نریندر مودی کا دورہ امریکہ

یہ وہی نریندر مودی ہیں‘ جنہیں امریکی ویزا دینے سے انکار کیا جاتا رہا۔ ان کے دورہ کے خلاف زبردست مظاہرے کئے گئے۔ کیوں کہ ان کے ہاتھ اور دامن گجرات کے مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اب یہی نریندر مودی ہیں‘ جو بارک اوباما کے مہمان ہیں۔ جن کے دورہ سے پہلے ہی امریکی میڈیا پر خصوصی پروگرام نشر کئے جارہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں میں غیر معمولی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ نیویارک کے میڈیسن اسکوائر گارڈن جہاں 28؍ستمبر کو مودی خطاب کرنے والے ہیں‘ تمام نشستیں فروخت ہوچکی ہیں‘ ٹائم اسکوائر پر ہزاروں ہندوستانی قدآور اسکرین پر ان کو تقریر کرتا ہوا دیکھیں گے۔ خبر رساں ادارہ کے رائٹر کے مطابق نریندر مودی پہلی غیر ملکی شخصیت ہیں‘ جنہیں دیکھنے سننے کے لئے اس قدر کثیر تعداد میں لوگ اکٹھا ہوں گے۔ امریکہ کے مختلف ریاستوں سے ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانی ریالیوں کی شکل میں نیویارک پہنچ رہے ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق مودی کے دورہ کے سلسلہ میں 13ملین ڈالرس اکٹھا کئے گئے ہیں۔
امریکہ میں 3.2ملین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوستانی مقیم ہیں جو امریکی آبادی کا ایک فیصد ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی میں یہ امریکیوں سے کہیں قابل ہیں۔ انٹرنیٹ کا استعمال اُن کے مقابلہ میں زیادہ کرتے ہیں۔ اور ان کی سالانہ اوسط آمدنی ایک لاکھ ڈالرس سے زائد ہے۔ ان امریکی ہندوستانیوں نے ہندوستان کے نئے وزیر اعظم سے بہت ساری امیدیں وابستہ کررکھی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ مودی کے انتخابی مہم میں مہم کے لئے امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں نے غیر معمولی فنڈس اکٹھا کئے۔ ایک طرف گجرات فسادات کی وجہ سے مودی کی شبیہ مسخ ہوچکی تھی مگر امریکہ میں مقیم ہندوستانی جن میں گجراتیوں کی اکثریت ہے‘ وہ گجرات کے چیف منسٹر کو ہندوستان کے وزیر اعظم کی کرسی پر دیکھنے کے لئے بے چین تھی۔ اب وہ ان کے استقبال کے لئے بے چین ہیں۔
نریندر مودی کی 6روزہ دورہ امریکہ پر ساری دنیا کی نگاہیں مرکوز ہیں کیوں کہ امریکہ اگر سوپر پاور ہے تو ہندوستان سوپر پاور بننے کے لئے جدوجہد کررہا ہے۔ اسے عالمی سطح پر چین سے مقابلہ ہے اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے یا توازن کو برقرار رکھنے کے لئے امریکہ سے بہتر تعلقات بھی اس کے لئے ناگزیر ہے۔ ہند۔امریکہ کے درمیان تعلقات بہت زیادہ بہتر نہیں رہے۔ سرد جنگ کے دور میں ہندوستان سویت یونین کا حامی تھا جس کی وجہ سے امریکہ کی نگاہوں میں ہمیشہ کھٹکتا رہا۔ وکی لکس کے انکشافات کے مطابق اُس وقت کے امریکی صدر نے تو اس وقت کی ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے لئے ناشائستہ الفاظ بھی استعمال کئے تھے۔ وقت اور حالات بدل چکے ہیں۔ سویت یونین کا وجود باقی نہ رہا۔ امریکہ فی الحال ایک تنہا سوپر پاور کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کررہا ہے۔ اگرچہ کہ یہ داخلی بحران اور مالیاتی بحران سے گذرتا رہا اس کے باوجود اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہندوستان نے ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ اپنی طاقت اور اہمیت میں اضافہ کیا۔ ترقی پذیر ممالک کی صف میں نمایا ہیں۔ اور 24ستمبر کو اس کے مریخ کے مشن میں کامیابی کے بعد اس کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ نریندر مودی امریکہ کے دورہ سے کامیاب واپس ہوں گے۔ اس کا عالمی قائدین کو اندازہ ہے ۔ ان کے سامنے کئی مسائل ہیں جنہیں وہ اس تاریخ ساز دورہ اور امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقا ت کے دوران حل کرنا چاہتے ہیں۔ یقینی طور پر وہ امریکی امیگریشن بل پر اپنی تشویش کا اظہار کریں گے کیوں کہ اگر مسودہ قانون اس کی موجودہ شکل میں منظور ہوگیا تو ہندوستانی آئی ٹی انڈسٹری کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ بارڈر سیکوریٹی ایمیگریشن ماڈرنائزیشن ایکٹ (دفعہ 744) پر بھی وہ تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس میں لچک یا ترمیم کی تجویز پیش کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ ایمیگریشن ماڈرنائزیشن ایکٹ سے انٹرنیشنل آئی ٹی سرویسز میں H1B اور L1ویزا کی فیس میں اضافہ کے علاوہ کئی تحدیدات عائد ہوسکتی ہے۔
ایک اور اہم ترین مسئلہ سوشیل سیکوریٹی کے نام پر تارکین وطن کی تنخواہوں سے منہا کئے جانے والی رقم کی واپسی ہے۔ ہر سال ہندوستان سے اوسطاً 80ہزار ورکرس مشاورتی اور دیگر خدمات کے لئے امریکہ جاتے ہیں اور اپنی تنخواہ کا 15فیصد سوشیل سیکوریٹی فنڈ میں جمع کرتے ہیں۔ تاہم جب وہ ہندوستان واپس ہوتے ہیں تو یہ رقم سوخت کرلی جاتی ہے کیوں کہ امریکہ میں پنشن اسکیم سے استفادہ کے لئے وہاں کم از کم دس سال رہنا ضروری ہے۔ یہی اصول و قواعد ہندوستان میں مقیم امریکی ورکرس کے لئے بھی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ وزیر اعظم مودی‘ بارک اوباما سے بات چیت کے دوران اُن سے درخواست کریں گے کہ وہ مختصر مدت کے لئے بھی امریکہ میں خدمات انجام دینے والے ہندوستانیوں کو ان کے وطن کی واپسی کے وقت سوشیل سیکوریٹی کے نام پر حاصل کی گئی رقم واپس کردیں۔ ایک عام اندازہ کے مطابق دس بلین ڈالر کی رقم سوشیل سیکوریٹی فنڈ میں ڈپازٹ کی ہوئی ہے اگر یہ بات چیت کامیاب ہوجائے تو ایک اہم کارنامہ ہوگا۔ ہندوستان اور امریکہ میں سوشیل سیکوریٹی معاہدہ 2007ء میں طئے پایا گیا تھا۔ ہندوستان نے امریکی ورکرس کی سکوریٹی ڈپازٹ واپس کرنے سے اتفاق کیا تھا مگر امریکہ نے اس سلسلہ میں خاموشی اختیار کی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کے 22ممالک کے ساتھ سوشیل سیکوریٹی معاہدات ہیں جس کے تحت جب کوئی ورکر دس سال مکمل کرلیتا ہے تو اسے پنشن اسکیم سے استفادہ کا موقع ملتا ہے۔ ہندوستان چاہتا ہے کہ یہ معاہدہ کچھ اس انداز میں ہو کہ اگر کوئی ورکر ہندوستان میں چار سال امریکہ میں تین سال اور کسی اور ملک میں تین سال کام کرتا ہے تو اسے اس کی سوشیل سکوریٹی کی رقم واپس دی جانی چاہئے۔ اگر مودی اور اوباما اس مسئلہ پر اتفاق کرتے ہیں تو ہندوستان جنوبی کوریا کے بعد دوسرا ایشیائی ملک ہوگا جسے یہ مراعات حاصل ہوں گی۔ اس معاہدہ پر دستخط کے بعد امریکی صدر کو کانگریس میں یہ رپورٹ دینی ہوتی ہے کہ کتنے افراد اس سے متاثر ہوں گے اور امریکی سوشیل سیکوریٹی فنڈ پر اس کا کیا اثر ہوگا۔
یہ بھی امید کی جارہی ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم پی آئی او Persons of Indian Origin اور او سی آئی (Oversies Citizen of India)کارڈس کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کا اعلان کریں گے۔ پی آئی او کارڈس اُن ہندوستانیوں کو جاری کئے جاتے ہیں جن کی کم از کم دو نسلیں امریکہ میں مقیم ہیں اور او سی آئی کارڈس اُن ہندوستانیوں کو جاری کئے جاتے ہیں جو حال میں دوسرے ممالک کی شہرت حاصل کئے ہیں۔ او سی آئی کارڈ دراصل ویزا کی مانند ہے جس سے ہندوستان میں غیر معینہ مدت کے لئے داخلے کا استحقاق حاصل ہوا ہے۔ جبکہ پی آئی او کارڈس ہولڈرس کو ویزا کے لئے درخواست دینی پڑتی ہے۔ ان دو کارڈس نے ایک دوسرے میں انضمام سے پی آی ؤ کارڈ ہولڈرس کو وہی سہولتیں حاصل ہوسکتی ہیں جو او سی آئی کارڈ ہولڈرس کو حاصل ہے۔ یعنی ویزا کے بغیر ہندوستان کو سفر کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
ہندوستان اور امریکہ تجارت، دفاع، باہمی سرمایہ کاری پر زیادہ توجہ مرکوز کریں گے۔ امریکی کمپنیاں مودی حکومت کی تحریکات جیسے کلین انڈیا، ایجوکیشن میں سرمایہ کاری چاہتی ہے اور اگریکلچر اور فوڈ پروسیسنگ سیکٹرس میں بھی اسے دلچسپی ہے۔ انڈسٹریل پارکس، واٹر مینجمنٹ، فاضل اشیاء سے توانائی کی پیداوار، پانی کی صفائی جیسے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری امریکہ کے پیش نظر ہے۔ دفاعی شعبہ میں ہند۔امریکہ مشترکہ تعاون یقینی ہے۔ دہشت گردی دونوں ممالک کے لئے درد سر بناہوا ہے۔ القاعدہ اور اس جیسی تنظیموں سے امریکہ پریشان ہے۔ ہندوستان کو اگرچہ کہ زیادہ خطرات لاحق نہیں ہیں تاہم دہشت گرد تنظیموں کی نظریں ہندوستان پر بھی مرکوز ہیں جس سے نمٹنے کے لئے دونوں ممالک تعاون کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ سائبر سیکوریٹی کے شعبے میں ہندوستان امریکہ سے تعاون کا طلبگار ہوسکتا ہے یہ اور بات ہے کہ سائبر ٹکنالوجی میں بھی ہندوستان کی اپنی پہچان ہے۔ ہند۔امریکہ کے درمیان گذشتہ 25برس کے دوران تجارتی تعلقات غیر معمولی مستحکم ہوئے ہیں۔ 1990ء میں دونوں ممالک کے درمیان 5.6بلین ڈالرس کی تجارت ہوئی تھی جو 2013ء میں 63بلینڈ ڈالرس تک پہنچ گئی ہے۔
نریندر مودی جنہوں نے امریکی دورہ کے آغاز سے پہلے ہی سی این این کو دےئے گئے انٹرویو میں مسلمانوں کی ملک سے وفاداری اور ان کے جذبہ ایثار کا فراخ دلی کے ساتھ اعتراف کیا ہے۔ انہیں ابھی مخالف گروپس کے مظاہروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ مظاہرے مسلمان نہیں کررہے ہیں بلکہ انسانی حقوق کے علمبردار ادارے اور تحریکات منظم کرنے والے ہیں۔ سیاسی زندگی میں ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نریندر مودی بھی اپنے سیاسی کیریئر کے دوران مختلف نشیب و فراز سے گذرے ہیں۔ دنیا کی ایک عظیم جمہوریت کے قائد کی حیثیت سے وہ امریکہ میں کس طرح سے اپنے آپ کو منواتے ہیں۔ اس کے لئے دنیا کو انتظار ہے۔

«
»

حج کے نام پر ایرانڈیا کو سبسڈی دینا بند کیا جائے

بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے