کیا عنوان دوں میں تیری شناسائی کو نسیم اختر شاہ قیصر مرحوم

 

              

 از: فتح محمد ندوی

گلستاں میں جاکے ہر اک گل کو دیکھا

 نہ تری سی رنگت نہ تری سی بوہے

 

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب سے تعلق کا دورانیہ کئی سال پر مشتمل ہے۔ تاہم جب سے شناسائی شروع ہوئی کبھی بھی تعلق خاطر میں تجدید مراسم کی نوبت ہی نہیں آئی۔آپ کی یہ خوبی تھی کہ آسمان کی بلندیوں پر رہتے ہوئے زمین سے مضبوط رشتہ باقی رہا ۔جس خاندان اور جن عظیم نسبتوں کے آپ حامل تھے۔ قلم وکتاب کی جن غیر معمولی صلاحیتوں سے مشیت ایزدی کی طرف سے آپ کو بھرپور نوازا گیاتھا۔معاصرین میں جو عظمت اور نشان امتیاز آپ کو حاصل تھا ۔غرض جو عزت ۔عظمت اور عبقریت آپ کے گلے کا ہار تھی۔یہ تمام نشانات امتیازات آپ کی پیشانی پر تاروں کے کہکشاں کی طرح جھلمل ہونے کے باوجود کبھی اپنے آپ بڑا نہیں سمجھا بلکہ بڑائی کے تمام مکروہ لوازمات کو اپنے پاؤں تلے روند کر اس شیطانی عمل سے ہمیشہ سخت بیراری اور براءت کا اظہار کیا ۔

کسی بھی حادثہ کی شدت کی سنگینی کا احساس اس شخصیت سے اپنے تعلق کی بنیاد پر ہوتاہے۔ میرے پاس قلم و کتاب کی وابستگی کے حوالے جو کچھ ہے برایے نام ہی سہی انہیں کے خوان علم کے چنے ہوئے ریزے ہیں۔قدم قدم پر ان کی شفقتیں اور رہنمائی ساتھ رہی۔ لیکن مجھ جیسے بے شمار لوگ آپ کی باغ و بہار شخصیت کے خوشہ چیں اور سحر کے اسیر تھے۔در اصل آپ کا ذہن ہر قسم کی منفیت ۔صارفیت اور نفاقی ہتھکنڈوں سے پاک صاف تھا ۔ان کی زندگی کھلی کتاب کی مانند تھی۔جس میں سب کچھ آئینہ کی طرح اندر باہر یکساں تھا۔اسی طرح ان کی شفقت اور چشم عنایت بھی صلائے عام تھیں ۔جو بھی آیا دامن مراد بھر کر لے گیا۔کسی کو مایوس نہیں کیا۔کسی کی دل شکنی نہیں کی بس دوائے دل بانٹنا ان کی زندگی کا مشن اور محبوب مشغلہ تھا ۔آپ کی اس ادائے دل نوازی اور درد آشنا دوستی اور محبت کو دیکھ کر میرے خیال سے ان کے احباب اور محبین میں سے کوئی اگر یہ دعوی کرے کہ شاہ صاحب کے نزدیک میری حیثیت تعلق خاطر کے لحاظ سے دوسروں سے کچھ زیادہ تھیں تو اس کا یہ گمان اور خیال میرے نزدیک غلط ہوگا ۔ان کے یہاں تعلق کے نام پر یہ تفریق نہیں تھی ۔جو بھی ان کے حلقہ زنجیر میں آیا بس وہ ان کا ہوگیا۔اس کی ضرورت ختم ۔ اب تمام وضعداریاں نبھانہ تعلق باقی رکھنا۔ رات دن خیریت معلوم کرنا اس کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ نا بلکہ اس کے گھرکے صحن کو اپنا گھر سمجھنا شاہ صاحب کی زندگی کا عنوان تھا۔میں خود شاہ صاحب کے نیاز مندوں میں شامل تھا۔برسوں میں سفر و حضر جلوت و خلوت میں ان کے ساتھ سائے کی طرح رہا۔غیر موجودگی میں ہر دن کسی نہ کسی صورت ربطہ ضرور ہوتا۔ان کی یہ بڑی خوبی تھی کہ وہ دوسروں سے تعلق کرنے میں انا کی مصنوعی تسکین کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔بلکہ ہر قسم کی ذاتی انا کے طلسم کو پاؤں تلے روند کر اپنے تعلق کو برقرار رکھتے تھے ۔ ان کا ذہن اس منفی خیال سے بھی پاک تھا کہ احباب تعلق خاطر کے لیے مجھ سے رابطے کریں گے تبھی میں ان سے اپنی شنائی قائم رکھو گا ۔ وہ تمام عمر اپنے بارے میں کبھی اس گمان میں مبتلاء نہیں ہوئے۔انہیں ہر صورت اپنی جانب سے رابطہ برقرار رکھنا تھا۔مزید اس رابطے میں کسی رشتے کی خاص شناخت نہیں تھی۔بیٹے بیٹیاں اہل خاندان عزیز و اقارب دوست و احباب سب برابر تھے۔بہت سے لوگ اپنے گھر والوں کے لیے محبوب سے محبوب تر ہوتے ہیں ۔لیکن باہر والوں کے لیے وہ اتنے ہی بد اخلاق اور بد کردار ہوتے ہیں ۔بہت سے اس کے برعکس ہوتےہیں ۔یعنی باہروالوں کے لیے اخلاق اور محبت کا پیکر اور بیوی بچوں کے لیے انتہائی بد مزاج اور برے فعل کے مرتکب ہوتے ہیں۔شاہ صاحب کا معاملہ اہل خانہ سے لیکر کر دوست و احباب تک یکساں تھا ۔ میں دہلی کے ایک سفر میں ان کے ساتھ تھا ۔ اس میں بشمول ان کی اہلیہ کے ان کے بیٹے اور بیٹیاں سبھی ساتھ تھیں۔میں خاموشی سے دیکھ رہا تھا کہ ان کی پوری فیملی آپسی میں ایک دوسرے سے ہنسی خوشی ہلکے ہلکے مزاق کے ساتھ گفتگو کررہے تھےجس میں والدین کے اخلاق ۔آداب اور تہذیب کی رداء کسی کی طرف سے چاک نہیں ہوپائی۔میں بیوی بچوں اور والد کے درمیان اس خوبصورت بیلنس کو بڑی حیران گی سے دیکھ رہا تھا۔شاہ صاحب نے مجھ سے بتایا کہ میں ہمیشہ اپنے بچوں کو کسی غلطی پر ڈانٹ اور غصہ کے بجائے در گزر سے کام لیتاہوں۔

 انہوں نے مجھے ایک دن بتایا کہ میں ہر دن بلاناغہ اپنی شادی شدہ بیٹیوں سے داماد اور ان کے والد سے فون سے خیریت معلوم کرتا ہوں۔

شاہ صاحب کے جسم و جاں سے محبت ہی محبت پھوٹتی تھی۔نفرت کی ہوا کا جھو نکا کبھی ان کے پاس سے ہوکر بھی نہیں گزرا ۔آپ کی اس خوئے دل نوازی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاہ صاحب رشتے اور تعلق نبھانے اور بنانے کے لیے ہی پیدا ہوئے تھے۔گزشتہ رمضان میں ایک بڑے عالم دین سید عظیم شاہ نوراللہ مرقدہ کا انتقال ہوا ہماری بھی ان سے عقیدت اور گہری محبت تھی۔نماز جنازہ میں شرکت کے لیے ہم مرحوم کے گاؤں سکروڈہ (اتراکھند) پہنچے تقریبا بارہ بجے شب میں جب نماز جنازہ کے لیے صفے تیار ہو رہی تھی۔تو میں نے اچانک دیکھا کہ شاہ صاحب بھی صف میں خاموش کھڑے ہوئے۔میں نے حیرانی سے پوچھا ۔شاہ صاحب آپ یہاں اتنی دور کیسے ۔فرمایا ۔کیا جائے رشتے ہیں نبھانے پڑ تے ہیں۔میں نے پوچھا کہ ان سے کیا رشتہ تھا ۔فرمایا کہ یہ ہماری ننیہالی خاندان کے رشتے میں آتے ہیں۔ 

میں سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ شاہ صاحب سے اپنی وابستگی۔ شناسائی اور بازیافت کو کیا نام دوں۔آپ کے لیےایک والد سے بڑھ کر میرے نزدیک کوئی عنوان نہیں ہوسکتاہے۔وہ حقیقت میں ایک مشفق ولد کی طرح تھے۔انہوں نے خود بھی ایک والد کی طرح ہر موقع پر اپنا کردار اکیا ہے۔کیا کررہے ہو ۔کیا پڑھ رہے۔کیا لکھ رہے ہو ۔بہت دن سے کچھ لکھا نہیں۔یہاں سے ان کی گفتگو شروع ہوتی۔ایک مرتبہ انہوں نے اچانک دارالعلوم وقف میں کچھ احباب کے ساتھ ۔ اس دن تو انہوں نے نظر انداز کردیا اتفاق سے اگلے دن پھر میں کسی کام سے دارالعلوم وقف میں انہیں لوگوں کے ساتھ گیا۔پھر ان کی نظر پڑگئی اب انہوں سخت ایکشن لیتے ہوئے فون کیا۔اور تنبیہ کی کہ غیر ضروری لوگوں کے ساتھ بہت وقت ضائع کررہے ہو۔یہ سب بند کرو۔

شاہ صاحب ہمیشہ گھر کے بہت سے نجی معاملات میں مجھ سے مشورہ کرتے ۔میری رائے کا انہیں خود بھی احترام تھا ۔پروفیسر محسن عثمانی ندوی کے نواسے اور سید احمد عبد اللہ کے بیٹے سید انس صاحب سے شاہ صاحب نے اپنی بیٹی کا رشتہ میرے مشورہ سے کیا۔اور دیگر معاملات میں بھی وہ مجھے شریک رکھتے تھے۔حتی کہ اب آخر میں ان کی محبت میرے تئیں اتنی بڑھ تھی۔کہ نجی زندگی کے بہت سے اہم راز اور مشورے مجھ سے کرتے۔ان کا چھوٹا بیٹا خبیب انور شاہ مجھ سے ایک دن کہنے لگا کہ ابو کے سب سے خاص آپ ہی تھے۔شاہ صاحب کے فرزند کی طرف سے اس جملے نے میرے حوالے سے اعتماد اور اعتبار سے بھی بالا تر محبت کا پیکر عطاء کردیا ۔

 بہر کیف آپ کی ان تمام مہربا نیوں۔ محبتوں بے پناہ شفقتوں اور گہری قلبی وابستگی اس پر آپ کے فرزند خبیب انور شاہ کے اعتراف کی مہر ثبت ہونے کے بعد میں اس گمان میں مبتلاء تھا کہ مجھ جیسا ربط و تعلق آپ کا شاید کسی اور سے نہ ہو تاہم ان کی وفات کے دن ہزاروں سوگواروں کی ان کے تئیں والہانہ وارفتگی اور تڑپ کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ آپ میری طرح نہ جانے کتنوں کے غمخوار اور محبو ب تھے۔اور کتنوں کے جذبات میری طرح آپ سے وابستہ تھے.

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

«
»

’پسماندہ مسلمانوں‘ سے ہمدردی حقیقی یا تقسیم کرنے کی سازش؟

جناب مقصود حسن صاحب: ایک مخلص اور کامیاب استاذ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے