نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کا تعصب

”جو کرے گا امتیازِ رنگ و خوں مٹ جائے گا“ 
عبدالعزیز
    ”لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہیں قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور با خبر ہے“ (الحجرات، آیت 13)۔ 
    صاحب تفہیم القرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سورہ الحجرات کی آیت13 کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ 
    ”پچھلی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کرکے وہ ہدایات دی گئی تھیں جو مسلم معاشرے کو خرابیوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ضروری ہیں۔ اب اس آیت میں پوری نوعِ انسانی کو خطاب کرکے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے۔ یعنی نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کا تعصب قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کرکے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھینچے گئے ہیں۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے اور کہیں ایک جغرافی خطے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہوجانا۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی ہے کہ جنھیں اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو، بلکہ اس تمیز نے نفرت، عداوت، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بدترین شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس کیلئے فلسفے گھڑے گئے ہیں۔ مذہب ایجاد کئے گئے ہیں۔ قوانین بنائے گئے ہیں۔ اخلاقی اصول وضع کئے گئے ہیں۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بناکر صدیوں اس پر عمل درآمد کیا ہے۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیل کو خدا کی چیدہ مخلوق ٹھہرایا اور اپنے مذہبی احکام تک میں غیر اسرائیلیوں کے حقوق اور مرتبے کو اسرائیلیوں سے فرو تر رکھا۔ ہندوؤں کے ہاں درن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی برتری قائم کی گئی، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، آج اس بیسویں صدی ہی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے انھیں دیکھ سکتا ہے۔ یورپ کے لوگوں نے بر اعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین نسل کے ساتھ جو سلوک کیا اور ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کرکے جو برتاؤ ان کے ساتھ کیا اس کی تہ میں بھی یہی تصور کار فرما رہا کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے حدود سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان، مال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انھیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لوٹیں، غلام بنائیں اور ضرورت پڑنے پر صفحہئ ہستی سے مٹادیں۔ مغربی اقوام کی قوم پرستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کیلئے جس طرح درندہ بنا کر رکھ دیا ہے اس کی بدترین مثالیں زمانہئ قریب کی لڑائیوں میں دیکھی جاچکی ہیں اور آج دیکھی جا رہی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفہئ نسلیت اور نارڈک نسل کی برتری کا تصور پچھلی جنگ عظیم میں جو کرشمے دکھا چکا ہے انھیں نگاہ میں رکھا جائے تو آدمی بآسانی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم اور تباہ کن گمراہی ہے جس کی اصلاح کیلئے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ 
    اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کرکے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں:
    ”ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہے، ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ درحقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شروع ہوئی تھی۔ اس سلسلہئ تخلیق میں کسی جگہ بھی اس تفرقے اور اونچ نیچ کیلئے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جس کے زعم باطل میں تم مبتلا ہو۔ ایک ہی خدا تمہارا خالق ہے،ایسا نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کو مختلف خداؤں نے پیدا کیا ہو۔ ایک ہی مادہئ تخلیق سے تم بنے ہو، ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ انسان کسی پاک یا بڑھیا مادے سے بنے ہوں اور کچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یا گھٹیا مادے سے بن گئے ہوں۔ ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوئے ہو، یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کے طریق پیدائش الگ الگ ہوں۔ اور ایک ہی ماں باپ کی تم اولاد ہو، یہ بھی نہیں ہوا ہے کہ ابتدائی انسانی جوڑے بہت سے رہے ہوں جن سے دنیا کے مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیدا ہوئی ہوں۔ 
    دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہوجانا ایک فطری امر تھا۔ ظاہر ہے کہ پوری روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو نہیں ہوسکتا تھا۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ بے شمار خاندان بنیں اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آجائیں۔ اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ، خدو خال، زبانیں اور طرزِ بودو ماند بھی لا محالہ مختلف ہی ہوجانے تھے اور ایک خطے کے رہنے والوں کو بعید تر ہونا ہی تھا، مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ اور نیچ، شریف کمین، برتر اور کمتر کے امتیازات قائم کئے جائیں۔ ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے، ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں، ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوق جمائے اور انسانی حقوق میں ایک گروہ کو دوسرے پر ترجیح حاصل ہو۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ ان کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی تھی۔ اسی طریقے سے ایک خاندان، ایک برادری، ایک قبیلہ اور ایک قوم کے لوگ مل کر مشترکہ معاشرت بنا سکتے تھے اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مدد گار بن سکتے تھے، مگر یہ محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیز کو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایا تھا اسے تفاخر اور تنافر کا ذریعہ بنا لیا گیا اور پھر نوبت ظلم و عدوان تک پہنچا دی گئی۔ 
    تیسرے یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہوسکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے۔ پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان یکساں ہیں، کیونکہ ان کا پیدا کرنے والا ایک ہے، ان کا مادہئ پیدائش اور طریق پیدائش ایک ہی ہے اور ان سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ہے۔ علاوہ بریں کسی شخص کا کسی خاص ملک، قوم یا خاندان میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس میں اس کے اپنے ارادہ و انتخاب اور اس کی اپنی سعی و کوشش کا کوئی دخل نہیں ہے۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہو۔ اصل چیز جس کی بنا پر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا، برائیوں سے بچنے والا اور نیکی و پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو۔ ایسا آدمی خواہ کسی نسل، کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو، اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے۔ اور جس کا حال اس کے برعکس ہو وہ بہر حال ایک کمتر درجے کا انسان ہے چاہے وہ کالا ہو یا گورا، مشرق میں پیدا ہوا ہو یا مغرب میں۔
    یہی حقائق جو قرآن کی ایک مختصر سی آیت میں بیان کئے گئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے مختلف خطبات اور ارشادات میں زیادہ کھول کر بیان فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر طوافِ کعبہ کے بعد آپ نے جو تقریر فرمائی تھی اس میں فرمایا تھا: 
    ”شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کر دیا۔ لوگو؛ تم انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک، نیک اور پرہیزگار جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا“ (بیہقی فی شعب الایمان، ترمِذی)۔
    حجۃ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں آپ نے ایک تقریر کی اور اس میں فرمایا: 
    ”لوگو؛ خبر دار رہو، تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ بتاؤ، میں نے تمہیں بات پہنچادی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں! یا رسول اللہ۔ فرمایا: اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں“ (بیہقی)۔ 
    ایک حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے: ”تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ لوگ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنا چھوڑ دیں اور نہ وہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ ذلیل ہوں گے“ (بَزار)۔
    ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ”اللہ قیامت کے روز تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو“ (ابن جریر)۔ 
    ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ”اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے“ (مسلم، ابن ماجہ)۔
    یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں رہی ہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کرکے دکھادی ہے جس میں رنگ، نسل، زبان، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں، جس میں اونچ نیچ اور چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور نہیں، جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ وہ کسی نسل و قوم اور ملک و وطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہوسکتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عمل شکل دی گئی ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام میں نہیں پائی جاتی نہ کبھی پائی گئی ہے۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بے شمار نسلوں اور قوموں کو ملاکر ایک امت بنا دیا ہے۔ 
    اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا بھی ضروری ہے۔ شادی بیاہ کے معاملے میں اسلامی قانون کفو کو جو اہمیت دیتا ہے اس کو بعض لوگ اس معنی میں لیتے ہیں کہ کچھ برادریاں شریف اور کچھ کمین ہیں اور ان کے درمیان مناکحت قابل اعتراض ہے، لیکن در اصل یہ ایک غلط خیال ہے۔ اسلامی قانون کی رو سے ہر مسلمان مرد کا ہر مسلمان عورت سے نکاح ہوسکتا ہے مگر ازدواجی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ زوجین کے درمیان عادات، خصائل، طرز زندگی، خاندانی روایات اور معاشی و معاشرتی حالات میں زیادہ سے زیادہ مطابقت ہو تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھی طرح نباہ کرسکیں۔ یہی کفائت کا اصل مقصد ہے، جہاں مرد اور عورت کے درمیان اس لحاظ سے بہت زیادہ بُعد ہو وہاں عمر بھر کی رفاقت نبھ جانے کی کم ہی توقع ہوسکتی ہے، اس لئے اسلامی قانون ایسے جوڑ لگانے کو ناپسند کرتا ہے، نہ اس بنا پر کہ فریقین میں سے ایک شریف اور دوسرا کمین ہے، بلکہ اس بنا پر کہ حالات میں زیادہ بین فرق و اخلاف ہو تو شادی بیاہ کا تعلق قائم کرنے میں ازدواجی زندگیوں کے ناکام ہوجانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے“۔  (تفہیم القرآن)

 

«
»

عہدنبویؐ میں نظام تعلیم……(دوسری قسط)

پھوٹے گی صبحِ امن لہو رنگ ہی سہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے