نسیم انصاری۔ وہ روشن ستارہ جو ڈوب گیا

نسیم انصاری سے میری پہلی ملاقات ۱۹۷۲ء میں اسمبلی الیکشن کے ہنگاموں کے دوران ہوئی،لیکن دوستی و قربت ۱۹۸۷ء میں تب ہوئی، جب میں روزنامہ ’افکار‘ ایڈٹ کررہا تھا اور وہ سعودی عرب سے واپسی کے بعد روزنامہ ’ندیم‘ میں طنزیہ و مزاحیہ کالم ’’دیدہ و دانستہ‘‘ لکھنے لگے تھے ، اُس وقت ’ندیم‘ کی نئی صورت گری ہوئی تھی، وہ لیتھو سے آفسیٹ پر شام کے بجائے صبح کے اخبار کی صورت میں نکلنے لگا تھا، ایک دن کسی محفل میں ہماری ملاقات ہوئی تو نسیم صاحب نے ’افکار‘ کے تازہ اداریے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے قلم سے اداریے بڑے بروقت اور جاندار ہوتے ہیں۔ مجھے خوشی واطمینان ہوا کہ وہ معاصر ’ندیم‘ سے گہرے تعلق کے باوجود ’افکار‘ پڑھتے اور پسند کرتے ہیں۔ پھر کوئی بیس سال بعد ۲۰۰۶ء میں میرے قلم سے حج کا سفرنامہ ’ندیم‘ کے صفحات پر قسطوں میں شائع ہوا تو ملاقات پر تاکید کی کہ کتابی صورت میں اِسے ضرور شائع کریں اور اِس کا مقدمہ خود لکھنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن عجلت میں یہ کام نہیں ہوسکا، میں نے مطبوعہ سفرنامہ ’’مسافرِ حرم‘‘ کی ایک کاپی پہونچائی تو فون کرکے سفرنامہ کے مقدمہ کی تعریف کی حالانکہ وہ ایک نوآموز قلم کارہ مرضیہ عارف (میری بیٹی) کا لکھا ہوا تھا، اِس رویہ سے اُن کے دل کی وسعت اور ذہن کی کشادگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
میری نئی کتاب جب بھی شائع ہوتی تو میں نسیم انصاری صاحب کو پیش کرتا، بہت خوش ہوتے، مبارکباد دیتے اور جیب میں ہاتھ ڈال کر اُس کی قیمت ضرور ادا کرتے ، میرے احتجاج کو نظرانداز کردیتے۔ میری کتاب ’’مساجد بھوپال‘‘ اُنہوں نے کسی کو دیدی تھی، دو ڈھائی ماہ پہلے دوبارہ طلب کی، جو میں نے پہونچا دی، بسترِ علالت پر تو وہ کافی عرصہ سے دراز تھے لیکن ذرا طبیعت سنبھلتی اور اسپتال سے ڈسچارج ہوتے تو سرگرمیاں شروع ہوجاتیں، منشی حسین خاں ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ (ایم ایچ کے) میں بیٹھنے لگتے اور ادبی جلسوں کا اہتمام شروع کردیتے، آخری مرتبہ اسپتال جانے سے پہلے ہم چند احباب حاجی ہارون صاحب کے ہمراہ مزاج پرسی کے لئے اُن کے مکان پر گئے تو بڑے حشاش، بشاش نظر آئے۔ کمزوری کے آثار تو چہرے سے ہویدا تھے لیکن بیماری کی علامات چہرے بشرے پر طاری نہیں تھیں۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے بیماری سے ہمت نہیں ہاری تھی، نہ مایوس وخوفزدہ دکھائی دیتے تھے بلکہ زندگی کو مزید جینے اور مخصوص رکھ رکھاؤ کے ساتھ اُسے برتنے کا حوصلہ سینے میں دبائے ہوئے نظر آئے۔ اُس دن ڈیڑھ پونے دو گھنٹے کا وقت اُن کی صحبت میں کیسے گزر گیا؟ ہمیں احساس نہیں ہوا، وہ مسلسل گفتگو کرتے رہے۔ سیاسی، سماجی ، ادبی اور ملّی مسائل پر اپنے مخصوص لب و لہجے میں اظہارِ خیال کرتے رہے۔ وقف کے تعلق سے روزافزوں شکایات پر بھی کافی فکرمند تھے۔ اوقاف عامہ کے وہ ذمہ دار رہ چکے تھے اِس لئے فطری طور پر اُنھیں وقفیہ املاک کی بربادی پر تشویش تھی۔ باغ منشی حسین خاں کے کرایہ داروں کے مفادات کا تحفظ چاہتے تھے۔ منشی حسین خاں ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالتے رہے، جسے پروان چڑھانے میں اُن کی توانائیاں صرف ہوئی تھیں۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی اِس ملاقات کے بعد ہم واپس ہوئے تو قطعی اندازنہ تھا کہ اُن کی دائمی رخصت کا وقت قریب ہے اور اب اُن سے دوسری ملاقات نہیں ہوگی۔
نسیم صاحب سے ملنا جلنا گاہے بگاہے ہی ہوتا تھا، کسی ادبی مجلس میں، سماجی تقریب میں، سیاسی جلسے یا دوستوں کی محفل میں ملاقات ہوجاتی تھی، خوش مزاجی، خوش گفتاری اور دوست نوازی اُن کے مزاج میں رچی بسی تھی، وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، قادرالکلام شاعر، معیاری نثرنگار اور خوش بیان مقرر تو تھے ہی، شعری و ادبی محفلوں، سیمیناروں اور مذاکروں میں اپنا مافی الضمیر مدلل و مؤثر انداز میں پیش کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے تھے۔ نسیم صاحب کا حافظہ غضب کا تھا ، اُنہیں اساتذہ کے بے شمار اشعار اور مشاہیر کے اقوال ازبر تھے، وہ اپنی تحریر وتقریر میں اُن کے مناسب استعمال کا فن بھی جانتے تھے، اُنہیں برجستہ و برمحل اشعار کہنے پر بھی گہرا عبور تھا، اُن کی گفتگو کا پیرایہ اِتنا مؤثر ہوتا ، خاص طور پر لفظوں کی ادائیگی اِس سلیقہ سے کرتے کہ’ہم سن ہی نہیں رہے دیکھ بھی رہے ہوں‘ کا محاورہ مجسم ہوجاتا تھا۔ مزاحیہ کالم نگاری تو نسیم صاحب نے بعد میں شروع کی، کافی عرصہ پہلے سے وہ ہجویہ نظم لکھتے رہے تھے، جو کسی سے ناگواری یا الیکشن کے موقع پر کسی ناپسندیدہ امیدوار کے خلاف بغیر نام کے شائع ہوتیں اور لوگ لطف اندوز ہوتے، جہاندیدہ حضرات اندازہ لگالیتے کہ اِس پردۂ زنگاری میں کون ذاتِ شریف ہے! اُنہیں نظم کہنے پر بڑی قدرت تھی، بڑی موثر نظمیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں، جنہیں تحت میں پڑھنے کے باوجود مشاعروں میں، مترنم غزل گو شعراء پر وہ چھا جاتے ، نسیم انصاری سکہ بند ترقی پسند شاعر نہیں تھے، نہ جدیدیت کے علمبردا رتھے، اِس کے برعکس بہاؤ کی ضد پہ تیرنے کا مزاج ضرور رکھتے تھے، جس کا اُنہیں احساس تھا، وہ خود کو فرشتہ یا شیطان نہیں، انسان مانتے تھے، اُن کے مجموعہ کلام ’خواب تو جزیرے ہیں‘ کی پہلی نظم ’تعارف‘ سے اِس کی تصدیق ہوتی ہے، جس میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ نیکی وبدی سے اُن کا خمیر اُٹھا ہے اور نفس و ضمیر کی ترکیب سے اُن کی شخصیت تشکیل پائی ہے، اُن کی نظموں میں غنائیت کی تہہ میں ایک نوع کی افسردگی طاری نظر آتی ہے اور اِسی لئے وہ اپنے کئی اشعار میں غم کو سرمایہ حیات سے تعبیر کرتے ہیں، اُن کے یہاں سوگ میں ڈوبی ہوئی یہ غمناک فضا بہت نمایاں ہے لیکن نہ جانے کیوں بیشتر نقادوں کی نظر اُس تک نہیں پہونچ سکی۔
نسیم انصاری کے دو شعری مجموعے ’’روپ، ریت اور ویرانہ ‘‘ اور ’’خواب تو جزیرے ہیں‘‘ شائع ہوئے ہیں، اِس کے علاوہ باقی کلام تیسرے مجموعے ’’درد آشنا‘‘ میں جمع ہے، جو مرتب ہوگیا لیکن شائع نہیں ہوا ہے، اُن کے طنزیہ و مزاحیہ کالم بھی روزنامہ ’ندیم‘ کے صفحات پر بکھرے ہوئے ہیں، جنہیں شائع ہونا چاہئے تاکہ اِن کی روشنی میں نظم ونثر کے میدان میں اُن کے مقام کا تعین ہوسکے۔
یہ کالم اِس لیے بھی محفوظ کرنے کے قابل ہیں کہ اِس کے ذریعہ اُنھوں نے ’آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی ‘کئی داستانوں کو رقم کردیا ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں، اُن کی تحریروں میں فرقہ پرستی، بدعنوانی اور استحصالی نظام کے خلاف احتجاج کی دھمک سنائی دیتی ہے لیکن نہایت شگفتہ زبان اور دلنشیں پیرایہ میں، اُن کی نظر اِتنی تیز تھی کہ اپنے اِرد گرد پھیلی بے اعتنائی کو محسوس کرلیتے اور معاشرتی زندگی کی سچائیوں کا برملا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔ 
نسیم انصاری کا ہمارے بھوپال کے اُن شاعروں اور ادیبوں میں شمار ہوتا ہے، جنہیں قدرت نے زرخیز دماغ، رواں قلم اور دلنواز شخصیت سے نوازا تھا، اگر وہ یکسوئی کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تو اُن کا مقام و مرتبہ مزید بلند ہوتا اور کئی خانوں میں بٹی شخصیت یکجا ہوکر زیادہ نکھر جاتی، اُن کا سماجی شعور اور گہرا مطالعہ مختلف مواقع پر اپنا رنگ دکھاتا تھا اور بعض اوقات وہ بہت خودکلام (Loud)ہوجاتے ، جو جاگتے ذہن رکھنے والوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ 
نسیم انصاری کے حافظہ اور معلومات پر عبور کا ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے، ’ندیم‘ میں بھوپال کی تاریخ پر میرا ایک کالم شائع ہوا، کیونکہ ایک دو دن پہلے شہر کے معروف بڑے تالاب کے کنارے پر راجہ بھوج کا تصوراتی مجسمہ نصب ہوا تھا، جس پر ہندی و انگریزی اخبارات میں بے بنیاد باتوں کو تاریخ کا رنگ دے کر پیش کیا جارہا تھا، اِسی اثناء میں نسیم صاحب سے ملاقات ہوگئی، میرے مذکورہ کالم کی تائید میں اُنھوں نے ’’جگوا کچھوا‘‘ کے زمانے سے لیکر راجہ بھوج اور رانی کملا پتی کے عہد تک اِتنی معلوماتی گفتگو کی کہ میں سُن کر دنگ رہ گیا اور اُن کے حافظہ پر سبھی عش عش کر اُٹھے۔ 
نسیم انصاری کا ایک اور بڑا کام منشی حسین خاں ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کی حفاظت و ترقی ہے، اُس کی نئی عمارت کی تعمیر بھی اُن کی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ ایم ایچ کے کا قیام تو الحاج عبدالرؤف خاں صاحب کی خصوصی دلچسپی کا مرہون منت ہے لیکن اُس کی ترقی و توسیع میں نسیم انصاری آخر تک مصروف و منہمک رہے، کوئی اہم شخصیت بھوپال آتی تو اُن کی خواہش ہوتی کہ ایم .ایچ .کے. اُسے دکھائیں اور نئی نسل کی تعلیم وتربیت میں اُس کے کام سے واقف کرائیں، وہ مہمانوں کے سامنے اپنے انسٹی ٹیوٹ کی جو تفصیل بیان کرتے، وہ سننے سے تعلق رکھتی تھی، سبھی اِس سے متاثر ہوتے کیونکہ بلامبالغہ اِس کے ذریعہ سیکڑوں مسلم نوجوانوں کو ہنریافتہ بننے اور ملک و بیرونِ ملک اچھا جاب حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہورہے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اُن کی نیکیوں کو قبول فرماکر سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے۔ (آمین)

«
»

مسلمانوں کے مسائل ۔ بابری سے دادری تک

داعش کا بڑھتا خطرہ اور علماء اسلام کا اتحاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے