دوسروں کے ساتھ نرمی، حسنِ اخلاق اور سلام میں سبقت مطلوب

 

  ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

شریعت اسلامیہ میں جہاں انفرادی عبادت کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے، وہیں سب کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے، نرمی کے ساتھ پیش آنے، دوسروں کی خدمت کرنے، بڑوں کا احترام کرنے، اچھے اخلاق سے پیش آنے، تکبر وحسد سے بچنے، حتی الامکان گھر والوں اور پڑوسیوں کو خوش رکھنے، تمام لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کرنے اور سلام میں پہل کرنے کی خصوصی تعلیمات دی گئی ہیں تاکہ ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکے۔ سید الرسل وافضل البشر حضور اکرم ﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے، یعنی اب قیامت تک شریعت محمدیہ پر عمل کیے بغیر اخروی کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ خیر البریہ حضور اکرم ﷺ نے انقلاب برپا کرکے صرف ۲۳ سال میں اپنے قول وعمل سے ایسے معاشرے کو وجود بخشا جو قیامت تک انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ہمیں اپنے معاشرہ کی برائیوں پر قابو پانے کے لیے حضور اکرمﷺ کی کوشش سے وجود میں آئی صحابۂ کرام کی جماعت کی زندگی کو ہی اختیار کرنا ہوگا، جس کے لیے دیگر امور کے ساتھ مندرجہ ذیل اعمال پر عمل پیرا ہونا انتہائی ضروری ہے۔

تواضع وانکساری سے کام لیں:

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ تم تواضع (عاجزی وانکساری) اختیار کرو۔ یہاں تک کہ تم میں سے کوئی بھی دوسرے پر فخر نہ کرے اور نہ دوسرے پر زیادتی کرے۔ (مسلم) حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی صدقہ مال کو کم نہیں کرتا، اور جو جتنا زیادہ درگزر کرتا ہے اللہ اس کی عزت اتنی ہی زیادہ بڑھاتے ہیں اور جس نے اللہ کے لیے تواضع کی اللہ نے اسے بلند کیا۔ (مسلم) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جس پیغمبر کو بھی بھیجا ہے اس نے بکریاں چرائیں۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا: اور آپ بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں۔ میں اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط پر چراتا تھا۔ (بخاری) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضور اکرم ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ گھر میں کام بھی کیا کرتے تھے۔ جب نماز کا وقت ہوتا تو آپﷺ فوراً نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے جاتے۔ بخاری

دوسروں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں:

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ نرمی کرنے والے اور نرمی کو پسند کرنے والے ہیں، اور نرمی پر وہ کچھ دیتے ہیں جو سختی پر نہیں دیتے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اور چیز پر دیتے ہیں۔ (مسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) کھڑے ہوکر مسجد (کے صحن ) میں پیشاب کرنے لگا تو لوگوں نے اسے پکڑا۔ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا کہ اسے چھوڑدو اور اس کے پیشاب پر پانی بہادو کیونکہ تم نرمی کے لئے بھیجے گئے ہو، سختی کے لئے نہیں۔ (بخاری) آپ ﷺنے اس دیہاتی کو پیشاب کرتے وقت روکنے سے منع فرمایا تاکہ پیشاب بند کرانے کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف نہ ہوجائے، لیکن پیشاب کے بعد اُس جگہ جہاں اُس نے پیشاب کیا تھا، وہاں آپﷺ نے پانی بہانے کا حکم دیا۔

تکبراور حسد سے بچیں اور کسی شخص کو حقیر نہ سمجھیں:

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: زمین میں تو اکڑکر مت چل۔ (سورۃ الاسراء۳۷)اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے: اور تو اپنے رخسار کو لوگوں کے لیے مت پھلا اور زمین میں اکڑکر نہ چل۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر متکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔ (سورۃ لقمان ۱۸)حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ایک ذرّہ کے برابر بھیتکبر ہو۔ ایک شخص نے پوچھا بے شک آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے خوبصورت ہوں اور اس کے جوتے خوبصورت ہوں۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ جمال والے ہیں اور جمال کو پسند کرتے ہیں۔ کِبْر حق کو ٹھکرانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (مسلم) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی تکبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سرکشوں میں لکھا جاتا ہے، پس اس کو وہی سزا ملے گی جو ان کو ملے گی۔ ترمذی

سب کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں:

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: بے شک آپ اعلیٰ اخلاق پر ہیں۔ (سورۃ ن ۴)آپ ﷺ کے خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ، جنہوں نے مدینہ منورہ میں نبی اکرم ﷺ کی دس سال خدمت فرمائی تھی، حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ لوگوں میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح فرمان رسول ﷺ ہے: مؤمن کے میزان میں قیامت کے دن حسن اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز بھاری نہ ہوگی۔ بے شک اللہ تعالیٰ بدکلامی اور بے ہودہ گوئی کرنے والے کو ناپسند کرتے ہیں۔ (ترمذی) رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا۔ لوگوں کو جنت میں لے جانے والے اعمال کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا ڈر اور حسن اخلاق۔ پھر آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسی چیزیں لوگوں کو زیادہ آگ میں لے جانے والی ہیں؟ فرمایا: منہ اور شرمگاہ۔ (ترمذی) نیز نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کامل مؤمن وہی ہے جس کا اخلاق اچھا ہو۔ اور تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے بارے میں سب سے بہتر ہوں۔ (ترمذی)نیز فرمانِ رسولﷺ ہے: بے شک مؤمن اپنے حسن اخلاق سے ہمیشہ روزہ رکھنے والے اور شب بیدار کا درجہ پالیتا ہے۔ ابوداود

سلام میں سبقت کریں:

انسان کا مزاج اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ وہ دوسرے انسان سے ملاقات کے وقت محبت کے پیغام پر مشتمل کوئی جملہ دوسرے شخص کو مانوس وخوش کرنے کے لیے کہتا ہے۔ مثلاً ہندو لوگ ملاقات کے وقت نمستے یا نمسکار کہتے ہیں، کچھ ہندو رام رام کہتے ہیں، اور انگریزی داں طبقہ گڈمارننگ، گڈ اویننگ اور گڈ نائٹ جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ حضور اکرمﷺؔ کی بعثت سے قبل زمانۂ جاہلیت میں بھی ملاقات کے وقت مبارکبادی کے کلمات کہنے کا رواج تھا۔ لیکن جب مذہب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم پر آپ ﷺنے ملاقات کے وقت (السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ) کہنے کا طریقہ جاری فرمایا۔ اس کے معنی ہیں کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سلامتی ہو۔ اِن کلمات سے نہ صرف محبت کاپیغام دوسرے کو پہنچتا ہے بلکہ یہ بہت جامع دعا بھی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو تمام بری چیزوں، بلاؤں، آفتوں، مصیبتوں اور تکلیفوں سے محفوظ اور سلامت رکھے، پھر سلام کرنے والا سلامتی کی اس دعا کے ضمن میں گویایہ بھی کہہ رہا ہے کہ تم خود بھی مجھ سے سلامت ہو میرے ہاتھ اور زبان کی تکلیف سے ۔

قرآن وحدیث میں بار بار سلام کرنے کی تعلیم وترغیب دی گئی ہے۔ اختصار کے مد نظر صرف دو آیات کا ترجمہ پیش ہے: پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے نفسوں کو سلام کرو، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے مبارک اور پاکیزہ۔ (سورۃ النور ۶۱)جب تمہیں تحفۂ سلام دیا جائے تو تم اس کو سلام دو اُس سے بہتر یا اسی کو لوٹا دو۔ (سورۃ النساء ۸۶)یعنی جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر الفاظ میں یا کم از کم انہیں الفاظ کے ساتھ سلام کا جواب دو۔ سلام کی اہمیت اور فضیلت کے متعلق متعدد احادیث بھی کتب حدیث میں موجود ہیں۔ صرف دو احادیث پیش کررہا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم جنت میں نہیں جاسکتے جب تک ایمان نہ لاؤ، اور تم ایمان والے نہیں جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلادوں کہ جب تم اس کو اختیار کرو تو باہمی محبت پیدا ہوجائے۔ (اور وہ اہم بات یہ ہے کہ) اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ۔ (مسلم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنت کے حصول کے لیے سلام کرنے میں سبقت کرنی چاہئے۔ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ اسلام کی کونسی بات سب سے اچھی ہے؟ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: تم کھانا کھلاؤ، اور دوسروں کو سلام کرو خواہ اُن کو پہنچانتے ہو یا نہ۔ (بخاری ومسلم) یعنی ہر شخص کو سلام کرنا چاہئے۔

سلام کرنے کے بعض احکام: (السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ)گڈمارننگ، گڈ اویننگ اور گڈ نائٹ کی طرح صرف الفاظ کا نام نہیں، بلکہ آپس میں محبت اور تعلق پیدا کرنے کا اچھا عمل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بہترین دعا بھی ہے۔ اسلام میں سلام کرنے کی خاص اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں جہاں ہر عمل کے احکام وآداب بیان کیے گئے ہیں، وہیں سلام کرنے کے بھی احکام وآداب بیان کیے گیے ہیں، مثلاً: سلام کرنا سنت ہے ، مگر اس کا جواب دینا واجب ہے۔ سلام اور اس کا جواب اچھی نیت کے ساتھ سنت کے مطابق جمع کے صیغہ کے ساتھ دیا جائے ،اگر چہ مخاطب ایک شخص ہی کیوں نہ ہو، تاکہ فرشتے (کراماً کاتبین ) جو ہر ایک کے ساتھ ہیں سلام میں مخاطب کے ساتھ شامل ہوں اور ان کو سلام کرنے کا بھی ثواب مل جائے ، اور پھر جب وہ سلام کا جواب دیں تو ان کی دعا بھیہمیں مل جائے ۔ اسی طرح سوارشخص پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں، یہ حکم صرف تواضع و انکساری کی طرف راغب کرنے کے لیے ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر یہ لوگ سلام نہ کریں تو ہم پہل بھی نہ کریں، بلکہ ہم سلام میں پہل کرکے زیادہ ثواب کے حقدار بن جائیں۔ نیز حدیث میں وارد ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا (اس عمل کی وجہ سے) تکبر سے پاک ہے ۔ (شعب الایمان) تکبر کابہترین علاج یہ بھی ہے کہ ہر ملنے والے مسلمان کو سلام کرنے میں سبقت کی جائے۔ نیز ہم آپس میں ملاقات کے وقت بات چیت اور گفتگو سے قبل سلام کریں۔ عصر حاضر میں ٹیلیفون اور موبائل بھی ملاقات کا ایک ذریعہ ہے ، اس لیے سلام کرنے کا جو حکم آپسی ملاقات کا ہے وہی فون کرتے اور اٹھاتے وقت کا ہوگا، لہٰذا (ہیلو) کے بجائے (السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ)کہنا بہتر ہوگا۔ بعض مواقع اور حالتیں سلام سے مستثنیٰ ہیں، اس سلسلہ میں فقہاءِ کرام کی تشریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ چند صورتوں اور حالتوں میں سلام نہیں کرنا چاہئے۔ جب کوئی اطاعت میں مشغول ہو، مثلاً نماز، ذکر، دعا، تلاوت، اذان واقامت، خطبہ یا کسی دینی مجلس کے وقت ۔جب کوئی بشری حاجت میں مشغول ہو، مثلاً کھانے پینے ،سونے اور پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت۔ جب کوئی معصیت میں مشغول ہو مثلاً شراب پی رہا ہو، تو اس موقع پر سلام نہیں کرنا چاہئے ۔

تاریخ شاہد ہے کہ اسلام مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور اُن کے ساتھ نرمی کرنے کی وجہ سے پھیلا ہے، مگر عام طور پر آج ہمارے اندر یہ امتیازی صفت موجود نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلافکے نقش قدم پر چل کر جو باتیں ذکر کی گئی ہیں، انہیںاپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سب کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنے والا اور سلام میں پہل کرنے والا بنائے۔ آمین۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

04فروری2021

 

«
»

’اندھیر نگری، چوپٹ راجہ‘… نواب علی اختر

یہ کیا،میرے ملک کا دستور ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے