سے مسز اندرا گاندھی کو روکنا ہماری تضحیک ہے۔ مسز سونیا گاندھی نے خود سیاسی حالات کو بگڑنے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ہند کی وزیر اعظم نہیں بنیں گی۔ اور مکل کے حالات بگاڑنے والے بی جے پی کے لیڈر تھے۔ موجودہ وزیر خارجہ ششما سوراج نے اس وقت یہ کہا تھا کہ مسز سونیا گاندھی اگر ملک کی وزیر اعظم بنیں تو میں گنجی ہوجاؤں گی، زمین پر سوؤں گی اور بھنے چنے کھاؤں گی۔ تمام بی جے پی کے لیڈر اتحادی صورت میں اس بات پربضد تھے کہ مسز سونیا گاندھی کو یہ منصب نہیں لینے دیں گے کیونکہ یہ غیر ملکی ہیں۔ اس روشنی میں انھوں نے اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ یہ بی جے پی کے لیڈر پورے ملک میں انتشار پھیلائیں گے، فسادات اور قتل عام کرائیں گے۔ اور ایسے تمام معاملات، حالات کا باعث صرف میں ہوں گی۔ اس لیے انھوں نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزیر اعظم بنانا منظور کیا۔ اور خود پیچھے ہٹ گئیں۔ اس عمل سے ہمارے سجھ بھائی بھی بہت خوش ہوئے۔ ان کا یہ قدم عالمی سطح پر قابل ستائش تھا اور ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں ان کا یہ مذکورہ عمل ایک اہم کارنامہ ہے۔ اس طرح نہرو اور گاندھی خاندان کی ملک کی خدمات اور قربانیوں کے مدنظر نٹور سنگھ کی مذکورہ بات قطعی طور پر کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ 

«
»

عراق جنگ کا ایندھن بھارت کے مسلم نوجوان

یہ کن کی لاشیں تڑپ رہی ہیں،یہ کن کا تازہ لہورواں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے