جہاں اس کی افواج ایک عشرے سے زائد عرصے سے عالمی دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ اگرچہ ابھی تک افغان مشن ختم نہیں ہوا ہے تاہم اس دفاعی نوعیت کے عالمی اتحاد نے اپنی توجہ ایک مرتبہ پھر یورپ پر مرکوز کر لی ہے۔
نیٹو نے رواں برس یورپ میں متعدد فوجی مشقوں کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے، جن میں سب سے زیادہ اہم بحیرہ روم میں ہونے والی مشقیں ہیں۔ پچیس اکتوبر سے چھ نومبر تک جاری رہنے والی Brilliant Mariner 13 نامی یہ مشقیں گزشتہ سات برسوں میں نیٹو کی طرف سے کی جانے والی سب سے بڑی مشقیں قرار دی جا رہی ہیں۔ اٹلی کے مغربی ساحلی علاقے میں واقع بحیرہ تیرانی میں جاری ان مشقوں میں چھ ملکوں کے 23 جنگی جہازوں کے علاوہ آٹھ ممالک سے تعلق رکھنے والے پانچ ہزار سے زائد فوجی حصہ لے رہے ہیں۔ ان مشقوں میں روایتی بحری جنگ، فضائی حملے اور انسداد دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں کے علاوہ ریسکیو آپریشنز پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے بتایا ہے کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی ان عسکری مشقوں کے لیے جرمنی، اٹلی، اسپین، برطانیہ، فرانس اور ترکی کے جنگی بحری جہاز شریک ہیں۔ یورپ میں نیٹو کے سپریم کمانڈر امریکی جنرل فیلپ بِریڈلو کہتے ہیں، آئندہ کچھ برسوں میں اس طرح کی عسکری مشقیں ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ افغان مشن کے خاتمے کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ 2014 کے بعد نیٹو ایک تعینات فورس کے بجائے کسی بھی ممکنہ کارروائی کے لیے ایک تیار فورس ہوگی۔ جنرل فیلپ بِریڈلو نے مزید کہا کہ چونکہ اس مشن کے دوران ہر ممبر ملک نے اپنی اپنی آرا دی ہے، اس لیے گزشتہ بارہ برسوں کے دوران نیٹو کی قابلیت میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا، لیکن جب آپ کچھ نہیں کریں گے تو وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی اہلیت پر فرق پڑنے لگ جائے گا۔
یہ امر اہم ہے کہ نیٹو کے آپریشنز میں یہ تبدیلی ایسے وقت میں آئی ہے، جب اس عسکری اتحاد کے رکن ممالک کو مختلف نوعیت کے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکا نے اپنی پالیسی میں ایک اہم تبدیلی لاتے ہوئے ایک ایسے وقت میں اپنے عسکری وسائل ایشیا بحر الکاہل کے علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیے ہیں، جب یورپی ممالک نے اپنے ملٹری اخراجات میں کمی پیدا کرنا شروع کی ہے۔ دوسری طرف یورپی عوام اس بارے میں شک کا شکار ہیں کہ آیا فوجی نوعیت کے اخراجات پر توجہ دی جانا چاہیے یا نہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ نیٹو بالخصوص بحیرہ روم کے علاقوں میں اپنی نگرانی میں کوئی کمی پیدا کرے گا۔
نیٹو کے نائب سیکرٹری جنرل الیگزینڈر ورشبا کہتے ہیں، یہ واضح ہے کہ بحیرہ روم کے علاقوں کے ساتھ ساتھ شمالی افریقی ممالک میں کمزور طرز حکومت کے باعث اتحادی ممالک کو تحفظات لاحق ہیں۔ اسی طرح اٹلانٹک الائنس شامی بحران کے تناظر میں مشرقی بحیرہ روم میں روسی فوجی موجودگی کے فیصلے کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتی ہے۔
دریں اثنا شمال مشرقی یورپ میں بھی نیٹو نے فوجی مشقوں کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ روس کے لیے پریشانی کا باعث بن سکنے والی یہ مشقیں 2 تا 9 نومبر پولینڈ اور بلقان کی ریاستوں میں منعقد کی جائیں گی۔ ان میں نیٹو کے بیس رکن ممالک سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار فوجی شریک ہوں گے۔ 2006 کے بعد ان علاقوں میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر عسکری مشقوں کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ Steadfast Jazz نامی ان مشقوں میں یوکرائن اور فن لینڈ کے فوجی بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
امریکی جنرل بِریڈ لو کا اصرار ہے کہ ان ملٹری مشقوں کا مقصد روس کے کسی تصوراتی حملے کو ناکام بنانا نہیں ہے، شفافیت یقینی بنانے کے لیے ہم نے روسی افسران کو دعوت دی ہے کہ وہ ان مشقوں میں بطور معائنہ کار شریک ہوں۔ انہوں نے کہا کہ روس نے بھی اسی طرح ستمبر میں بیلاروس میں کرنے والی Zapad نامی اپنی فوجی مشقوں میں نیٹو کے معائنہ کاروں کو مدعو کیا تھا۔
نیٹو کی طرف سے 2013 میں کی جانے والی ان مشقوں کا اہم مقصد اپنی ری ایکشن فورس NRF کو مضبوط بنانا ہے۔ اس خصوصی فورس میں مختلف ممالک کے 13ہزار ماہر فوجی شامل ہیں۔ عالمی سطح پر ممکنہ طور پر جنم والے نت نئے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے یہ خصوصی فورس 2003 میں بنائی گئی تھی تاہم تب سے اس فورس نے کسی بڑے مشن میں حصہ نہیں لیا ہے۔ پاکستان میں 2005 میں آنے والے زلزلے اور امریکا میں کترینا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے البتہ NRF کے اہلکاروں نے خصوصی ریسکیو کارروائیوں میں حصہ لیا تھا۔
جواب دیں